"TSC" (space) message & send to 7575

آگے بڑھیں

کبھی پرانی انار کلی زندگی ہارتی ہے اورکبھی اجل شیخوپورہ میں ریلوے ٹریک کا پھاٹک کھلا پاکر زیست کوکچل دیتی ہے۔ آج سوہنی دھرتی مجید امجد کی کہی نظم ہی دکھائی دے رہی ہے۔ انہوں نے اپنی نظم ’’خودکشی ‘‘ میں کہاتھا: آو نا ! ہم بھی توڑ دیں اس دام ِ زیست کو سنگ ِ اجل پہ پھوڑ دیں اس جام ِ زیست کو بلاشبہ نانگا پربت پر سیاحوں کا قتل کرنے والوں نے اصل میں پاکستان کے رہے سہے ٹورازم کو ٹارگٹ بنایاہے۔دنیا میں متعدد ملک ایسے ہیں جن کی اکانومی کا پہیہ ٹورازم سے چلتا ہے۔ فرنگی کے برطانیہ سے لے کر کیپٹل ازم کے سومنات(امریکہ)تک کے معاشی ڈھانچے میں ٹورازم کو ریڑھ کی ہڈی کی سی اہمیت حاصل ہے، لیکن ارض پاک میںمیدانوں، گلیوں، کوچوں، بازاروں، مسجدوں،مدرسوں اور ہسپتالوں سے لے کر بلند ترین چوٹیوں تک دہشت گردوں کو اپنی کارروائیاں کرنے میں کسی قسم کی ’’دشواری‘‘ کا سامنا نہیںکرنا پڑتا۔ دہشت گردی کی واردات کے بعد آئی جی اورچیف سیکرٹری کو تو معطل کیاگیا، لیکن ’’غازی اورپراسرار بندوں‘‘سے باز پرس نہیں کی گئی۔ پیارے وطن میں دہشت گردی تو گذشتہ 35 سال سے بلاتعطل جاری ہے اوراس کی ’’لوڈشیڈنگ ‘‘ کبھی نہیںہوتی،لیکن اس حقیقت کو فراموش نہیںکیاجاسکتا کہ یہ پالیسیاں ہمارے جمہوری رہنماوں نے نہیں بنائی تھیں۔ریکارڈ گواہ ہے کہ میاں نوازشریف نے امریکہ سے موصول ہونے والے ٹیلی فونز مردانہ وار سنے اورپھر بھی ایٹمی دھماکے کردیے۔ اس کے برعکس پینٹا گون کی ٹرنک کال سن کر اپنے کمانڈوجنرل مشرف صاحب اٹن شن سے آسان باش ہوگئے تھے۔اس کے بعد پیارے پاکستا ن میں دہشت گردی کی امریکی فلم دوبارہ ریلیز کردی گئی۔اس بار فلم کانام ’’دہشت گردی کے خلاف روشن خیالی کی جنگ‘‘تھا۔اس سے قبل ہم نے روس کے خلاف امریکی سپانسرڈ جنگ لڑی تھی جسے جہاد کانام دیا گیا۔ یہ سب کچھ خطے میں فوجی حکمرانوں کی مرضی سے ہوتارہا اوراس سارے عمل میں ہمارے محب جمہوری نمائندے پچھلی صفوںمیں بیٹھے ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔ قومی سیاست کے افق پر چینی ماہتاب کے طلوع ہونے کے بڑے چرچے ہیں۔ اس سے قبل ہم نے اپنی ساری زندگی امریکی آفتاب کی پوجا کی۔ امریکی پرستش تو اب بھی جاری ہے، مگر کچھ عرصہ سے چینی ماہتاب بھی ہمیں اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہاہے کہ چینی وزیر اعظم سے وزیر اعظم پاکستان نوازشریف کی ملاقات اپنے نتائج کے اعتبارسے تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔بیجنگ میں پاکستانی شہریوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ دونوں رہنماوں کی ملاقات کے دوران پاکستان میں انرجی کے بحران کے خاتمے کے لیے باہمی تعاون پر مبنی کئی اہم فیصلے کیے گئے تاہم اس ملاقات کا سب سے اہم فیصلہ کاشغر سے گوادرتک 2ہزار کلومیٹر طویل شاہراہ تعمیر کرنے کا منصوبہ ہے۔ جسے ’’اکنامک کوری ڈور‘‘ کا نام دیاگیاہے۔خادم اعلیٰ کاشغر سے گوادر تک شاہراہ کو پاکستان کی ہتھیلی پر خوش قسمتی کی روشن لکیر قرار دے رہے ہیں۔لیکن ہمارے مقدر کے ستارے کے چمکنے کا دارومدار اس خونی لکیر کے مٹنے پر بھی ہے جو سوہنی دھرتی پرکھینچ دی گئی تھی اور جس کا نام دہشت گردی ہے۔چینی حکام نے پاکستانی وفد سے واضح الفاظ میں دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ اپنے تمام تر منصوبوں پر آنے والی لاگت اورپاکستان میں اپنے شہریوں کے تحفظ کی ضمانت مانگی ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ موجودہ حالات میں یہ ضمانت کوئی نہیںدے سکتا۔اگر ایساممکن ہوتاتو پیپلز پارٹی کے پانچ برسوں سمیت جنرل پرویزمشرف کے روشن خیال فوجی دور میں یہ معرکہ سر کرلیاجاتا۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ اس کا تعلق براہ راست ہماری بعض پالیسیوں سے بھی ہے۔جب تک ان میں بنیادی تبدیلی نہیںلائی جائے گی امن و امان قائم کرنا ممکن نہ ہوگا۔ پاکستان میں دہشت گردی کے ’’متنجن‘‘ کی دیگ چڑھادی گئی ، جس میں دیگ سے لے کر اس کے نیچے جلائی گئی آگ اوراس پر رکھی گئی ہانڈی‘ سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔دہشت گردی کا مکروہ دھندہ ایک عرصہ سے ’’کارپوریٹ بزنس ‘‘ کی شکل اختیار کرچکا ہے جسے ختم کرنا خاصا مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں۔میاں نوازشریف کو قوم نے مینڈیٹ دیاہے۔ انہیںاس منحوس دھندے کو ضرور نیست ونابود کرناچاہیے اورسیاسی قوتوں کو مل کر میاں صاحب کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہئیں۔ آخر میں ہمالیہ سے اونچی اورسمندر سے گہری دوستی والے اپنے ’’یار بیلی‘‘ چین کی بات کرتے ہیں۔ پاکستان اورچین کے تعلقات شروع سے ہی بہتر رہے ہیںمگر اسے دوستی میں بدلنے کا سہرا بھٹو صاحب کے سر ہے۔بھٹو صاحب نے امریکہ کے ساتھ ساتھ ایران، لبیا، عراق، سعودی عرب ،روس اورچین کے ساتھ خصوصی تعلقات قائم کیے۔ بھٹو صاحب نے مسلم امہ اوربعض دوسرے ممالک پر مشتمل تھرڈ ورلڈ بلاک بنانے کی کوششیں کیں۔امریکہ کو یہ بات انتہائی ناگوار گزری اوراس نے بھٹو صاحب کو رستے سے ہٹانے کے لیے جنرل ضیاالحق کے ہاتھوں ان کی حکومت کا تختہ الٹادیا۔ظاہری طور پر بھٹو صاحب کو ایک اندھے قتل کے ’’جرم‘‘ میں سزادی گئی تھی لیکن درحقیقت انہیںمسلم امہ کو اکٹھا کرنے ، اسلامی بنک قائم کرنے کی منصوبہ بندی اورایٹم بم بنانے کے جرم میں پھانسی کی سزا دلوائی تھی۔ یہ ہمارے قومی دکھوں کی کہانی کا فلیش بیک ہے۔ہم بڑے بدقسمت لوگ ہیںہمیں ذہین ، بہادر اور محب وطن لیڈر شپ بھی میسر رہی مگر ہم نے اسے اپنے ہاتھوںسے زندہ درگور کر دیا ۔ہمیں اپنے گناہوں کی اچھی خاصی سزا مل چکی ہے ،ہمارے ملک کی معیشت برباد ہوگئی ، امن وامان ایک خواب کی صورت اختیار کرگیاہے ،بے روزگاری چار سو رقصاں ہے ، کرپشن ہمارا طرہ امتیاز بن چکا ہے ،ہر طرف دہشت گردی کا طوفان ہے ۔لاہور میں ہونے والے ایک سیمینار میں صحافیوںاوروکلارہنماوں نے کہاکہ پارلیمنٹ اور دیگر ادارے ، آمروں اور ان کے ساتھیوں کے غیر قانونی اقدامات کو درست قرار نہیںدے سکتے، ماضی میں ان اداروں نے فوجی آمروں کے اقدامات کو تحفظ دیا ،3 نومبر کے اقدامات پر اکیلے پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6کے تحت ٹرائل نہیںہونا چاہیے،بلکہ ان کے مددگاروں کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔ان کے خیال میں احتساب 1956 ء سے لے کر اب تک تمام آمروں کا ہوناچاہیے۔ ذاتی خیال میں یہ مطالبہ درست ہے۔ آمروں کو مجرم قراردیاجانا چاہیے جو مختلف ادوار میں پاکستانی عوام کو ان کے اپنے ملک میں ہی ’’فتح ‘‘ کرتے رہے ہیں۔ان میں جنرل ایوب خان ایسے تھے جنہوں نے مارشل لانافذکیااورفیلڈمارشل بن بیٹھے تھے۔ لیکن سوچنے اورسمجھنے کی بات یہ ہے کہ کیااس وقت ایسا ممکن ہے کہ میاں صاحب کی نوزائیدہ ’’بچہ جمورا حکومت ‘‘ یہ ایڈونچر کرسکے ؟ جنرل پرویز مشرف کی ’’ہینڈ میڈ پارٹی ‘‘ قاف لیگ کے جنرل سیکرٹری مشاہد حسین نے تجویز پیش کی ہے کہ میاں صاحب کی حکومت جنرل مشرف کا ٹرائل کرنے کی بجائے عوام کے مسائل حل کرنے پر توجہ دے۔ لیکن ایک تجویز یہ ہے کہ میاں صاحب عوام کے مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ دفاعی اورخارجہ پالیسیوں کا رخ عوامی مفادات کے قبلے کی جانب دوڑنے کی کوششوں سے دستبردار نہ ہوں اورصدق دل سے یہ کام کرتے رہیں۔دہشت گردی کے معاملہ میں آل پارٹیز کانفرنسوں سے آگے بڑھ کر اس فیکٹر اورنیٹ ورکو جڑ سے اکھاڑنے کی حتمی کوشش کریں کیونکہ اسی میں ہماری بقا ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں