"TSC" (space) message & send to 7575

فقیراور بادشاہ کی کہانی

یہ ایک سچی کہانی ہے۔ قیام پاکستان سے قبل اندرون لاہور کے علاقہ بلال گنج کے محلہ چومالہ میں اپنے خاندان کے ساتھ رہائش پذیر ایک بچے اورفقیر کی کہانی۔ روز صبح سویرے ایک انجانی آواز اس 10 سالہ بچے کے کا نوں میں پڑتی اور اسے اپنا تعاقب کرنے پر مجبور کر دیتی تھی ۔وہ آواز اس بچے کو اپنی جانب کھینچتی اور وہ اپنے گھر والوں سے نظر بچا کر اس کے پیچھے دور تک نکل جاتا۔وہ بچہ بڑا ہوکر موسیقی کے جہان کاعظیم پلے بیک سنگر بنا۔وہ اپنی زندگی کے آخری ایام تک وہی گیت گاتا رہاجو بچپن میں اس فقیر کے پیچھے چلتے ہوئے سنتا اور اس کے ساتھ گنگناتاتھا۔ اس گیت کے بول تھے ’’کھیڈن دے دن چار نی مائے، کھیڈن دے دن چار‘‘ (کھیلنے کے دن چارہیں ماں، کھیلنے کے دن چار ہیںماں)۔ یہ بچہ محمد رفیع تھا جسے دنیائے موسیقی کا سب سے بڑا ،منفرد اورسریلاگلوکار تسلیم کیاگیاہے۔ محمد رفیع کو ’’گیتوں کا بادشاہ‘‘ کہاگیا۔ قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ دنیائے موسیقی کے اس بادشاہ کا پہلااستاد ایک فقیر تھا۔محمدرفیع نے اپنی زندگی میں سینکڑوں گیت گائے جو ان کے دل سے نکلے تھے مگر فقیر سے سنا وہ گیت ان کے دل کے قریب تھا جس نے محمد رفیع کوگیتوں کا بادشاہ بنادیاتھا۔ محمدرفیع کے بارے کہاجاتا ہے کہ وہ بھارتی فلم انڈسٹری کے نمبرون انسان تھے ۔ان کی یہ پوزیشن گائیکی کے ساتھ ساتھ بحیثیت انسان بھی ساری زندگی قائم رہی۔ میں جولائی2001ء میں پہلی بار بھارت گیا۔ اس وقت محمدرفیع کو وفات پائے 21برس بیت چکے تھے، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی بیسیوں لوگ ایسے ملے جو محمدرفیع کاذکر کرتے آبدیدہ ہو جاتے تھے۔ دلیپ کمار ،دیوآنند، سنیل دت ،دھرمیندر اورامیتابھ بچن سمیت دوسرے متعدد فنکاروں کا کہناتھاکہ محمدرفیع نمبرون سنگر اورنمبرون انسان تھے۔ محمدرفیع بالی ووڈ کے کئی نغمہ نگاروں ،موسیقاروں اور اداکاروں کی کامیابی کی وجہ بنے اور ان کی آواز تمام سپر سٹارز کی آواز بنی ۔نوشاد‘ جنہیں فلمی دنیا میں ’’موسیقار اعظم‘‘ کے نا م سے یاد کیاجاتاتھا‘ نے کہاتھاکہ ’’ہم نے محمد رفیع کو کام دیا،محمد رفیع نے ہمیں نام دیا‘‘۔ پلے بیک گلوکار جتنا بھی بڑا ہو اسے فلمسٹار جیسی شہرت حاصل نہیں ہوتی، لیکن محمد رفیع کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ اس وقت کے تمام سپر سٹارز خود محمد رفیع کے پرستار تھے۔ قدرت نے انہیں وہ شہرت عطا کی کہ وہ جس ملک میں بھی جاتے ان کے ارد گرد مداحوں کا ہجوم لگ جاتا۔ یوں تو برصغیر میں بڑے بڑے نامور پلے بیک سنگرز آئے لیکن ایک خوبی جو خدا نے صرف محمد رفیع کو عطا کی تھی یہ تھی کہ ان کی آواز ہر اداکار پر یوں جچتی کہ لگتا ہی نہیں تھا کوئی اور گا رہا ہے۔ انہوں نے دلیپ کمار، دیوآنند، بلراج ساہنی، گرودت،پرتھوی راج کپور، راج کمار، منوج کمار، دھرمیندر، ششی کپور، شمی کپور، رشی کپور، رندھیرکپور، سنجیوکمار،فیروزخان، ونود مہرہ، ونودکھنہ، راجیش کھنہ، راج ببر، شتروگھن سنہا اورامیتابھ بچن سمیت ہر سٹار اورمیگاسٹار کے لئے گایا۔ہیروز کے علاوہ انہوں نے محمود ،محمود جونئیراورجانی واکر سمیت بہت سے کامیڈینز کے لئے بھی گانے گائے۔ گانے سن کر یوں لگتا تھا جیسے محمد رفیع نہیں وہ خود ہی گاتے رہے۔محمدرفیع یہ جادو کیسے کرتے رہے اس کا اندازہ دلیپ کمار سے لے کر شمی کپور پر فلمائے گیتوں کو دیکھ کرلگایاجاسکتا ہے۔ دونوں فنکاروں کی باڈی لینگوئج اورایکٹنگ کے سٹائل میںزمین آسمان کا فرق تھالیکن محمد رفیع زمین کو آسمان اورآسمان کو زمین سے ملاتے رہے ہیں۔ محمدرفیع نے بھارت کے تمام قابل ذکر موسیقاروں کی بنائی ہوئی دھنوں پر گیت گائے اور انہیں امر کردیا۔ شیام سندر، پنڈت گوبندرام،کھیم چندپرکاش، نوشاد،روشن،خیام، مدن موہن، سلیل چوہدری، ایس ڈی برمن، آر ڈی برمن، شنکر جے کشن ، کلیان جی آنند جی اور لکشمی کانت پیارے لال سمیت تمام بڑے بڑے موسیقاروں نے محمد رفیع کی خوبصورت آواز کا بہترین استعمال کیا ۔ محمد رفیع 24دسمبر 1924ء کو بھارتی پنجاب کے شہر امرتسرکے گاؤں کوٹلہ سلطان سنگھ میں پیدا ہوئے ۔ بعض روایات کے مطابق محمدرفیع سیالکوٹ پیدا ہوئے تھے۔ ان کی والدہ امرتسر کے علاقہ کوٹلہ سلطان سے اپنے رشتہ داروں کے ہاں سیالکوٹ آئی تھیں کہ محمدرفیع کی پیدائش ہوئی۔ رفیع صاحب نے اپنے بعض انٹرویوز میں وضاحت کی ہے کہ وہ پیدا کوٹلہ سلطان ہوئے لیکن ڈھائی سال کی عمر میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ لاہور ہجرت کرگئے ۔لاہور میں ان کے خاندان نے اندرون شہر بلال گنج کے محلے ’’چومالہ‘‘ میں سکونت اختیا ر کی اور یہیں سے زندگی کا ایک نئے سرے سے آغاز کیا۔ خاندانی پس منظر کے بارے میں ایک تضاد پایا جاتا ہے ،کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے والد زلف تراش تھے جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ امرتسر میں ان کا ذریعہ معاش کاشتکاری تھا۔ لاہور میں تنگدستی کی وجہ سے ان کے والد نے حجام کی دکان بنائی ضرور تھی؛ تاہم وہ دکان انہوں نے ٹھیکے پر دے رکھی تھی۔ ان کے خاندان کا ماحول سخت مذہبی تھا جس کی وجہ سے محمد رفیع نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ ایک پیشہ ور گائیک بنیں گے ۔محمد رفیع پندرہ سال کے تھے کہ لاہور کے نواح میں ایک گاؤں میں گلوکار کے ایل سہگل کا شو ہوا۔ وہ اپنے بھائی کے ہمراہ اس شو میں گئے ۔سہگل صاحب ابھی سٹیج پر جلوہ گر نہیںہوئے تھے کہ لائٹ چلی گئی۔ یاد رہے کہ یہ ’’ زمانہ قبل از لوڈشیڈنگ ‘‘کا واقعہ ہے۔ وہاں کچھ لوگ رفیع صاحب کو جانتے تھے جنہوں نے انہیں سٹیج پر چڑھا دیا کہ جب تک لائٹ نہیں آتی آپ گاؤ۔ اس وقت رفیع نے گائیکی کی باقاعدہ تربیت بھی حاصل نہیںکی تھی‘ اس کے باوجود بغیر مائیک کے ہی محمدرفیع نے گا کر سماں باندھ دیا ۔وہیں معروف موسیقار شیام سندر بھی بطور خاص مہمان موجود تھے۔ انہوں نے رفیع کے بھائی کو اپنا وزٹنگ کارڈ دیا اور کہا’’ اگر اسے سنگر بنانا ہے تو بمبئی لے کر آو‘‘۔محمدرفیع بتاتے تھے شیام سندر کے وزٹنگ کارڈ نے انہیںبمبئی پہنچایا اورپھر اوپر والے نے ان کی تقدیر بدل دی۔ محمد رفیع کے گائے گیت میوزک لورز کے عظیم تحفہ ہیں۔انہوں نے جو دوگانے ساتھی گلوکاروں اورگلوکارائوں کے ساتھ گائے ان کی اہمیت بھی ہیرے جواہرات سے کم نہیں۔ انہوںنے سب سے زیادہ گیت لتامنگیشکر کے ساتھ گائے۔لتا اورمحمدرفیع میں بہن بھائیوں کا پیار تھا مگر بھارت میں ’’میوزک رائلٹی‘‘کے لئے قانون سازی کے معاملہ پر دونوں آپس میں ناراض ہوگئے ۔ لتا اورکشور کمار کا کہناتھاکہ میوزک رائلٹی میں سب سے زیادہ حصہ ’’سنگر‘‘ کاہوناچاہیے جبکہ محمد رفیع چاہتے تھے سب سے زیادہ شیئر میوزک ڈائریکٹر کو ملنا چاہیے۔ ناراضگی کے بعد دونوں گلوکاروں نے تین سال تک اکٹھے کوئی گانا نہیں گایا اور یہ عرصہ شائقین موسیقی پر بہت بھاری گزرا ۔فلم اور میوزک انڈسٹری سے وابستہ کچھ دوستوں کی بارہا کوشش کے بعد بالآخر دونوں کی ناراضگی ختم ہوئی اور یوں سنہرے گیتوں کے نئے سہانے سفر کا آغاز ہوا۔ اگرچہ دونوں میں تین سال تک ناراضگی رہی لیکن لتا منگیشکر آج بھی محمد رفیع کو یاد کرتی ہیں ۔محمدرفیع نے ساری زندگی پیسے کا لالچ نہیں ،وہ ایک درویش صفت انسان تھے۔ چھوٹے موٹے پروڈیوسرز ان سے گیت ریکارڈ کرواکر پیسے نہیںدے پاتے تھے مگر محمد رفیع بلامعاوضہ ان کے لئے بھی اپنی آواز کا جادو جگاتے رہتے ۔وہ ایک سچے مسلمان اورعاشق رسول ﷺتھے ، نماز پنجگانہ ادا کرتے اور اپنی ہر کامیابی کو اللہ تعالیٰ سے منسوب کرتے تھے۔ جب انہیں بھارت کے چوتھے بڑے سویلین ایوارڈ’’پدما شری ‘‘ سے نوازا گیا تواس موقع پر بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے پوچھاکہ ’’سرکارآپ کے لئے کیاکرسکتی ہے؟‘‘اس پر رفیع نے کہاکہ میرا نام ’’محمدرفیع‘‘ ہے ،جبکہ بھارتی میڈیا صرف ’’رفیع‘‘ ادا کرتاہے ،حکم صادر فرمائیںمیرا نام ’’محمدرفیع‘‘ لکھا اورپکارا جائے‘‘۔ 31جولائی محمدرفیع کی 33ویں برسی کادن ہے پرودگار ان کے درجات بلند کرے۔ آمین

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں