شیخ رشید نے کہا ہے ’’بجلی کا اگلابل آنے کے بعدلوگ ہاتھ اٹھا کردعائیںمانگیں گے کہ ہمیں بجلی نہیںلوڈشیڈنگ چاہیے‘‘۔ بحیثیت قوم ہم جن نرخوں پر ریاست اورحکومت سے بجلی خرید کر استعمال کررہے ہیںاس کا موازنہ دنیا کے نقشے پر پائے جانے والے کسی بھی ملک اورقوم سے نہیںکیاجاسکتا۔اگر اس نوعیت کا کوئی مقابلہ کرایاجائے تویقینا پاکستانی قوم مہنگی بجلی خریدنے اوراستعمال کرنے کا ’’ورلڈ کپ ‘‘ جیت سکتی ہے۔ حفیظ ہوشیار پوری نے کہاتھا کہ’’محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے… تیری محفل میںلیکن ہم نہ ہوں گے‘‘۔عین ممکن ہے کہ نہایت مشکل حالات میں بھی پاکستان کی آبادی بڑھتی رہے مگریہ طے ہے کہ میری طرح کے بہت سے ماتڑ(غریب افراد) واپڈا کے مہنگے ٹیرف کے باعث اس نہایت مہنگے عالم فانی سے رخصت ہوچکے ہوں گے۔ ؎ محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے ’’تیرے ٹیرف میں لیکن ہم نہ ہوں گے‘‘ شیخ رشید نے بجلی کے آسمانی بجلی بن جانے کی ذمہ داری بڑی ہشیاری سے نون لیگ کی حکومت پرڈالی ہے۔ یہ درست ہے کہ جمہوری نظام حکومت میں اشیائے ضرورت کاانتظام وانصرام حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لیکن شیخ رشید سے یہ سوال بھی کیاجاناچاہیے کہ حضور والا! آپ جنرل پرویزمشرف کے انوکھے لاڈلے وزراء میں شامل رہے ہیں۔آپ نے اس دور میں جنرل صاحب کو یہ باور کرایاتھا کہ محترم کمانڈو خاں صاحب پاکستان کی آبادی دن دگنی اوررات چوگنی ’’ترقی ‘‘ کررہی ہے؟ ۔ مزیدیہ کہ آبادی بڑھنے کے ساتھ ہی روٹی ،کپڑا،مکان کے علاوہ علاج معالجہ،تعلیم،پانی ،گیس اوربجلی کی ضرورت بھی ہوتی ہے؟۔ لیکن افسوس کہ 9سالہ فوجی حکومت میںبجلی کا ایک یونٹ بھی پیداکرنے کی منصوبہ بندی نہیںکی گئی تھی۔ ’’گارڈ آف آنر‘‘ وصول کرنے کے بعد جب پرویز مشرف لندن سدھار گئے تو وطن عزیز پر چوتھی مرتبہ پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔یہاں ’’قائم‘‘ کی اصطلاح محض لفظی معنوںمیں استعمال کی گئی ہے وگرنہ ساڑھے چار سالہ بھٹو دور کے علاوہ پیپلز پارٹی کی تینوں حکومتوں کو کبھی بھی حقیقی معنوں میں ’’ قائم‘‘ نہیںہونے دیاگیا۔محترمہ کے دونوں ادوار میں اسٹبلشمنٹ نے اپنی ’’ٹکسال‘‘ پر گھڑے ہوئے جملہ صدور غلام اسحاق خان اورسردار فاروق خان لغاری انہیںمہیا کردئیے تھے ۔یاد رہے کہ دونوں صدور کے پاس اسمبلیاں توڑنے کے اختیارات تھے اور انہوں نے وقفے ،وقفے کے ساتھ انہیںاستعمال کرکے جمہوریت کو غیر مستحکم کیا۔پیپلز پارٹی کی دوعدد حکومتوں کو صدر کے عہدے سے’’چھومنتر‘‘ کیاگیاتھا ۔اس لیے چوتھی بار آصف علی زرداری اس عہدے پر بذات خود براجمان ہوئے ۔آصف علی زرداری نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں آئین میں متعارف کرائی اس شق(58۔ٹو بی )کوختم کیاجس کے تحت غلام اسحاق خان اورفاروق لغاری جیسے صدور منتخب اسمبلیوں کا’’حشرنشر ‘‘ کرتے رہے تھے ۔ صدرآ صف علی زرداری نے19اپریل 2010ء کے دن اپنے صدارتی اختیارات ایک بار پھر منتخب اسمبلیوں کوواپس کردئیے۔یہ آصف زرداری کابہت بڑا کارنامہ تھا جس کاتذکرہ میڈیامیں جان بوجھ کرنہ کیا گیا۔اس کے مقابل میڈیانے بعض دوسرے ریاستی اداروں کی ساکھ اور’’باکس آفس‘‘پوزیشن کے ڈھول خوب پیٹے۔ان کی ایمانداری اورمتحرک ہونے کے ’’ رجزیہ گیت‘‘ میڈیا کے بعض استاد بڑے غلام علی خاںٹائپ کہنہ مشق آج بھی پوری شدت سے گارہے ہیں۔ لیکن یہ جھوٹ نہیں کہ اس ہزار داستان کی غیر معمولی کامیابی کا غریب عوام کی زندگیوں سے کوئی واسطہ نہیںہے۔ حسب روایت اس بار بھی میں عیدمنانے گجرانوالہ گیاتو پہلوانوں کاشہر ناصر کاظمی کے دل کے اس شہر جیسا لگا۔۔۔دل تو اپنا اداس ہے ناصر ۔۔۔شہر کیوں سائیںسائیںکرتاہے۔۔۔عید پر ا س شہر کا حال دیکھا تو میں نے اس شعر میں یوں ترمیم کردی۔۔۔دل تو اپنا اداس ہے ناصر۔۔۔گجرانوالہ کیوں سائیں سائیں کرتاہے۔۔۔عیدکے دن جو بہن بھائی اورعزیز بھی گلے ملا۔۔عیدمبارک۔۔کہنے کے بعد بجلی کے بل کی بیپتاسنانے لگا۔پانچ اور دس مرلہ گھروں کے مکینوں کے بل یوں بھیجے جارہے ہیںجیسے وہ بدنصیب واپڈا ہائوس میںرہائش پذیر ہوں۔مہنگائی کا مسئلہ سنگین ہے اورامن وامان کامسئلہ مہاسنگین ہے۔دونوں مسئلے آپس میںجڑے ہوئے بھی ہیں۔مہنگائی عالمی مسئلہ بھی ہے مگر ہمارے ہاں دہشت گردی نے بھی اسے سنگین بنا رکھاہے۔دہشت گردی نے ہمیںمعاشی طور پر برباد کیاہے‘ اس سے چھٹکارا پانا اتنا ہی ضروری ہے جس طرح ایک جاندار زندہ رہنے کیلئے شعوری اورغیر شعوری دونوں صورتوں میں کوشش کرتاہے ۔یہ وہ اسلئے کرپاتاہے کیونکہ زندگی کی حفاظت کرنا اس کی جبلت ہے۔وزیراعظم نوازشریف نے کہاہے کہ ’’حکومت دہشت گردی کے واقعات کوکنٹرول کرنے میںجلد کامیاب ہوجائے گی ۔اس سلسلہ میںقومی سکیورٹی پالیسی مرتب کی جارہی ہے‘‘۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھی قومی سکیورٹی پالیسی پر زور دیاہے لیکن ساتھ ہی ساتھ انہوںنے سابقہ حکومت کو طعنہ بھی دیاہے کہ دہشت گردی کا مسئلہ پراناہے مگر سکیورٹی پالیسی نہیںبنائی گئی تھی۔چوہدری نثار علی خان اس اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تھے لہٰذا سوال کیاجاسکتا ہے کہ آپ نے سکیو رٹی پا لیسی بنانا ضروری کیوں نہیںسمجھا؟ پیپلز پارٹی کی حکومت کے اکثر وبیشتر فیصلوں کو چوہدری نثار کا ’’ آشیر باد‘‘ حاصل رہاہے ، اس ضمن میں الیکشن کمیشن کے سربراہ فخروبھائی کے انتخاب کی مثال واضح ہے ۔اس کی وجہ پیپلز پارٹی کی نیک پروین ٹائپ حکومت کی فرمانبرداری نہیںبلکہ افہام وتفہیم کا وہ نعرہ تھاجسے عرف عام میں’’جمہوریت بہترین انتقام ‘‘کا نام دیاگیاتھا۔پیپلز پارٹی کی حکومت اپنے 5سالہ دور میںاپنوں اور بیگانوں سے یوں بلیک میل ہوتی رہی جیسے پرانی فلموں میں عالیہ بیگم ،اپنے دور کے ولن اسلم پرویز سے ہواکرتی تھی۔ فلم کے آغاز میں بیچاری عالیہ ،اسلم پرویز کو ’’رقعے‘‘( LOVE LETTERS) لکھ بیٹھتی ہے،بس پھر کیا؟اسلم پرویز اس وقت تک عالیہ بیگم کو بلیک میل کرتے رہتے ہیںجب تک ٹرم ختم نہیںہوجاتی …مم مم میرامطلب ہے فلم ختم نہیںہوجاتی۔پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔اسے پوری ٹرم سیاسی طور پر بلیک میل کیاگیاآخر پر عالیہ بیگم کی طرح یہ گیت گانے کے لئے اکیلی رہ گئی ہے۔ سہیلی تیرا بانکپن لٹ گیا آئینہ توڑ دے تیر ی آشائوں کا چمن لٹ گیا ، آئینہ توڑ دے مئی 2013ء کے انتخابات کے نتیجہ میں لگ بھگ وہی سیاسی جماعتیں وفاقی اورصوبائی حکومتوںمیں آئی ہیںجو پہلے سے اقتدار کے ٹائی ٹینک کی سوار ہیں۔پی ٹی آئی اورعمران خان اس لنکا کے نئے بھیدی ہیں۔انتخابات کے دوران تبدیلی اورانقلاب کے نعرے لگائے گئے تھے ۔خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے‘ ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل سے ڈھائی سو دہشت گردوںکے فرار کو تبدیلی کانام دیاجائے یاانقلاب کا؟ابھی تک سمجھ نہیں آسکا۔حکومتوں کو مسائل حل کرنے میں ظاہری اورپوشیدہ طور پر کن مسائل کاسامناکرنا پڑتاہے امید ہے پی ٹی آئی اب سمجھ گئی ہوگی۔میاں نوازشریف کی حکومت کو جہاں اندرونی محاذ پر دہشت گردی اورمہنگائی سمیت ان گنت بحرانوں سے جنگ لڑنا پڑرہی ہے،وہاں بیرونی محاذ پر بھارت کے جنونیوںکا سامنا بھی کرناپڑ رہاہے۔بھارت میں پائے جانے والے مٹھی بھر جنونی دوستی بس کے ذریعے بھارت اورپاکستان کے مابین بہتر تعلقات کے رستے میں ’’ناکے‘‘ لگارہے ہیں۔ ایسا اس لیے کیا جا رہا ہے کیونکہ دونوں ملکوں میں بسنے والے ڈیڑھ ارب سے زیادہ غریبوں کا مقدر خطے کے امن سے مشروط ہے۔ یہ امن برباد کرنے والے جانتے ہیںکہ دوستی بس اگر یونہی دہلی سے لاہور اورلاہور سے دہلی آتی جاتی رہی تودونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے کے قریب ہوجائیںگے۔عوام قریب ہوں گے توجنگ نہیں ڈائیلاگ ہوں گے۔میاں نوازشریف نے درست کہاہے کہ بھارت اور پاکستان کا مفاد مذاکرات میں ہے ۔عوام جنگ نہیںاپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں‘لہٰذاوزیراعظم نوازشریف کو عوام کے مسائل حل کرناچاہئیں ۔وزیراعظم کو جنو نیوں کے مفت مشوروں پر کان نہیںدھرنے چاہئیں اس سے قبل کہ نون لیگ کی حکومت بھی عالیہ بیگم کی طرح اپنا سیاسی بانکپن لٹ جانے کی دہائی دے‘ اسے اندرونی اوربیرونی محاذوں کے خلاف آخری جنگ لڑنا چاہیے۔