"TSC" (space) message & send to 7575

مینوفیکچرنگ

حبیب جالب کا شمار ان شعرا ء میں ہوتاہے جنہیںمیاں برادران پسند فرماتے ہیں۔خادم اعلیٰ تو اپنے خطابات کو انقلابی ٹچ دینے کے لئے اکثر اوقات جالبی کے کلام کا تڑکا بھی لگاتے رہتے ہیں۔پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور میں میاں شہباز شریف اگرچہ خود بھی وزارت اعلیٰ کی مسند پر جلوہ گر رہے مگر مرکز میں بڑے میاں صاحب کی حکومت نہ ہونے کی وجہ سے ادھورے اقتدار نے ا ن کی طبیعت کو انقلابی ٹچ دیے رکھا۔ انہیں پیپلز پارٹی کی کمزور ،ناتواں اور’’نیک پروین حکومت‘‘ کے ہرجائز اورناجائز فعل پر اعتراض رہا مگر وہ یہ انقلابی بندوق حبیب جالب کے ہی مرحوم و مغفور کندھوں پر رکھ کر یوں چلاتے رہے کہ ؎ ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا وزیر اعظم میاں نوازشریف کا بیان پڑھ کر مجھے حبیب جالب یاد آگئے ۔وزیر اعظم میاں نوازشریف نے کہاکہ ’’ حکومت کے خلاف کوئی سازش نظر نہیں آرہی‘‘۔اس کا پس منظر یہ ہے کہ دہشت گردی کے ایشو پر وزیر اعظم یقین دلانا چاہ رہے ہیںکہ سکیورٹی پالیسی کے حوالے سے حکومت اور عسکری اداروں کے مابین مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سب سر جوڑ کر اورمل بیٹھ کر متفقہ پالیسی بنائیں گے۔دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے سول وعسکری قیادت جامع پالیسی پر غور کررہی ہے۔سیاسی جماعتوں اورمتعلقہ اداروں کی مشاورت سے دہشت گردی پر قابو پالیاجائے گا۔یہ وہ تحریر اورتقریر ہے جو سکیورٹی پالیسی کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے جملہ وزرائے اعظم گیلانی اورراجہ بھی کیا کرتے تھے۔جب سے میاں نوازشریف وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیںاوران کی ہیڑک مکمل ہوئی ہے ان کے چہرے کی لالیاں مانند پڑگئی ہیں۔میاں نوازشریف بنیادی طور پر ایک خوش گفتار ، خوش خوراک اور خوش دماغ انسان ہیںمگر جب سے وزارت عظمیٰ کی مسند پر جلوہ گر ہوئے ہیں‘ کچھ بُجھ سے گئے ہیں۔ ان دنوں میں جب بھی نیوز چینلز پر میاں صاحب کی جھلک دیکھتا ہوں تو وہ گہری سوچوں میں گم دکھائی دیتے ہیں۔یہ منظر دیکھتے ہوئے میرے پاس بیٹھے ایوب خاور صاحب اکثر مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ ’’میاں صاحب کے ایکسپریشنز دیکھ رہے ہو؟‘‘ میرے پاس تو اس سوال کا کوئی جواب نہیںہے کہ میاں صاحب کیاسوچتے رہتے ہیں؟ لیکن حبیب جالب نے ایسے ہی کسی ایکسپریشن کے لیے کہاتھا ؎ جالب آپ اس جانِ غزل کے پیار سے لاکھ انکار کریں آنکھوں کی پُر سوز چمک سے دل کا دردنمایاں ہے دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کی بابت میاں صاحب کابیان پڑھ کر میں پاکستان کی سیاست کی فلم کے ’’فلیش بیک‘‘میں چلاگیا۔ذاتی طور پر ایوب خان اوریحییٰ کے صنعتی اورست رنگی مارشل لائوںکو اس لیے دیکھ نہ سکا کیونکہ راقم اس وقت سکول میں بھی داخل نہیں ہواتھا، لیکن اس ملک کی تاریخ کتابوں اوران کے صفحات پر محفوظ ہے۔ ایوب خان کی آمریت کو ’’صنعتی مارشل لا‘‘ کا نام دیاگیاتھا اوریحییٰ خان کا مارشل لااپنے آپ میں رنگین شاموں اور پُرنغمگی راتوں کی ہزار داستان تھا۔ان شاموں اورراتوں سمیت اس دور کو ’’ست رنگی مارشل لا‘‘ کا عنوان دیاگیاتھا۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے جمہوریت کی بساط اس وقت لپیٹی جب ملک اورقوم ترقی کی جانب رواں دواں تھے۔ بھٹو صاحب کے عدالتی قتل کے بعداس ملک کے اصل مالکوں نے جمہوریت کے نام پر وہ کھلواڑ کیاکہ وطن عزیز میں جمہوریت کو محض ایک گالی کا نام دے دیاگیا۔ جمہوریت کو رعایتی نمبر دینے والوں نے کرپشن اس کا ’’نک نیم‘‘ رکھ دیا۔مشرقی پاکستان کا سانحہ جنرل ایوب خان اورجنرل یحییٰ خان کے مارشل لائوں کا نتیجہ تھا۔ بنگالیوں نے پاکستان کے قیام کے صرف 24سال بعد اپنے آپ کو اس پاکستان سے علیحدہ کرلیاجسے انہوں نے خود بنایاتھا۔ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان بنانے والی سیاسی جماعت(آل انڈیا مسلم لیگ) لاہور میں نہیں‘ ڈھاکہ میں قائم کی گئی تھی‘ مگر جب زبان، رنگ ونسل اورجغرافیائی بنیادوں پر بنگالیوں کا استحصال کیاگیاتوانہوں نے اپنا الگ وطن بنگلہ دیش بنالیا۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مشرقی پاکستان کے سانحہ کے بعدکسی ٹریجڈی کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے تھی مگر جنرل محمدضیاء الحق اورجنرل پرویز مشرف نے تیسری اورچوتھی مرتبہ مارشل لانافذ کیے۔ جنرل ضیاء الحق11سال قوم کے سیاہ وسفید کے مالک اور جنرل مشرف 9سال تک قوم کے مقدر کا سکندر بنے رہے۔دونوں حضرات جو اپنے تئیںپاکستان کو تباہی سے بچا نے آئے تھے‘ ان کی آنیوں اورجانیوں سے قوم کو کیا ملا؟دکھ کے ان بہتے دریائوں کواگر کوزے میں بند کیاجائے تو اسے دہشت گردی اور بربادی کے سوا کیانام دیا جا سکتا ہے؟ ہمارے محبان اور محافظوں نے حب الوطنی کے سخت پہروں میں ملک اور قوم کو جو خارجہ پالیسی دی وہ ہمارے تمام وسائل کو ہڑپ کرجاتی ہے ،لیکن اب وقت آگیاہے کہ ہم اپنی خارجہ پالیسی کا رخ امن کے قبلے کی جانب کرکے ملک کے وسائل کامنہ عوام کی جانب بھی کریں۔میاں نوازشریف سے قبل آصف زرداری اورپیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی پانچ سال تک خارجہ پالیسی کو امن کا رُخِ روشن دکھانے کی کوششیں کیںمگربعض قوتوں اورمیڈیا کے ایک بڑے حصے نے انہیں ’’عجب کرپشن کی غضب کہانیوں‘‘ کی حقیقی اورفرضی داستانوں کے واویلے میں اس قدر الجھائے رکھا کہ ان کی تمام کوششیں دم توڑتی رہیں۔ یہ ایک تاریخی سچ ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی کاخمیر امریکی سامراجی مٹی سے تیار کیاگیاتھا۔ ہندوستان سے علیحدگی سے دوماہ قبل یعنی مئی1947 ء میں امریکہ اور روس میں سے ایک کو ’’فرینڈ‘‘ بنانے کی پالیسی اپنائی گئی تھی۔ ہزاروں میل دور ہوتے ہوئے ہم امریکہ کے پہلو میں بیٹھے جبکہ روس ہمارا ہمسایہ تھا‘ اس سے ہم نے دشمنی پال لی۔ہماری خارجی پالیسی بنانے والوںنے یہ بھی نہ سوچا کہ دور گائوں کے چوہدری کی شہ پر ہم اپنے گائوں کے چوہدری کی چودھراہٹ کوبرباد کریںگے تو ُسکھی ہم بھی نہیںرہ سکیںگے۔امریکہ اور پاکستان کی ’’لوسٹوری ‘‘میں یہی کچھ ہوا ہے۔ہم نے ایک ایسی سپرپاور کے ساتھ دوستی اوردشمنی کی ناکام اننگز کھیلی جس نے جاپان کے دوشہروں ہیروشیمااورناگاساکی پر ایٹم بم گرائے تھے۔ ان 66برسوں میں بہت کچھ بدل گیاہے۔گذرے 30سالوں میں طالبان ایک طاقت، ایک حقیقت اور خطے میں سٹیک ہولڈر بن چکے ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف، افغان صدر حامد کرزئی اورامریکہ یعنی ٹرائیکا چاہ رہاہے کہ طالبان سے مذاکرات کیے جائیں۔ اب طالبان کیاچاہتے ہیں اس کا جواب تو وہی دے سکتے ہیں۔ طالبان انہی 30برسوں میںابھر کر سامنے آئے ہیں۔ہم سب جانتے ہیں کہ طالبان امریکہ اورسوویت یونین کی جنگ میںعسکری اورسیاسی قوت بنے ہیں۔طالبان کے پاس اپنا کوئی سیاسی نظریہ ضرور ہوگا،وہ مذہب کے نام پر جس اسلام کا تصور پیش کرتے ہیںوہ مسلم امہ میںکہاں پایاجاتاہے؟ان سب سوالوں کے جواب مل بھی جائیںتو دہشت گردی کی اُن وارداتوں کو کیانام دیاجائے گاجس پر صوبے کی وزیراعلیٰ کوکہناپڑا تھاکہ ’’اپنے اور ہمارے صوبے میں تو دہشت گردی بند کریں‘‘۔ پیپلز پارٹی ہویاعوامی نیشنل پارٹی، تحریک انصاف ہویاایم کیوایم‘ دہشت گردوں سے محفوظ نہیںہیں ۔بعض جماعتوںکی لیڈر شپ کو دہشت گردوں کی طرف سے ’’ڈسکائونٹ‘‘ حاصل رہتی ہے لیکن عوام اور پورے کاپورا صوبہ تخت ِمشق بنارہتاہے۔دہشت گردوںکے ساتھ مذاکرات کرنے چاہئیںیا ان سے بہ زور طاقت نمٹنا چاہیے؟یہ طے کرتے ہوئے فریق دوم کی ’’ مینوفیکچرنگ‘‘( سرشت) کوبھی ذہن میںرکھناہوگا ؎ ہلاکت خیز ہے الفت،مری ہرسانس خونی ہے اسی باعث یہ محفل دل کی قبروں سے بھی سونی ہے اُسے زہریلی خوشبوئوں کے رنگیں ہار دیتا ہوں میں جس سے پیار کرتاہوں اسی کوماردیتا ہوں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں