"TSC" (space) message & send to 7575

سوئچ

نون لیگ کی پہلے 100دنوں کی حکومت دکھوں کی صدی محسوس ہوئی ۔ پانچ سال کا عرصہ تو میلینم(ہزار سال ) بن کر گذرے گا ۔موجودہ حکومت نے اپنے ان صرف ساڑھے تین مہینوں میں چار بار پٹرول کی قیمت بڑھا کر مہنگائی کو ’’2050ماڈل‘‘ کا درجہ دے دیاہے۔ اس بار پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی کا سونامی آگیا ۔ یوں لگتا ہے وطن عزیز کی دھوپ اور چھائوں ، فضائیں اور ہوائیں بھی مہنگی ہوگئی ہیں۔اضافے کے بعد پٹرول کی نئی قیمت 109.14روپے ،ہائی سپیڈ ڈیزل 112.26،مٹی کا تیل105.99،لائٹ ڈیزل 98.43اورہائی اوکٹین 138.33روپے فی لیٹر ہوگیاہے۔ میرے عزیر ہم وطنو!جیسا کہ آپ جانتے ہیں اور سب کچھ جھیلتے بھی ہیں کہ زندگی میں پٹرول وہ شے ہے جب اس کی قیمت بڑھتی ہے تو سب کچھ مہنگا ہوجاتا ہے ۔آٹا،چینی ،دال،سبزی ،گوشت ، انڈے ،گیس ، پانی ، بجلی ، ٹرانسپورٹ ، کپڑا، تعلیم ،کتابیںاور علاج معالجہ سب کچھ مہنگائی کی زد میں آجاتا ہے ۔نون لیگ کی حکومت نے ان 100دنوں میں بجلی اورگیس کے نرخ متواتر بڑھائے جس سے روزمرہ کے معمولات اورزندگی اس قدر مشکل ہوگئی کہ سانس لینا بھی مہنگالگتاہے۔ اس ملک کا غریب گیس اوربجلی کا بل ادا تو کررہاہے مگر اس کی زندگی سے لوڈشیڈنگ اوراندھیرے ختم ہونے کا نام نہیںلے رہے ۔ اسے تو اپنی زندگی بھی مرقد کی طرح اندھیری ہی لگ رہی ہے۔ مجید امجدنے کہاتھا: یہ دنیا ہے میری کہ مرقد ہے میرا یہاں بھی اندھیرا،وہاں بھی اندھیرا نون لیگ کے رہنمائوں نے عام انتخابات سے قبل عوام سے وعدے کیے تھے کہ وہ ملک میں دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ ، لوڈشیڈنگ کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے،مہنگائی کو کم کریں گے ،اس ملک کے غریب عوام کے لیے روزگار مہیا کریںگے۔بچوں اور جوانوں کو بلاامتیاز تعلیم کے زیور سے آراستہ کریںگے۔عوام کو میاں شہباز شریف کا یہ وعدہ بھی یاد ہے کہ ’’ میں لوڈشیڈنگ تین ماہ میں ختم کردوں گا…لوڈشیدنگ 6ماہ میں ختم کردوں گا‘‘…بلکہ ایک بار تو انہوں نے یہ بھی کہاکہ 6ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم نہ کردوں تو میرا نام شہباز شریف نہیں…شہبازشریف کی طرف سے اس ٹائپ کے ’’الٹی میٹم ‘‘کی تردید میاں نوازشریف نے اسی وقت کردی تھی مگر انہوں نے وہ حقیقت بیان نہیںکی تھی جس کا انکشاف خواجہ محمد آصف صاحب نے بعدازاں کیا ۔انہوں نے فرمایاہے کہ 2017ء تک بجلی کی لوڈشیڈنگ کنڑول کرلی جائے گی۔یعنی پانچ سال بعد جب میاں صاحبان،ان کی شریف حکومت اوران کے سچے وزراء حکومت فرما کر اپنے اپنے گھروں کو واپس جارہے ہوں گے تو بجلی کی لوڈشیڈنگ کم ہوجائے گی۔لوڈشیڈنگ ختم کرنے یا کنٹرول کرنے کی گارنٹی کون دے گا؟ اس بابت کسی سے بات نہیںہوئی ۔تاہم وفاقی وزیر مملکت بجلی وپانی عابدشیر علی کا فرمان ہے کہ ’’بجلی چور کی ضمانت بھی نہیںہوسکے گی‘‘۔ وزیر موصوف نے اپنے شہر فیصل آباد میں لوڈشیڈنگ کے حوالے سے منعقدہ اجلاس میں جب یہ بریکنگ نیوز فراہم کی کہ بجلی چوروں کے خلاف قانون کا مسودہ تیار کیاجارہاہے جس کے بعد بجلی چوروں کی ضمانت بھی نہیںہوسکے گی تو اس موقعہ پر مقامی تاجروں نے لوڈشیڈنگ کے حوالے سے شکایتوں کے انبار لگا دئیے مگر وزیر صاحب ان کی شکایتیں ’’چھومنتر‘‘ کرنے سے قاصر رہے۔وزیر صاحب یہی فرماتے رہے کہ لوڈشیڈنگ کی ایک بڑی وجہ بجلی چوری ہے اورمستقبل میں بجلی چوروں کی ضمانت نہ ہونے کے لیے قانون سازی کررہے ہیں۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ صرف بجلی چوروں کے خلاف قانون سازی کرناکافی نہیںہوگا، ٹیکس اور گیس کی چوری کی روک تھام بھی کرنا ہوگی۔ میرے شہر گجرانوالہ کو یہ ’’ اعزاز‘‘ حاصل ہے کہ یہا ں گیس چوری اور اس کے ناجائز استعمال کے نئے ریکارڈ قائم کیے گئے ہیں۔ابھی چند روز قبل گجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے ایک حکومتی عہدیدار کے گیس سٹیشن کے میٹر کو منقطع (ڈسک کنیکٹ) کردیاگیا۔الزام یہ تھاکہ چُھٹی کے روز گیس فروخت کی جارہی تھی جو قانوناََ جرم ہے۔سوئی گیس کے عملے کی طرف سے گیس سٹیشن کا میٹر اتارنے پر نیچے سے لے کر اوپر تک،پورامحکمہ ہلاکررکھ دیاگیا ۔یہ ہوتی ہے جمہوریت اوراس کی طاقت ۔’’میں جنوں چاواں جدوں چاواں تنی منٹی سُچ لادیواں‘‘۔سُچ سے مراد بجلی آن کرنے والا سوئچ ہے اور موجودہ سچوایشن میں سوئچ کے معنی سبق سکھانے کے ہیں۔ سُچ لگانے والا درج بالاپنجابی ڈائیلاگ فلم’’بنارسی ٹھگ‘‘ میں شہنشاہ ِ ظرافت منورظریف کا تکیہ کلام تھا جس کااُردو ترجمہ کچھ یوں کیاجاسکتاہے کہ ’’میں جسے چاہوں ،جب چاہوں صرف تین منٹ میں سوئچ لگادوں‘‘۔لیڈر صاحب نے بھی صرف تین منٹ لگائے اور سوئی گیس کے جس عملے نے ان کا میٹر …مم مم ،میرا مطلب ہے ان کے گیس سٹیشن کا میٹر کاٹا تھا انہیں ’’تنی منٹی سُچ ‘‘ لگادیا۔جس طرح صاحب بہادر نے سوئی گیس کے عملے کو پل بھر میں سبق سکھایا اسی طرح حکومت بھی عوام کو آئے روز’’تنی منٹی سُچ ‘‘ لگاتی رہتی ہے۔یہ حکومتی سوئچ پٹرول ،گیس اوردیگر اشیائے ضرورت کی قیمتوں کو بڑھا کر لگائے جاتے ہیں۔اکثر حکومتیں عوام کو ایسے سوئچ لگاتی رہتی ہیںمگر ان کارویہ معذرت خواہانہ ہوتاہے۔ وفاقی حکومت کے ترجمان اوروفاقی وزیر پرویز رشید صاحب نے فرمایاہے کہ ’’مہنگا پٹرول خرید کر سستا بیچنے کا کوئی فارمولا نہیں،پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں عالمی منڈی کی قیمتوں سے منسلک ہیں،اس لیے قیمتیں بڑھانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں،ماضی کی حکومتیں معیشت پر توجہ دیتیں تو آج یہ صورت حال نہ ہوتی اورعوام کی قوت خرید بڑھ چکی ہوتی ۔موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے قیمتوں میں استحکام آئے گا،حکومت صارفین کو بجلی پیداواری لاگت سے کہیں کم قیمت پر فراہم کررہی ہے،عوام کو پہلے ہی 70ارب روپے کی سبسڈی دی جارہی ہے‘‘۔ دکھیارے عوام کو مہینے کے آخری دنوں میں موصول ہونے والے بجلی اورگیس کے بل ’’ڈیتھ وارنٹ‘‘ سے کم نہیںلگتے ۔اس ملک کے عوام اپنی کمائی کا 80فیصد یوٹیلٹی بلز کی صورت میں قومی خزانے میںجمع کرادیتے ہیںمگریہ ایک ایساMATRIX ہے جو کبھی بھرتا نہیںہے۔میرے پاس عوام کے دکھوں اورمصیبتوں کو ماپنے کا کوئی آلہ موجود نہیں لیکن میڈیا عوامی دکھوں کی ’’ہزار داستان‘‘ بیان کررہاہے۔کوئی دن ایسا نہیںگذرتا کہ کوئی دکھیارا اپنے دکھوں کا واویلاکرتے ہوئے بجلی کے کھمبوں پر نہ چڑھے۔بجلی،گیس ،پانی،آٹا ،دال اوراشیائے ضرورت کی قیمتوں کی گرانی پر احتجاج کرتے ہوئے عوام نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔مہنگائی کے باعث جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے،بعض ضرورت مند والدین تو شاہراہوں اورحکومتی ایوانوں کے سامنے ’’بچے برائے فروخت‘‘ کی ریڑھی لگائے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ بچے فروخت کرنے کا اشتہار لگاکر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بدنامی کا باعث بننے والوں کو تو سخت سزا دینی چاہیے ،لیکن اس نوع کی قانون سازی کرنے سے قبل معاشرے کو بھوک،ننگ ،افلاس ،بے روزگاری سے نجات دلاکر معاشی آسودگی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ بقول عابد شیر علی کہ آئندہ بجلی چور کی ضمانت نہیںہوگی …حضوروالا! میںمسمی طاہرسرور میر اپنی ایک بیٹی اوراکلوتی بیوی کے ساتھ پانچ مرلہ گھر میں رہتے ہوئے گیس اوربجلی کے بل مجموعی طور پر 40سے 45ہزار ماہانہ جمع کرارہاہوں ۔میرے بلوں میں 70ارب روپے کی حکومتی سبسڈی بھی شامل ہے ۔سوال یہ ہے کہ وطن عزیز میں بجلی اتنی مہنگی کیوں ہے؟کیابجلی کی تیاری میں سونااورقیمتی ہیرے جواہرات درکار ہوتے ہیں؟دنیا میں سستی ترین بجلی پانی سے بنتی ہے۔ اس سے پہلے کہ وافر پانی سیلاب بن جائے اسے بجلی بنانا ہوگا۔ یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ۔حکومت اور ریاست کو عوام کے دکھ اورتکلیف میں سبسڈی دینے کے بجائے ختم کرنے کی پالیسی کو اپنانا ہوگا ۔ اگر ایسا نہ کیاگیا توجمہوریت کے ڈرامہ کے اگلے ایکٹ میں ریاست،سیاست اور حکومت کو ’’تنی منٹی سُچ ‘‘ لگانے کی آخری سچوایشن برپا ہوسکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں