"TSC" (space) message & send to 7575

مینڈیٹ

شیخ رشید کے بغیر ’اے پی سی ‘ سونی سونی دکھائی دی ۔حکومت نے جب شیخ رشید صاحب کو دہشت گردی اوردہشت گردوں کے خلاف ایجنڈا طے کرنے کے لئے بلائی گئی آل پاکستان پارٹیز کانفرنس میں نہ بلایا تو انہیں ’’دنیانیوز‘‘ کے اینکر پرسن عبدالمالک نے اپنے پروگرام میں مدعو کرلیا۔شیخ صاحب نے مذکورہ پروگرام میں کھل کھلا کر ’’اے پی سی ‘‘ برپا کی۔ میاں نوازشریف کونجانے کس نے مشورہ دیا کہ وہ شیخ رشید کو اے پی سی میں نہ بلائیں۔ ہمارے خیال میں میاں صاحب کو اس سے فائدہ کم اورنقصان زیادہ ہوگا۔ وجہ یہ ہے کہ شیخ صاحب نے مذکورہ ٹاک شو میں اگلی پچھلی اور دائیں بائیں کی تمام باتیں کیں جو وہ ’اے پی سی‘ کی کئی ایک سیریز میں بھی نہیںکرسکتے تھے۔شیخ رشید نے کہاکہ میاں نوازشریف کی سیاسی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے اس محسن (جنرل ضیاء الحق) کے بیٹے کو بھی کانفرنس میں نہیںبلایا جو انہیںانگلی پکڑ کر سیاست میں لائے تھے۔ شیخ رشید نے بتایاکہ اعجاز الحق میرے پاس لال حویلی آئے اور انہوں نے مجھے کہاکہ… یار شیخ! دیکھ لومیاں نوازشریف نے تمہاری خار میں مجھے بھی ’اے پی سی ‘ میں نہیں بلایا ۔ انہوں نے سوچاشیخ رشید کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ… اک تم ہی نہیں تنہا الفت میں میری رسوا… یہ وقت بھی کیا ظالم شے ہے‘ گزر جائے توان لوگوں میں فاصلے پیدا ہوجاتے ہیں جو ایک دوسرے کا لازمی جزو ہوتے ہیں۔ کبھی وہ وقت تھا جب اعجاز الحق صاحب کے والد ِگرامی صدر جنرل ضیاء الحق اس ملک کے سیاہ وسفید کے مالک ہوا کرتے تھے۔مرحوم نے اپنے گیارہ سالہ دور میں ’’آرڈر پر مال تیار‘‘ کرنے کی مصداق لیڈر شپ تیار کی جس سے وہ توقع کرتے تھے کہ وہ اسی طرح سوچے، سمجھے اور عمل کرے جیسے وہ چاہتے ہیں۔ اس لیڈر شپ کی تربیت کے ’’سم کارڈ‘‘ میں یہ آپشن بھی رکھی گئی کہ جمہوریت کو پنپنے سے روکے رکھنا ہے اور ملک سے پیپلز پارٹی کا نام ونشان مٹانا ہے ۔یوں توپورے ملک میں پیپلزپارٹی اوربھٹو لورز کو دبایاگیامگر پنجاب اورسندھ خصوصاً کراچی میں لسانیت ، فرقہ پرستی اوربرادری ازم کے زور پر نظریاتی سیاست کو تہس نہس کیاگیا۔آج کراچی جس آگ میں جل رہاہے یہ اسی دور کی یاد گار ہے ۔یہ آگ لسانیت کے بھاری پتھر رگڑ کر جلائی گئی تھی جو ایک عرصہ سے بجھائی نہیں جاسکی، بعدازاں اس آگ میں بہت سے دوسرے ایندھن شامل ہوئے تو عروس البلاد شہر شمشان گھاٹ کا نقشہ پیش کرنے لگا۔اب کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کوئی سانحہ رونما نہیںہوتا،کوئی صبح ایسی نہیںہوتی جب کسی تازہ جنازے کا جلوس نہ نکلے اورکوئی پل ایسا نہیں گزرتا جب کسی غم کا مہورت نہ ہو: روز کیا تازہ جنازے کا جلوس! روز ایک غم کا مہورت کیوں ہے؟ بات ’اے پی سی ‘ کی ہورہی تھی جس میں شیخ رشید اوراعجاز الحق کو دعوت ِکلام نہیں دی گئی ۔شیخ رشید کا کہنا ہے کہ ہمارے سابق’’جگری دوست‘‘ کبھی اپنے آپ کو جنرل ضیاء الحق کا جانشین کہہ کر فخر محسو س کرتے تھے ٗ آج یہ جمہوریت کے چمپیئن ہیں اورانہوں نے اپنے منہ بولے اورنظریاتی بھائی اعجازالحق کو بھی پہچاننے سے انکار کردیاہے۔ شیخ رشید نے بتایاکہ نوازشریف نے جب پہلی بار دوتہائی اکثریت حاصل کرلی تھی تو تب بھی میں نے اعجاز الحق سے کہاتھاکہ اب تم ایک طرف ہوجائو اورمیاں صاحب کے سامنے نہ جانا‘ لیکن یہ باز نہیںآیا اورمایوس لوٹاتھا۔ بہر حال ’اے پی سی‘ کے حوالے سے غیر جانبدارانہ تجزیہ یہ ہے کہ شیخ رشید اورمنہ بولے بھائی کے علاوہ اس میں باقی نفری پوری تھی۔کانفرنس میں 12سیاسی جماعتوں کے 28رہنمائوں نے شرکت کی۔عمران خان نے اے پی سی میں پورے پروٹوکول اوروی وی آئی پی طریقے سے شرکت کی۔کانفرنس سے قبل عمران خان نے وزیر اعظم ہاوس میںپی ایم نوازشریف اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاقات کی‘ جس میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، پرویز رشید، وزیر اعلیٰ کے پی کے پرویز خٹک اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالسلام بھی موجود تھے۔عمران خان نے دونوں اہم شخصیات سے ملاقا ت کرکے کیاتسلی کی‘ اس بابت وہی بہتر بتا سکتے ہیں؟ شیخ رشید اورعبدالمالک کے ’ون آن ون انٹرویو‘ میںبہت سی باتیں ہوئیں۔عبدالمالک نے جنرل ضیاء الحق کے حوالے سے ایک سوال پوچھاتو شیخ رشید نے کہاکہ میںنے تو جرنیلوں اورآمروں کے ساتھ بھی دوٹوک انداز میں بات کی ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے بارے میں لطیفہ مشہور ہے کہ انہوں نے کسی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا کہ بتائو میری آنکھیں ہیمامالنی سے ملتی ہیں؟خوشامدی شخص نے کہاکہ ہیمامالنی کیاچیز ہے آپ کی آنکھیں تو اس سے بھی نشیلی ہیں۔شیخ صاحب نے کہا: ’’حالانکہ جنرل صاحب کی آنکھیں تو آپس میں بھی نہیںملتی تھیں‘‘۔ اس پر عبدالمالک نے کہاکہ شیخ صاحب !آپ کی انہیںغیر سنجیدہ باتوں کی وجہ سے شاید آپ کو ’اے پی سی‘ میں نہیںبلایاگیا؟ اس پر شیخ رشید نے کہاکہ میںسب جانتاہوںکہ یہ سب اندر سے کتنے سنجیدہ ہیں ؟میں عوامی آدمی ہوں اورعوامی لہجے میں بات کرتا ہوں۔اے پی سی کے اعلامیہ کے متعلق ان کاکہناتھاکہ ’’یہ ایک لم لیٹ قرار داد ہے‘‘ ۔جس میں طالبان کی تمام شرائط مان لی گئی ہیں۔ اب انہیں کامیابی حاصل کرنا چاہیے۔طالبان سے اس سے قبل بھی کئی معاہدے کیے گئے مگر اس سے کسی قسم کا فائدہ ہونے کی بجائے الٹا دہشت گردی میں اضافہ ہوا۔ خدا کرے اس معاہدے کا انجام ان معاہدوں جیسا نہ ہوجو اس سے قبل ناکام ہوئے ۔اپریل 2004ء میں طالبان کے کمانڈر نیک محمد،فروری 2005ء میں بیت اللہ محسود اور 2008ء میںمولوی فضل اللہ سے معاہدے ہوئے۔ متذکرہ تمام معاہدوں سے طالبان رہنمائوں نے انحراف کیااور بعد ازاں یہ ڈرون حملوں اورفوجی آپریشن میں مارے گئے۔ گزشتہ روز کے کالم میں ،میں نے آئی بی ،سوئی سدرن اور نادرن گیس کے ہزاروں ملازمین کی آواز حکومت تک پہنچائی۔ صحافتی طور پر اس معمولی کام کو سرانجام دینے کے نتیجہ میں مجھے صرف چند گھنٹوں میں ان گنت ای میلز ، ایس ایم ایس اورٹیلی فون موصول ہوئے ہیں۔اس ’’فیڈ بیک ‘‘ پر میرے تن بدن پر کپکپی طاری ہوگئی کہ اس ملک کے دکھیارے عوام بے روز گاری سے کس قدر خوفزدہ ہیں۔یہ ہزاروں لوگ اگر بے روز گار کردیے گئے تو لگ بھگ پندرہ سال بعد ان کے پاس متباد ل روزگار کا ذریعہ کیاہوگا؟ان میں سے اکثر کایہ کہناہے کہ پچھلی بار جب میاں صاحب نے انہیں نوکریوں سے برخاست کیاتھا تو صرف چند ماہ بعد میاںنواز شریف صاحب کی حکومت کا بھی دھڑن تختہ ہو گیاتھا اوروہ 10 سال تک جلاوطن رہے تھے۔بے روز گاری کی صلیب پر چڑھائے جانے والے متوقع افراد میں سوئی نادرن گیس کے صرف 241 ایگزیکٹیو افسران جبکہ چند ہزار ورکرز شامل ہیں،اسی طرح سوئی سدرن میں 2200کے قریب ورکرز اورچند افسران شامل ہیںجنہیں برخاست کرنے کی تجویز دی جارہی ہے۔یہ سب اسی ملک کے تعلیم یافتہ اورٹرینڈ لوگ ہیں جو اپنے محکموں اورشعبوں سے وابستہ رہ کر اپنے فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ اپنے اور اہلِ خانہ کے لیے رزق کمارہے ہیں۔میاں نوازشریف کو ایسے مشوروں پر کان نہیںدھرنا چاہیے جس سے ہزاروں لوگ بے روزگار ہوجائیں اوراس کے نتیجہ میں بددعائوں کا ’’ہیوی مینڈیٹ‘‘ ملے۔ 1985ء میں میاں صاحب نے اپنی سیاست جب لاہور سے شروع کی تھی تو یقینا وہ ہیوی مینڈیٹ نہیںتھے ۔انہوں نے یہ مینڈیٹ دکھی اورضرورت مند عوام کے ساتھ سانجھ سے بڑھایا ہے۔ میاں صاحب کو مفت مشورہ ہے کہ وہ اپنے لیے دعائوں کے اس مینڈیٹ میں کمی واقع نہ ہونے دیں کیونکہ یہ وہ مینڈیٹ ہے جوانہیں اگلے جہان میں بھی سرخرو کرنے کا باعث بنے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں