"TSC" (space) message & send to 7575

کمرہ نمبر211

یہ 1988ء کے آغاز کا زمانہ تھا۔ میں پنجاب یونیورسٹی کے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ تھا‘ جہاں میرے کلاس فیلو آج کے معروف اینکر پرسن اور سینئر صحافی حامدمیر تھے جن کی وساطت اوررہنمائی سے میں ایک قومی اخبار سے وابستہ ہوگیا۔ حامد صاحب نے بھی چند ماہ قبل اپنے کیرئیر کاآغاز کیاتھا۔ مجھے یاد ہے میری پہلی تنخواہ 1535روپے ماہانہ تھی جبکہ ان کا سیلری سکیل 1735روپے تک پہنچ چکا تھا ۔ جب میں نے اپنی پہلی تنخواہ وصول کرکے جیب میں ڈالی تومجھے یوں لگا جیسے ساری کی ساری دنیا میری جیب میں آگئی ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ اپنی پہلی تنخواہ وصول کرنے کے بعد اخبار کے دفتر سے موٹر سائیکل پر سوار ہوکر جب شملہ پہاڑی (موجودہ پریس کلب) کے پاس سے گزر رہاتھاتو میری آنکھوں سے آنسو چھلک گئے تھے۔ میں اپنے رب کے بعد والدین کا شکر گزار تھا کہ جن کی محنتوں اورقربانیوں سے صاحب روز گار ہواتھا۔ یہ وہ دن تھے جب قومی اخبار ات سے وا بستہ نوے فیصد صحافیوںکا محنتانہ ڈبل فگر میں نہیںہوتاتھا یعنی دس ہزار سے کم ہوتا تھا۔ بڑے سے بڑے تیس مار خان صحافی کی تنخواہ چھ سات ہزار روپے ہوا کرتی تھی۔لاہور میں اس وقت دوعدد قومی اخبار ہی معروف ہوا کرتے تھے۔چونکہ صحافیوں کے پاس چوائس بہت کم تھی اس لیے برادری سے وابستہ احباب کے لیے دو ہی ٹھکانے زیادہ معروف تھے۔ ان میں بھی ایک ورکروں کی خوشحالی سے زیادہ جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے میں مشغول رہتا اور فریق دوم جو قدرے کھلے ہاتھ کا واقع ہوا تھا اس کی دریادلی کا مظاہرہ میرے پیکج مبلغ 1535روپے ماہانہ سے آپ اچھی طرح کرسکتے ہیں۔لاہور کے صحافیوں میں خوشحالی نوے کی دہائی میں آنا شروع ہوئی جب دوتین اخبار یکے بعد دیگر ے میدان میں آئے اور صحافیوں کی تنخواہوںمیں اضافے کے ساتھ ساتھ علاج معالجہ کی بہتر سہولتوں کی پیشکش بھی کی گئی۔نئے میلینیم کے آغاز کے بعد پاکستانی میڈیا میں انقلاب آیا۔ہوایوں کہ کارپوریٹ سیکٹر نے بدلتی ہوئی دنیا اوربدلتے پاکستان کے رجحانات کو مدنظر رکھتے ہوئے میڈیا میں سرمایہ کاری کی جس سے مجموعی طور پر صحافیوں کے معاشی حالات پہلے سے بہتر ہوگئے ۔مگر اس کا زیادہ فائدہ صحافی برادری کی اس مین سٹریم کوہی ہوا جس کے معاشی حالات پہلے بھی بہتر تھے۔ان حالات میں سٹارز ،سپرسٹارز جبکہ سپر سٹارزمیگا سٹارز بن کر صحافتی Celluloid( فلمی فیتے اور بزنس کے لئے استعمال کی جانے والی اصطلاح)پر چمکنے لگے۔بعض سپرسٹارز اورمیگا سٹارز نے ذیل میں درج ’’فارمولے ‘‘ پر عمل پیرا ہوکر حیرت انگیز مراعات حاصل کیں اوریہ سلسلہ یوں جاری بھی ہے: جہاں میں اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں َِِادھر ڈوبے ُادھر نکلے ، ُادھر ڈوبے ادھر نکلے پنجاب یونیورسٹی میں میرا تعلیمی سال 1987-89ء تھا۔اپنا تعلیمی سیشن مکمل کرنے کے لئے مجھے نیوکیمپس کے ہاسٹل نمبر 18میں کمرہ نمبر 211الاٹ ہواتھا۔دوسالہ کورس کے سلسلہ میں پنجاب یونیورسٹی کے قوانین کے تحت مجھے میرے دوعدد ساتھیوںکے ساتھ مشترکہ طور پر ایک Cubical Room الاٹ ہوا تھا۔حسن اتفاق تھاکہ اس کمرے میں دوعدد سہیل صاحبان کے ساتھ ایک تیسرے سہیل بھی رہائش اختیا ر کئے ہوئے تھے اوروہ اداکار سہیل احمدتھے جنہیں آپ ’’دنیانیوز‘‘ کے مقبول پروگرام ’’حسب ِحال‘‘میں عزیزی کے کردار میں دیکھ رہے ہیں۔ دیگر سہیل نامی میرے عزیز دوستوں کی تفصیل یہ ہے کہ ایک سہیل جن کا تعلق راولپنڈی سے تھاوہ جرنلز م ڈیپارٹمنٹ میں میرے کلاس فیلو تھے ۔موصوف نے ہاسٹل میں ہماری صحبت سے فیضان کرنے کے بجائے لاہور میں واقع اپنی خالہ کے ہاں پناہ لینے میں ہی عافیت محسوس کی۔یہ سہیل نمبر تین کا ذاتی فیصلہ تھا۔سہیل احمد صاحب کانمبر ایک تھا اورسہیل نمبر دوکا تعلق چنیوٹ سے تھا جبکہ اس کا شعبہ جیالوجی(ارضیات) تھا۔ سہیل نمبرتین جو میرے اورساتھیوں کے متوقع حسن سلوک سے متاثر ہوکر اپنی خالہ کے ہاں شفٹ ہوگئے تھے میں نے ان کا خلا جلد ہی پُر کرلیاتھا۔سہیل پنڈی وال کانعم البدل کون تھا؟اس کا تعلق جامعہ پنجاب کے کس شعبے سے تھا؟اس بابت زیادہ سسپنس زیر نظر کالم کو کہیں بور نہ کردے لہٰذا آپ سے شیئر کرتاہوں ۔کمرہ نمبر 211گیارہ کا چوتھامکین اداکار ببوبرال (مرحوم) تھا۔جامعہ پنجاب کا مذکورہ کمر ہ کسی بہت بڑی نوٹنکی سے کم نہیںتھا۔دن بھر میں اپنی صحافیانہ مصروفیات میں مصروف رہتا جبکہ میرے ساتھی سہیل احمد اورببوبرال سٹیج ڈرامہ ،ریڈیو اورپی ٹی وی کی یاترا میں دن گزارتے تھے۔ رات بارہ بجے کے بعد ہم سب کمرے میں اکٹھے ہوتے تو وہاں دن چڑھ جاتا۔جامعہ پنجاب کے مقامی وقت کے مطابق عام طالب علم بعداز نمازعشا ہی سوجایا کرتے تھے لیکن ہم نجانے اپنی گھڑیاں کس ملک کے وقت کے ساتھ ملاکر ساری، ساری رات رت جگے کیاکرتے تھے۔ہم سب کے شعبے اوررستے تو شاید جدا ،جدا تھے مگر دوستی ،محبت ،بھائی چارہ ہمیں ایک چھت کے نیچے اکٹھے رکھے ہوئے تھا۔کمرہ نمبر دوسوگیارہ میں ،میں اورسہیل احمد گجرانوالہ سے تھے ،سہیل نمبر دو جسے میں اس کے دبلے پتلے ہونے کی وجہ سے پیار سے ’’پیچ کس‘‘ کہاکرتاتھاوہ چینوٹ سے تھا سہیل نمبر تین راولپنڈی جبکہ ببوبرال کا تعلق گکھڑ منڈی سے تھا۔یوں جامعہ کے چھوٹے سے کمرے میں پردیسیوں کی شکل میں پنجاب آباد ہوگیاتھا۔حامدمدنی نے کہاہے کہ : یہ سرد راتیں، یہ آوارگی، یہ نیند کا بوجھ ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے ہاسٹل نمبر 18میں کمرہ نمبر 211محلِ وقوع کے اعتبار سے پُرامن علاقہ میں واقع تھا۔211کی ایک طرف مغرب کی جانب کمرہ نمبر 212اورمشرق کی طرف کمرہ نمبر 210واقع تھا۔کمرہ نمبر 210میں ظاہری طورپر ایل ایل بی کے طالب علم عمران الحق چوہان رہائش اختیار کئے ہوئے تھے مگر یہ شخصیت تنوع اوربوقلمونی کا نادر نمونہ تھے۔چوہان صاحب قانون کے طالب علم کم اورکوئی آرٹس اکیڈمی اور لائبریری ٹائپ کی چیز زیادہ تھے۔وہ کتھک سے لے کریوگا اوریوگا سے لے کر سائنس کے ماہر تھے۔میں نے ان میں برجھو مہاراج ، غالب، میر،فیض، واسکوڈے گاما، مشتاق احمدیوسفی اورسوسے دوسو تنقید نگار وں کا ہجوم دیکھا ۔ عمران الحق چوہان مجموعۂ یک خوبی و صد خرابی ٹائپ کی شے تھے۔ ان کی طبیعت میں پائے جانے والے تنوع کا ذکر کالموں کی کئی ایک سیریز میں ممکن ہوسکے گا لہذا ان کی بحر بیکراں شخصیت کے گرد کسی اوردن حاشیہ ضرور کھینچوں گا۔ کمرہ نمبر 212کا مکین بھی اپنے طبعی تنوع کے حوالے سے کچھ کم نہ تھا۔جامعہ پنجاب کی واحد اوراکلوتی اسلامی جمعیت طلبہ سے ان کے تعلقات ایسے ہی تھے جیسے پاکستان کی حکومت کے سعودی عرب سے رہتے ہیں۔ پاک امریکہ تعلقات کا حوالہ اس لیے نہیں دیاکیونکہ ایک عرصہ سے امریکہ ہمارے ہاںاپنی اہمیت اور ساکھ کھو چکا ہے۔ مذکورہ ہاسٹل فیلو کا نام ظفر منہاس تھا جو اپنے اندر مولائیت کے ساتھ ساتھ فنکارانہ جمالیات کا بھی منبع تھا۔موصوف کے جامعہ میں واقع تمام ہاسٹلز اورمرکزی ناظم سے نہ صرف خوشگوار تعلقات تھے بلکہ وہ انہیںاپنا ’’ بندہ ‘‘سمجھتے تھے اورمولانا ظفرمنہاس بوقت ضرورت میز کی ڈھولکی بنا کرببو برال کے ساتھ سنگت بھی کیا کرتے تھے۔ ظفرمنہاس کا تعلق منوبھائی اورعطاالحق قاسمی کے شہر وزیر آباد سے تھا،اسے اس کی ان خوبیوں کے باعث ہم سب مولوی وٹامنز کہا کرتے تھے۔ظفر منہاس میرا بہت خیال رکھتا تھا میں اسے پیار سے ’’امی جی ‘‘ بھی کہا کرتا تھا۔ ایسے دوست بھی ہوتے ہیںجو آپ کا خیال مائوں کی طرح رکھتے ہیں۔ پروردگار ایسے دوستوں کی خیر کرے۔ وہ جہاں رہیںخوش رہیں۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں