"TSC" (space) message & send to 7575

کمرہ نمبر 211……(آخری قسط)

آج صبح جس ٹیلی فون کی گھنٹی پر میری آنکھ کھلی وہ میرے دوست ظفرمنہاس کا تھا ۔وہ ہاسٹل نمبر 18جیسے’’تاریخی ‘‘ مقام اورکمرہ نمبر 211کے ساتھ کمرہ نمبر 212کا مکین تھا۔ جس کا نام میں نے ’’مولوی وٹامنز‘‘ رکھاہواتھا۔ کمر ہ نمبر 211میں جب میر ا جگری دوست ببوبرال نغمہ سرا ہوتا تو مولوی ظفر غزل ،گیت ،رمباسمبااورپاپ میوزک غرضیکہ ہر قسم کی تال بجایا کرتاتھا۔وہ ببوبرال کے ساتھ سنگت کیاکرتاتومیں اسے شاباشی دیتے ہوئے کہا کرتاکہ ’’تم طبلہ نواز وں کے مولانا عبدالستار تاری ہو‘‘۔میری داد پاکر اس کے ’تادھن دھناتادھن دھنا‘جیسے طبلے کے بول اوربھی واضح ہوجایاکرتے تھے۔ جیساکہ میں نے عرض کیاکہ مولوی وٹامنز کمرے میں پائی جانے والی سٹڈی ٹیبل بجانے کاماہر تھا۔ٹیبل بجانے میں وہ بھی اس مقام ِ فیض پر پہنچنے والاتھا‘ طبلہ نوازی میں جہاں استاد طافو یا استاد بھلوخاں براجمان ہیں‘ مگر افسوس ہمارا تعلیمی سیشن ختم ہوگیا اورمیرا دوست مولوی ظفر ایک ماہر طبلہ نواز بننے سے محروم رہا۔مولوی ظفر کو میں پیار سے ’’امی جان‘‘ بھی کہاکرتاتھا۔وہ بڑا ہمدرد اورسگھڑ قسم کا مرد تھا۔ اللہ بخشے میری والدہ ثریا سرور (مرحومہ) ظفر کے لئے کہاکرتی تھیں ’’منہاسوں کے لڑکے بھی لڑکیوںجیسے سگھڑ ہوتے ہیں‘ تم اس سے سیکھا کرو‘‘لیکن میری بدقسمتی میں نے اس سے سگھڑ پن سیکھنے کے بجائے صرف ٹیبل بجاناہی سیکھا۔شکر ہے اب تو میں ٹیبل کے علاوہ گاڑی کا اسٹیرنگ بھی بجا لیتاہوں ۔سی ڈی پلیئر پر استادنذر حسین کی کمپوز کی ہوئی اورملکہ ترنم نورجہاں کی گائی غزل ’’رات پھیلی ہے تیرے سرمئی آنچل کی طرح ‘‘ ہویا رنبیر کپور پر فلمایا سونگ ’’بدتمیز دل‘‘، بندۂ صحافی جملہ کمپوزیشن اور ان کے آرکسٹرا ز میں اپنا طبلہ لے کر گھس جاتا ہے۔ مولوی ظفر منہاس ساری رات ہمارے ساتھ جاگنے کے بعد صبح میرے کمرے کو بالکل اس طرح صاف ستھر ا کردیتا جیسے کمرہ نمبر 212ہوا کرتاتھا۔ہم دوستوں میں غالب کی یہ غزل بہت مقبول تھی جسے لتامنگیشکر اوربھوپندر سنگھ نے گایاتھا: جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کئے ہوئے 2001ء میں، میں جب اپنے دوست گلوکار پرویز مہدی کے ہمراہ پہلی بار بھارت گیاتومیری ملاقات بھوپندر سنگھ اوراس کی بیوی متالی سے ہوئی۔میں نے انہیں اپنے ایک ،ایک دوست کا نام لے کر بتایاکہ ہم سب ان کاگایاگیت کورس میں گایاکرتے تھے۔بھوپندر سے ملاقات کے بعد مجھے لتامنگیشکر سے ملنے کا اعزاز بھی نصیب ہوا لیکن انہیںمیں نے یہ روداد سنانے کی ہمت نہ کی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ انسان کوشش کرے تو بھوپندر کی طرح گاسکتا ہے لیکن لتاجیسی آواز پروردگار پیدا کیاکرتاہے۔کوئی اگر یہ سوچے کہ وہ محنت اورریاضت سے لتامنگیشکرکا نعم البدل ہوسکتا ہے تو یہ واہمہ اور خیال بھی ناممکن ہے۔ آج صبح جب ظفر منہاس کی آواز کانوں میں پڑی تو دماغ کے فلیش بیک پر کتنے ہی پرانے منظر تازہ اورچہرے ستارے بن کر آنکھوں کے سامنے چمکنے لگے ۔چاچاسائیں ہاسٹل کا چوکیدارتھا‘ وہ فوج سے کسی لوئر رینک سے ریٹائرڈ ہوا تھا مگر جرنیلوں کی نفسیات اور جنگی حکمت عملی پر لیکچر دیاکرتاتھا۔ جنرل محمد ضیاء الحق کا طیارہ سی ون تھرٹی کریش ہوا تو چاچے سائیں نے کئی دن تک ظاہری طور پر کھانا نہیںکھایاتھا ۔چا چے سائیں نے جنرل ضیاء کی وفات پر ہم سب کو یہ تاثردیاتھاکہ اس کا کوئی ’’بیچ میٹ‘‘ اس سے بچھڑ گیا ہے۔ لالہ شفیع ہمارے ہاسٹل کا ڈپٹی چوکیدار تھا جو آئے روز اپنے سر پر لال مہندی لگایا کرتاتھا۔سردیوں کی ایک روپہلی صبح جب میں اور عمران الحق چوہان اپنے کمروں کے باہر برآمدے میں کھڑے دھوپ سینک رہے تھے‘ لالہ شفیع حسب روایت سر پر لال مہندی لگائے پودوں کی گوڈی کررہاتھا۔لالے سے متعلق چوہان کا تاریخی جملہ مجھے آج بھی یاد ہے ۔چوہان نے میری توجہ لالے کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہاتھاکہ لالے نے مہندی لگانے کا یونہی تکلف کیاہے حالانکہ حضرت علامہ اقبال ؒفرماگئے ہیںکہ ع فطرت خود کرتی ہے لالے کی حنا بندی ظفر منہاس نے پرانے یار بیلیوں کی خیریت دریافت کرنے کے بعد دکھ بھرے لہجے میں کہاکہ کویت میں ہرپاکستانی ننھی پری کے واقعہ سے تڑپ اٹھاہے۔ وہ کتنی دیر تک مجھ سے حادثے کے حوالے سے افسوس کرتارہا۔ میڈیا ابھی اس حادثہ پر واویلا کر رہا تھا کہ دو مزید کم سن بچیوں کے ساتھ زیادتی کے کیس سامنے آگئے۔ان میں پہلاواقعہ مانگامنڈی کے نواح اورتھانہ سندرکے علاقہ مراکہ میں پیش آیا ۔جہاں بھٹہ مزدور کی پانچ سالہ بیٹی گھر کے باہر کھیل رہی تھی جسے بھٹے کے ملازم بوٹا نے بسکٹ کھلانے کے بہانے ویرانے میں لے جاکر زیادتی کانشانہ بنایا۔ملزم بوٹا نے اپنے اقبالی بیان میں بتایاہے کہ وہ چرس کا عادی ہے۔ وقوعہ کے روز اس پر شیطان غالب آگیاتھاجس کے باعث اس سے یہ ظلم سرزد ہوا۔ ایسے ہی تیسرے واقعہ میں قصور شہباز روڈ کے محنت کش کی 5سالہ بیٹی کے ساتھ نامعلوم ملزم نے زیادتی کی اوربچی کو بے ہوشی کی حالت میں چھوڑ کر فرار ہوگیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ عورتوں سے زیادتی کے 80سے 90فیصد واقعات کی ایف آئی آر کٹوائی نہیںجاتی۔اس کی وجہ ہمارا معاشرتی اورسماجی نظام ہے جس میں عورتیں اور بچیاں غیر محفوظ زندگی بسر کررہی ہیں۔جب سے کم سن اور مظلوم بچیوں کے خلاف درندگی کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں‘ میڈیا میں ہر سائز کے دانشوراور دانشوریاں طرح ،طرح کے تھیسس پیش کررہی ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے کہاکہ روشن خیالی اور مغرب کی تقلید نے ہمارے معاشرے میں بے راہ روی کو فروغ دیا۔ بعض سقراط ثانی معاشرتی بگاڑ کو انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اوریوٹیوب سے بھی جوڑ رہے ہیں۔وطن عزیز میں گزشتہ بہت دنوں سے یوٹیوب پر پابندی عائد ہے مگر اس کے باوجود اس درندگی کا تعلق روشن خیالی کو قرار دیا جا رہا ہے۔ حالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ جو کم سن بچیاں زیادتی کا شکار ہوئیں ان کی عمریں کم وبیش صرف پانچ سے چھ سال بیان کی گئی ہیں۔ مانگا منڈی اوردوسری وارداتوں میں جن افراد کو بچیوں کے ساتھ زیادتی کے الزام میں گرفتار کیاگیاوہ سب منشیات کے عادی ہیں۔منشیات کا فروغ ہمارے ہاں افغان جہاد کے زمانہ میں ہوا ۔ نام نہاد جہاد کی آڑ میں انٹر نیشنل انڈر ورلڈ نے پیارے وطن میں اپنے اڈے قائم کرلئے۔ کلاشنکوف، ہیروئن، نرم اور فرینڈلی بارڈر کے بمپر پرائز ثابت ہوئے ۔ نرم امیگریشن اور دوسرے ذرائع سے آنے والے گھس بیٹھیوں نے ہمارے معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ گزشتہ 35سالوں سے ہیروئن نے ہماری دونسلیں برباد کیں۔آغاز میں ہیروئن سستا نشہ تھا، یہ مہنگا ہوا تو فاقہ کش انجکشن کے ذریعے موت براہ راست رگوں میں منتقل کرنے لگے۔ایک عرصہ سے ہمارے ہاں نشے کے لئے مختلف کیمیکل بھی استعمال کئے جارہے ہیں۔یہ نشہ اس قدر تباہ کن ہے کہ اسے کرتے ہوئے انسان اشرف المخلوقات سے درندہ اورکوڑے کرکٹ کا ڈھیر بن جاتاہے۔ تاحال ہماری ذہین ،مستعد اورفرض شناس پولیس مجرم کا سراغ لگانے میں ناکام رہی ہے۔خادم اعلیٰ نے حکم صادر فرمایا ہے کہ درندوں کو قانون کے کٹہرے میں لائیں گے۔علاوہ ازیں حکومت کی فوج ظفر موج بھی روزانہ ملزم یا ملزمان کے خلاف گھیرا تنگ کرتی ہے مگر ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیںلائی جاسکی۔خفیہ اداروں کا کہنا ہے کہ نااہل پولیس ضروری شواہد ضائع کرچکی ہے۔ ظلم کے اس قبیح ڈرامے کے ڈراپ سین میں اصل ملزم پکڑا جاتاہے یا اس کی جگہ کوئی ’’پراکسی مرڈر‘‘ ہوگا؟؟؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ ظالم اور بے رحم معاشرہ بے قصوروں کو بھی معاف نہیں کیاکرتا۔ پروردگار ننھی پری کو آسانیاں فراہم کرے۔ آمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں