"TSC" (space) message & send to 7575

وزیراعظم کے لیے اکسیری مشورہ

یہ یورپ کے خوبصورت ملک سویڈن کا کیپیٹل سٹاک ہوم (Stockholm) تھا۔میں اورمیری اہلیہ دونوں اپنے پاکستانی میزبان مسٹر اے ڈی بٹ کے ہمراہ ایک عمدہ گاڑی میںشہر کا نظارہ کررہے تھے۔ہمارا میزبان گاڑی آہستہ آہستہ چلارہاتھا اور ہمیں سٹاک ہوم کے معروف مقامات کے متعلق بتارہاتھا کہ یکایک گاڑی کے قریب ایک سائیکل سوار فرنگی آیا جو چیخ چیخ کر ہمیں کچھ کہہ رہا تھا۔گاڑی کے شیشے چونکہ بند تھے‘ اس لیے فرنگی کی صرف ویڈیوہی دکھائی دے رہی تھی آڈیو سنائی نہیں دے رہی تھی۔فرنگی کی رگیں پھولی ہوئی تھیں اور وہ غصے میں ہانپتا ہوا ہمیں کچھ کہہ رہاتھا۔میں نے اپنے میزبان مسٹر بٹ سے پوچھا کیامعاملہ ہے اوریہ بڈھا فرنگی غصے میں ہمیں کیاکہہ رہاہے؟مسٹر بٹ نے بتایاکہ پچھلے چوک میں‘ میں نے ٹریفک سگنل کا خیال رکھے بغیرگاڑی آگے بڑھا دی تھی‘ اس شخص نے دیکھ لیااوراب ہمیں برابھلا کہہ رہاہے۔میں نے مسٹر بٹ سے کہاکہ آپ غلط کہہ رہے ہیںکہ فرنگی بابا ہمیں صرف برابھلا کہہ رہاہے ٗ اس کی پھولی ہوئی رگوں اورنسوں سے صاف لگ رہا ہے کہ یہ ہمیں ’’بائیس کیرٹ ‘‘ کی گالیاں دے رہاہے۔ میں نے مسٹر بٹ سے کہاکہ آپ گاڑی کا شیشہ نیچے کرکے اس فرنگی سے معذرت کریں ۔مسٹر بٹ نے میرے احتجاج پر فرنگی بابا سے ٹریفک سگنل توڑنے پر معافی مانگی۔فرنگی باباجو سائیکل پر سوار تھااوربہت غصے میں تھااس نے وارننگ دیتے ہوئے کہاکہ ’’ہم اپنے ملک میں تم کو ٹریفک سگنل توڑنے کی اجازت ہرگز ،ہرگز نہیںدیںگے‘‘۔مجھے یوں لگا جیسے میرے میزبان نے ٹریفک سگنل توڑنے کے بجائے کسی کا قتل کردیا ہو۔ فرنگی بابا کی گالیاںابھی جاری تھیں کہ ٹریفک کا سرخ سگنل ٗ سبز ہوگیا اورمسٹر بٹ نے گاڑی آگے بڑھائی ٗیوں ہمیں ’’موبائل فرنگی تفتیش‘‘ سے نجات ملی۔فرنگی بابا نے صرف ایک ٹریفک سگنل توڑنے پر ہماری وہ ’’کلاس‘‘ لی جو آج تک مجھے یاد ہے ٗ اس کے برعکس وطن عزیز میں روزانہ لاکھوں اورکروڑوں لوگ ٹریفک سگنل نہ صرف توڑتے ہیںبلکہ اس سے آنکھ مچولی کھیلتے ہیں۔رواں سال صرف جولائی کے مہینے کیپیٹل اسلام آباد میں ٹریفک پولیس نے 8814چالان کئے۔اسلام آباد ہمارا وہ شہر ہے جہاں قومی اسمبلی میں ہمارے منتخب نمائندے قانون سازی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں،اس شہر میں سینیٹ ہے ،اعلیٰ عدلیہ اورآئین کی پاسداری کی عظیم روایات بھی ہیں ۔اس شہر میں صرف ایک مہینے میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر لگ بھگ نو ہزار کے قریب چالان ہوناشرمناک حقیقت ہے۔ ایک اندازے کے مطابق لاہور میں ایک ہی وقت میں مختلف مقامات پر سینکڑوں لو گ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کررہے ہوتے ہیں۔اہم شاہراہوں کے علاوہ غیر اہم سڑکوں اورچوراہوں پر فراٹے بھرتی گاڑیوں کو قانون کے دائرے میں لایاجائے تو یہ تعداد یقینا ہزاروں میں ہی ہوگی۔لاہورکی اہم شاہراہوں پر کھڑی ہماری ’’مستعد ‘‘ ٹریفک پولیس نے صرف ستمبر کے مہینے میں چار ہزار دو سو ستانوے چالان کئے۔ میں شرط لگاسکتا ہوں کہ اگر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے سبھی لوگوں کا چالان کیاجائے تو یقینا ان کی تعداد لاکھوں میں ہوگی… شاید اتنی‘ جتنی تعداد میں کراچی اور لاہور کے حلقوں میں ہماری دوسیاسی جماعتوں کے ووٹ نکل آیا کرتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ پورے پاکستان میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔جولائی 2009ء کی ایک اخباری رپورٹ کے مطابق راولپنڈی میں ٹریفک پولیس نے پینتالیس ہزار چھ سو سے زائد چالان کرکے ایک کروڑ چالیس لاکھ روپے جرمانہ کیا۔آپ سوچ سکتے ہیںکہ اتنی یا اس سے ملتی جلتی رقم ’’قانون کی جیب ‘‘ میں بھی گئی ہوگی اورجن احباب نے یہ ’’ایمرجنسی جرمانہ ‘‘ ادا کردیاہوگا وہ دوبارہ سے قانون کی خلاف ورزی فرمارہے ہوں گے۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے باعث لو گ خطرناک حادثات سے دوچار ہوجاتے ہیں۔یہ بھی ایک دلخراش حقیقت ہے کہ ان حادثات کا شکار وہ لوگ بھی ہوجاتے ہیں جو ٹریفک قوانین کا احترام کررہے ہوتے ہیں۔یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ ٹریفک قوانین کا احترام کرتے ہوئے کسی قسم کے حادثے کا شکار نہیںہوسکتے ۔ہماری شاہراہیں ،چورنگیاں اوررستے سبھی غیر محفوظ ہیں‘ سب پر موت منڈلارہی ہوتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہرسال 1لاکھ پچیس ہزار افراد ٹریفک حادثات سے موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پنجاب میں 2005ء میں سالانہ حادثات کی تعداد 4431تھی اور پھر 2009ء میں حادثات کی تعداد پانچ ہزار تین سو چوالیس ہوگئی۔خیبر پختونخوا میں 2008ء میں حادثات کی تعداد دو ہزار تین سو بانوے رہی جبکہ 2009ء میں دو ہزار پانچ سو انسٹھ افراد ٹریفک حادثات میں لقمۂ اجل بن گئے۔دیکھا جائے تو خیبر پختونخوا میں اتنی تعداد میں لوگ ڈرون حملوں اوردہشت گردی کے واقعات میں نہیںمارے گئے جتنے ٹریفک حادثات میں جان سے گئے۔ اسی طرح بلوچستان میں سالانہ حادثات کی تعداد پانچ سو کے لگ بھگ بیان کی جاتی ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق دنیا میں ہر سال تیرہ لاکھ افراد لوگ ٹریفک حادثات میں مارے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ہونے والے حادثات میں 39فیصد لوگ اپنی جان ہار دیتے ہیں۔ 42فیصد لوگ حادثات میں شدید زخمی ہونے کے بعد بچ تو جاتے ہیںمگر اپنی باقی ماندہ زندگی ایک اپاہج کے طور پر گزارتے ہیں۔اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں ٹریفک قوانین توڑنے والوں میں یوں توسبھی عمروں کے لوگ شامل ہیںلیکن نوجوانوں میں یہ تعداد 61فیصد ہے۔ ٹرانسپورٹ اورٹریفک قوانین کے حوالے سے دنیامیں کی جانے والی ریسرچ سے دلچسپ حقائق سامنے آئے ہیں۔ایک عرصہ سے دنیا کے بڑے شہروں میں آبادی بہت بڑھ گئی ہے۔ٹریفک کی بھیڑ کی وجہ سے امریکیوں کو اپنی اپنی منزل پر پہنچنے میں جتنی دیر ہوجاتی ہے اسے اگر جمع کیاجائے تو وہ پانچ ارب ستر کروڑ گھنٹے بن جاتے ہیں۔ دو سال قبل میں جب امریکہ گیا تو مجھے وہاں کی 13مختلف ریاستوں میںجانے کا اتفاق ہوا۔ میںامریکہ میں اپنے ڈیڑھ ماہ کے قیام کے دوران نیویارک، لاس ویگاس اور واشنگٹن جیسے شہروں سمیت امریکہ کے جنگلوں میں بھی گیا۔ یقین جانیں مجھے امریکہ کے جنگلوں میں بھی کوئی شخص ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے دکھائی نہیںدیا۔ دنیا کے بڑے شہروں جن میں کراچی بھی شامل ہے‘ کی 80فیصد ٹریفک صرف دس فیصد سڑکوں پر ہوتی ہے۔دنیا کے مختلف شہروں اور مصروف علاقوں میں کی جانے والی ریسرچ سے یہ حیران کن حقیقت سامنے آئی ہے کہ اگر آپ 27کلومیٹر تک گاڑی کو (ریش) طریقے سے چلائیں تو منزل مقصود پر پہنچتے ہوئے آپ صرف ایک دومنٹ ہی پہلے پہنچ پائیں گے۔ ہمارے ملک میں کم سے کم وقت میں منزل تک پہنچنے کی دوڑ شروع ہی سے لگی ہوئی ہے۔ یہ دوڑ سڑکوں سے لے کر اقتدار کے ایوانوں تک دکھائی دیتی ہے۔آئین اورقانون توڑنے کی دوڑ تو اکثر ’’میراتھن‘‘ کی شکل بھی اختیار کرتی رہی ۔ مجھے گجرانوالہ سے لاہورآباد ہوئے لگ بھگ 20سال ہوگئے ہیں ٗ اس عرصہ میں لاہور اوربھی ہائی ٹیک ہوگیاہے ۔خادم اعلیٰ نے اس شہر پر ترقیاتی فنڈز کی کئی برساتیں کی ہیں‘ جن سے لاہور کی سڑکیں لندن ،پیرس اورنیویارک کا نقشہ پیش کررہی ہیںلیکن ان پر بکھری ہوئی بے ترتیب ٹریفک دیکھ کر زمانۂ جاہلیت کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔خادم اعلیٰ صاحب کو چاہیے کہ انہوں نے جس طرح شادی بیاہ کے موقعہ پر ون ڈش اوررات دس بجے بتیاں آف کرنے کی ’’عادت‘‘ ڈالی ہے اسی طرح لوگوں کو ٹریفک قوانین پر عمل کرنے کی ’’عادت‘‘ سے بھی متعارف کرائیں ۔اس ضمن میں لاہور کی معروف شاہراہوں پر سی سی کیمرے لگا کر ٹریفک قوانین کو توڑنے والوں کو جرمانے کئے جاسکتے ہیں۔اس طرح پنجاب حکومت کو ریونیو بھی حاصل ہوگا ، لوگ حادثات سے بھی محفوظ ہوں گے اورپنجابی ٹریفک قوانین پر عمل پیرا ہوکر مہذب بھی کہلائیں گے۔خادم اعلیٰ، وزیراعظم اور سب پاکستانیوں کے لیے یہ اکسیری مشورہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں