"TSC" (space) message & send to 7575

رام لیلا

ہندو تہذیب میں ’’رام لیلا‘‘ اس ناٹک (سٹیج ڈرامہ ) کو کہتے ہیںجس میں رام اورراون میں لڑی گئی جنگ کے آخری 10دنوں کی لمحہ بہ لمحہ رودادبیان کی جاتی ہے۔ ہندوئوں کی مذہبی کتاب ’’رامائن‘‘ میں اس جنگ کا احوال بیان کیاگیاہے۔رامائن کا مطلب رام کی مہمات ہے ٗیہ کتاب ہندوستان کی قدیم زبان سنسکرت میں لکھی گئی جس میں ہندوئوں کے مذہبی دیوتائوں کے رزمیہ قصے کہانیاں بیان کی گئی ہیں۔یوں تو رامائن 500برس قبل ازمسیح لکھی گئی تھی مگر اس میں داستان گوئی اورکہانی بیان کرنے کے لازمی فیکٹر ،جسے آج کے کارپوریٹ میڈیا کے جدید دور میں Storytelling کا نام دیا گیا ہے ، کا نادر نمونہ موجود ہے۔رامائن اور خاص طور پر رام لیلاکو کہانی ، سکرین پلے اورڈائیلاگ کی صورت میں ایک اعلیٰ اورمکمل سکرپٹ قراردیاجاسکتا ہے۔ ہزاروں سال پہلے لکھی گئی ’رام لیلا‘ کو بھگوان رام چندر اورراون کے مابین لڑی جانے والی جنگ کی براہ راست کوریج قرار دیاجاسکتا ہے ۔’’رام لیلا‘‘ کے کتابی ایڈیشن کا مطالعہ کریں تو حیرانی ہوتی ہے کہ اس میں ’’ٹِکر‘‘ کے ساتھ ساتھ باقاعدہ ’’بریکنگ نیوز‘‘ بھی ملتی ہیں۔مثال کے طور پر ’’ٹِکر‘‘ ملا حظہ ہو… راون جب لنکا سے باہر نکلاتو سورج کو جیسے گرہن لگ گیا، اورچرند پرند بدشگونی کا اعلان کرتے ہوئے منحوس آوازیں نکالنے لگے…ایک دوسرا ’’ٹِکر‘‘ بھی ملاحظہ ہو… رام نے منتر پڑھ کر برہم استر پھینکا۔اگرچہ راون کے 10سر پہلے بھی کئی مرتبہ کٹے لیکن وہ دوبارہ اگ آتے تھے۔برہم استر شعلے برساتا ہواراون کی جانب گیا اوراس کے سینے میں پیوست ہوگیا،جہاں اس کے ناقابل ِشکست ہونے کا راز دفن تھا…بریکنگ نیوز کے طور پر یہ خبر ملاحظہ کیجئے…راون کے حرم کی سینکڑوں عورتیں اورمہارانی مندودری ماتم کرتے ہوئے میدان جنگ میں آگئیں جہاں مہارانی نے اپنا سر پیٹتے ہوئے کہا…دیوتائوں کے بادشاہ تمہارے غصے سے ڈرتے تھے،رشی اورگندھروتمہیں دیکھتے ہی بھاگ جاتے تھے پھر تمہیں ایک انسان نے کیسے مار دیا… کبھی کبھی لگتا ہے کہ ہمارے پیارے وطن میںبھی سٹیک ہولڈرز کے درمیان اقتدار کی جنگ لڑی جارہی ہے اورہمارا ذمہ دار محب وطن میڈیا ’’رام لیلا‘‘ سمجھتے ہوئے اس کی کوریج کررہاہے۔ہندوئوں کی ہزاروں سال پرانی رزمیہ داستان اورہماری قومی سیاست کی آج کی ’’رام لیلا‘‘ پاکستانی نیوز انڈسٹری کے لئے بھی ایک ایسی ایکٹی وٹی قرار پاتی ہے جس کی تشہیر سے یہ صنعت دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتی دکھائی دیتی ہے؟ ان دنوں بھارتی ہدایتکار سنجے لیلا بنسالی کی ’’رام لیلا‘‘ کا بھی چرچا کیاجارہاہے جس میںدیپکا پڈوکون اوررن ویر سنگھ ’’فرینڈلی پوز‘‘میں دکھائی دے رہے ہیں۔گذشتہ دنوں آصف علی زرداری کے ایک بیان نے نون لیگ اورپیپلز پارٹی کی سیاسی رام لیلا کو ’’نوراکشتی ‘‘ قرار دیا تھا۔آصف علی زرداری نے کہاتھاکہ میاں نواز شریف اورنون لیگ 5سال حکومت کریں ہم ان کا ساتھ دیں گے۔آصف علی زرداری کے اس بیان کو پی ٹی آئی کے عمران خان، جماعت اسلامی کے منور حسن اورجمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمن نے جمہوریت کے منافی قرار دیا تھا۔عمران خان کے مطابق دونوں سیاسی جماعتوں میں یہ طے پاچکا ہے کہ ’’تم ہمارا خیال رکھو، ہم تمہارا خیال رکھیں گے‘‘۔عین ممکن ہے کہ لو گ عمران خان کے اس بیان کو سنجیدگی سے لیتے ہوں ٗ لیکن سینیٹ کے باہر سینیٹ کا سوئمبر سجا کر پیپلز پارٹی نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ پاکستانی سیاست کی ’’رام لیلا‘‘ میں ان کا کردارمحض فلمی نہیں ہے ٗ بلکہ ڈرامائی ہے ۔ یوں تو پیارے وطن کی ’’رام لیلا‘‘ کے کسی پنے (صفحہ ) پر بھی سکھ ، چین ،امن وامان اورخوشخبری کم ہی جگہ پاتی ہے ٗ مگر طالبان رہنما حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد دھمکی دی گئی ہے کہ…ایسا ہی درد سبھی محسوس کریں گے… اس سے بڑھ کر دھمکی کیاہوگی؟طالبان کھلم کھلادھمکی دے رہے ہیںکہ وہ اپنے ہر ہدف کو نشانہ بنائیںگے۔اس سے قبل بھی ان کے ہاتھوں 55ہزار پاکستانی جاں بحق ہوچکے ہیںجن میں بے گناہ سویلین اورفوجی جوان شامل ہیں۔ یہ کہانی درست نہیںکہ پاکستان کو نائن الیون کے بعد خون ریز کیاگیا۔اس کے خونی سکرپٹ کے مطابق ’’شوٹنگ ‘‘کا باقاعدہ آغاز تو جنرل محمد ضیاء الحق کے زمانہ میںہوا لیکن اس کہانی کے ’’خونی پلاٹ‘‘ کے گرد دائرہ ابتدا سے ہی کھینچ دیاگیاتھا۔قیام پاکستان سے لگ بھگ دوسال قبل مورخہ 6اور 9اگست 1945ء کو امریکہ جاپان کے دوشہروں ہیروشیمااورناگاساکی پر ’’فیٹ مین‘‘ اور’’لٹل بوائے ‘‘ نامی ایٹم بم گرا چکاتھا۔دوسری جنگ عظیم میں یہ حقیقت عیاں ہوچکی تھی کہ امریکہ دشمنی میں کس حد تک خطرناک ہو سکتا ہے لیکن اس کے باوجود امریکہ کی طرف پیار کی پینگیں بڑھائی گئیں ۔ جدید دنیا میں امریکہ کو نظر انداز نہیںکیاجاسکتا تھا مگر ہمیں یہ ضرور چاہیے تھاکہ امریکہ جیسی سپر پاور کے ساتھ ہمارے تعلقات قومی مفادات کے سفارتی دائرہ کار اورسنجیدہ نوعیت کے ہوتے۔ہم نے آزادی کے پہلے دن سے ہی امریکہ بہادر کے سامنے فوجی اورمالی امداد حاصل کرنے کے لئے ’’فل سائزکشکول‘‘ پھیلایا…یعنی جو کچھ بھی ہے سب محبت کا پھیلائو ہے…محبت میں پھیلائو کے یہ سدابہار سلسلے لیاقت علی خان مرحوم سے لے کر میاں محمد نوازشریف تک جاری وساری ہیں۔ میاں نواز شریف صاحب کے دورۂ امریکہ کو زبردست طریقے سے تنقید کا نشانہ بنایاجارہاہے۔الزام لگایاجارہاہے کہ میاں نوازشریف نے امریکہ کے ساتھ ڈیل کے تحت طالبان کے امیر حکیم اللہ محسود کو مبینہ طور پر دھوکہ دہی سے مذاکرات پر آمادہ کیا۔ حکومت کی دعوت پر حکیم اللہ محسود مذاکرات کرنے کی غرض سے جب اپنی پناہ گاہ سے باہر آیا تو امریکہ نے ڈرون حملے کے ذریعے اسے قتل کردیا۔ہمارے ہاں ایک عرصہ سے امریکہ اور افواج پاکستان کی طالبان کے ساتھ جنگ کرنے پر کوئی تضاد نہیں پایاجاتامگر بعض سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے رہنمائوں کی ذاتی آراء کے مطابق ہم یہ جنگ اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف لڑرہے ہیں ۔ اس کا اظہار یوں بھی سامنے آیا کہ جماعت اسلامی کے امیر منور حسن نے حکیم اللہ محسو د کو شہید قراردے دیا۔مولانا فضل الرحمن نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگرامریکی حملے میں کوئی کتا بھی ماراگیا تو ان کے نزدیک وہ ’’شہید‘‘ ہوگا۔منور حسن صاحب تو اپنے بیان پر قائم ودائم ہیںلیکن مولانا فضل ا لرحمن نے ایک روایتی سیانے سیاستدان کی طرح اپنے فرمان میںترمیم کرلی ہے۔مولانا نے اپنے ٹی وی انٹرویو میں کہاکہ انہوں نے امریکہ سے جنگ لڑتے ہوئے کتے کے مارے جانے اوراسے ’’شہید‘‘ قراردینے کی بات محاورتاََ کہی تھی۔پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر نے جماعت اسلامی کے امیر کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہاہے کہ…منور حسن نے سپاہیوں اورہزاروں شہیدوں کی توہین کی …ریاستی ادارے نے اپنے بیان میں وضاحت سے کہاہے کہ فوج نے دہشت گردی کے خلاف جانیں قربان کرنے والے شہداکے لواحقین اورپاکستانی عوام نے امیر جماعت اسلامی سے غیر مشروط معافی کا مطالبہ کیاہے۔امیر جماعت اسلامی نے نئی منطق ایجاد کرنے کی کوشش کی،ہمارے شہداء کی قربانیوں کو منور حسن کی تصدیق کی ضرورت نہیں ہے۔جماعت اسلامی اس معاملے پر اپنا پارٹی موقف واضح کرے۔ امیر جماعت اسلامی منور حسن تو اپنے بیان پر ڈٹے ہوئے ہیںمگر ان کے رفیق فرید احمد پراچہ نے وضاحت فرمائی ہے کہ حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دینا امیر جماعت اسلامی کی ذاتی رائے ہے۔پراچہ صاحب نے ایک ٹاک شو میں یہ بھی فرمایاہے کہ جماعت اسلامی کو تو افواج پاکستان کی’’ بی ٹیم‘‘ بھی کہاجاتارہاہے اوردونوں میں ہمیشہ نظریاتی ہم آہنگی رہی ہے…فلموں میں ہاف ٹائم کے بعد کہانی اکثر ٹوئسٹ لے لیاکرتی ہے ،کرداروںکی نفسیات اورجزئیات میں تبدیلی کے ساتھ کہانی اورسکرین پلے بھی بدل جایاکرتے ہیں…’’رام لیلا‘‘ جاری ہے…باقی کل پڑھیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں