"TSC" (space) message & send to 7575

بیگمات بمقابلہ مہنگائی

اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صدیق کی توجہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی طرف دلائی ہے۔ شاہ جی نے سپیکر صاحب سے کہاہے کہ ملک میں مہنگائی اب دنوں میں نہیں بلکہ گھنٹوں اورمنٹوں میں بڑھتی ہے جبکہ تنخواہ وہیں کی وہیں کھڑی ہے‘ تنخواہ بڑھتی نہیںاوربیوی نے گھر کا خرچہ بڑھانے کامطالبہ کردیا ہے۔ اپوزیشن کا کام حکومت کی توجہ عوامی مسائل کی طرف مبذول کرانا ہوتا ہے۔ قبلہ شاہ جی نے اپنا فرض نبھاتے ہوئے گیند حکومت کے کورٹ میں پھینک دیا ہے۔براہ کرم یہاں ’’کورٹ‘‘ سے مراد عدالت نہیں بلکہ ’’ حکومتی احاطۂ کھیل کود ‘‘ ہے۔ شاہ جی نے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے ملک میں پائے جانے والے باقی ماندہ شوہروں کو بھی ’’غالبانہ انداز‘‘ سے نکتہ سرائی کی دعوت دی ہے: ادائے خاص سے غالب ہوا ہے نکتہ سرا صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے اس ضمن میں سائنسی انداز سے کوئی سروے تو نہیں کرایا گیا مگر یقین ہے کہ شوہر‘ ملک کا سب سے مظلوم طبقہ ہوگا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ملک میںشوہر اکثریت میں ہیں یااقلیت میں؟ اس ضمن میں بھی کوئی سروے اور گیلپ منظر عام پر نہیںلایاگیامگر بیویوں کے مقابلہ میں شوہر اس ملک کی اقلیت ہی ہیں۔اس کی سادا وجہ ملک میں شوہروں کی سادا اکثریت ہے جبکہ بیویاں دوتہائی ہیں۔اس مفروضے کو اور سادا الفا ظ میں یوں بیان کروں گا کہ ہمارے قریب کے عزیر واقارب اوردوردراز کے رشتہ داروں میں ایسے شوہر کثرت سے پائے جاتے ہیںجن کی بیویوں کی تعداد دو سے تین ہے‘ اوروہ شادی کے چوتھے ترقیاتی منصوبے پر بھی کام کررہے ہیں۔’’ترقیاتی منصوبے‘‘ سے آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ باجے کہاں بجنے والے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ جی سے ہمیں گلہ ہے کہ انہوں نے شوہروں کے مسائل تو بیان کردئیے ہیںمگر کنواروں کے مسائل کی نے نوائی نہیں کی۔اس سے قبل کہ اس ملک کے کنوارے اوربعدازاں رنڈوے بھی دھرنے دیں اورریلیاں نکالیں‘ حکومت کو اس اقلیت کی بھلائی کے منصوبے شروع کرنے چاہئیں۔ ویسے وطن عزیز میں اقلیتوں کے حقوق کا خیال پہلے سے ہی نہیںرکھاجارہا۔اس امتیازی سلوک کا فلمی دستاویزی ثبوت نصف صدی قبل بڑے ظریف نے فراہم کردیا تھا۔ ظریف کا اصل نام محمد صدیق اورتخلص ظریف تھا۔مرحوم اپنے زمانے کے سپرسٹار کامیڈین تھے‘ شہنشاہ ِظرافت کا اعزاز پانے والے منور ظریف ان کے چھوٹے بھائی تھے۔ظریف نے لگ بھگ 50سال پہلے کنواروں سے امتیازی سلوک کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے یہ احتجاجی گیت گایاتھا: رناں والیاں دے پکن پروٹھے تے چھڑیاں دی اگ نہ بلے ہائے ربا ہو ساڈی اگ نہ بلے، ساڈا دیوا نہ بلے اس احتجاجی گیت کو اردو میں یوں ڈب کیاجاسکتا ہے کہ…بیویوں والوں کے تو یہاں پراٹھے پک رہے ہیں‘لیکن کنواروں کے چولہے کی آگ تو درکنار‘ ان کا دیابھی روشن نہیں ہورہا…! سیاست میں ایسے صاحبان بھی پائے جاتے ہیںجن کی بیویاں ان سے ان کی ’’کم کم‘‘ تنخواہ کے حوالے سے بازپرس نہیںکرتیں۔یہ خوش نصیب کون ہیں‘ کیاوہ جملہ بیگمات اپنے شوہروں کی مالی حیثیت دیکھ کر شاپنگ کے پائوں پھیلاتی ہیں؟… جی نہیں… پیپلز پارٹی کے جہانگیر بد ر کا کہنا ہے کہ شوہر ونڈو شاپنگ کرتے ہیںجبکہ بیویاں کھڑکی توڑ شاپنگ کرنے کی قائل۔ جہانگیر بد ر سے کسی نے پوچھاکہ بیوی ناراض ہوجائے تو کیاکرتے ہیں؟منت سماجت کرتے ہیں‘ تقریر کرتے ہیں‘ ریلی نکالتے ہیں یادھرنا دیتے ہیں؟جہانگیر بدر نے جواب دیامیں نے کبھی اپنی بیوی کو ناراض ہی نہیںہونے دیا ۔میں نے زندگی میں جہاں بہت کچھ سیکھا ہے وہاں یہ بھی سیکھا ہے کہ اگر آپ نے اپناگھر بار صحیح رکھنا ہے تو بیوی کی چاپلوسی کریں۔ممکن ہے کہ یہ فارمولا بدر صاحب کے گھریلو معاملات میں اکسیر ثابت ہواہو‘لیکن ان کا یہ فارمولا سیاسی امور میں کارگر ثابت نہیں ہوا۔ اس کاثبوت یہ ہے کہ ان سے پیپلز پارٹی کی سیکرٹری شپ چھین لی گئی ہے۔ دنیا میں سیاسی قیدی ہونا اعزاز اورفخر کی بات سمجھی جاتی ہے‘ مگر تیسری دنیا میں پائے جانے والے سیاسی رہنمائوں پر سیاست کرنے سے زیادہ دولت سمیٹنے کے مقدمات قائم ہوتے ہیں۔ہمارے ہاں اس وقت سیاست کے مین سٹریم کے 90فیصد ’’سٹارز‘‘ ایک ہی پروڈکشن ہائوس کے متعارف کرائے ہوئے ہیں۔جہانگیر بد ر کی طرح سیاست میں سارے شادی یافتہ نہیں ہوتے سیاست میں سزایافتہ بھی ہوتے ہیں۔بلکہ اگر یوں کہاجائے کہ سیاست میں سزایافتہ ہونا میرٹ ہوتا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ سیاسی قیدیوں کو اہل صحافت ’’مرد حر‘‘ کا خطاب بھی دیا کرتے ہیں۔ سیاستدانوں میں جو سہولت قبلہ شیخ رشید کو حاصل ہے وہ دوسرے کسی کو بھی نہیںہے۔شیخ صاحب چونکہ کنوارے ہیں اس لئے انہیں بیوی کی طرف سے تنخواہ میں کمی کے مطالبے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ہمارے بعض سیاسی ہیروزرنڈوے بھی ہیں۔ان میں کچھ ایسے ہیں جن کی بیویاں انہیں چھوڑ گئی ہیں ۔وجہ تنازعہ تنخواہ کی کمی تھی یا کچھ اور اس سلسلہ میں بھی کوئی سروے منظر عام پر نہیں آیا۔ سید ضمیرجعفری نے ایک رنڈوے کے خیالات زریں کا نقشہ کھینچا تھا جو اپنی بیوی کے ’’قضائے الٰہی سے وفات پانے ‘‘ کے بعد بہت آرام میں تھا: میری بیوی قبر میں لیٹی ہے جس ہنگام سے وہ بھی ہے آرام سے اورمیں بھی ہوں آرام سے کس طرح گزران ہوگی اب ’’سپر اقوام ‘‘ سے مانگتی ہیں دام بھی وہ ’’بندہ بے دام ‘‘ سے گھوڑے نکلے‘ اونٹ نکلے‘ موٹریں نکلیں‘ مگر ایک بھی عالم نہ نکلا عالم اسلام سے پھر وہ ’’جنرل الیکشن ‘‘ میں بھی ہوگا کامیاب وہ جو ہے معروف ’’گل گھوٹو‘‘ کے عرف عام سے جیسے سچ کچھ بھی نہیں‘ جیسے خدا کوئی نہیں کس قدر امیدیں وابستہ ہیں ’’انکل سام‘‘ سے دین تو بچتا نظر آتا نہیں نیویارک میں زلفِ جاناں ہی بچا لے جائیے حجام سے لگتا ہے نون لیگ کے رہنمائوںکی بیگمات ان سے تنخواہ بڑھانے کا مطالبہ نہیں کرتیں اس لئے تو مہنگائی بڑھتی جارہی ہے۔نون لیگ کی حکومت میں مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ اس میں آلو اورسیب ایک بھائو فروخت ہورہے ہیں۔بیگم یا بیگمات کی طرف سے تنخواہ بڑھانے کے مطالبے کے حوالے سے شہنشاہِ غزل مہدی حسن نے اپنے معتقد گلوکار فدا حسین کو سوالاکھ روپے کا مشورہ دیا تھاجو ہم سب کے لئے اکسیر ثابت ہوسکتا ہے۔ گلوکار فداحسین بتاتے ہیںکہ بہت سال پہلے وہ شہنشاہ غزل مہدی حسن کے ساتھ ’’رت جگا‘‘ کرنے میں مصروف تھے۔فدا حسین نے موسیقی کے بحربیکراں سے عرض کیا کہ… اے شہنشاہ غزل! آج مجھے موسیقی کا کوئی راز،کوئی اسرار اورکوئی نسخہ عطا کیجئے… ’’رت جگے‘‘ کے باعث محفل پھسل کر کہیں سے کہیں نکل جاتی رہی بالآخر بڑے اصرار پر شہنشاہ غزل نے اپنے مداح فداحسین کو اکسیری مشورہ دیتے ہوئے کہاتھاکہ… فدا حسین! تم میرے بیٹے بھی ہو اور شاگرد بھی‘ آج تمہیں ایسی بات بتارہاہوں جس پر عمل کرکے تم اپنے دکھوں اورمسائل کے سامنے ناقابل تسخیر ہوجائوگے۔ شہنشاہ غزل گویا ہوئے… بیٹا! کبھی دوسری شادی نہ کرنا… تم دنیا میں موسیقی کے سمندر میاں تان سین سے بھی زیادہ سکھی رہوگے…لگتا ہے حکومت بھی مہنگائی میں کمی کرنے کے بجائے عوامی شوہروں کو مشورہ دے گی کہ وہ صرف ایک بیگم پر اکتفا کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں