"TSC" (space) message & send to 7575

بھٹکیں گے کہاں کہاں یہ راہی؟

آج صبح اٹھا تو حسب معمول مس کالز اورای میلز چیک کرنے لگا ۔ان میں کچھ پیغامات تو ہمدرد قسم کی میڈیسن کمپنیوں کے تھے جو بیماری دور کرنے کی بجائے عارضہ بڑھا دینے والی ادویات بیچتی ہیں۔ اٹھنے کے فوراََ بعد میں ایسی میلز کو ڈیلیٹ کرتاہوں لہٰذا آج بھی بسم اللہ اسی سے کی۔ باقی ای میلز ''فٹ پاتھ ‘‘ پڑھنے والوں نے بھیجی تھیں جن میں 18دسمبر 2013ء کو شائع ہونے والے کالم''بلاول اورحمزہ کی بسنت ‘‘ کے حوالے سے نیگیٹو اورپازٹیو فیڈ بیک دیا گیاتھا۔آسٹریلیا سے حامد رضا نے لکھا تھاکہ وہ میرا کالم گزشتہ آٹھ سال سے پڑھ رہے ہیں‘ ان سالوں میں‘ میں نے یہ بات کئی بار لکھی ہے کہ بھٹو صاحب کو قومی اوربین الاقوامی سازش کے تحت جرنیلوں اورججوں کے گٹھ جوڑ سے قتل کیاگیا۔اس کے لئے ہمارے مذہبی اورسیاسی رہنمائوں نے امریکی سپانسر شپ سے ایک تحریک بھی چلائی تھی۔حامد رضا نے لکھا ہے کہ میں اس ٹریجک سٹوری کو بیان کرتے ہوئے اہلِ صحافت کا کردار گول کرجاتاہوں حالانکہ بھٹو صاحب کا عدالتی قتل کرانے میں دائیںبازوںکی صحافت اور صحافیوں نے کلیدی کردار ادا کیاتھا۔
رسالپور سے جہانگیر اکرام نے میرے ایک پرانے کالم کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ... آپ نے لکھا تھاکہ بھٹو اوردوسرے سیاسی رہنماوں میں فرق یہ تھاکہ بھٹو کے جونیئرز اور سنیئرز ساتھیوں میں ڈاکٹر مبشر حسن، جے اے رحیم، شیخ محمد رشید (بابائے سوشلزم) ملک اسلم حیات ایڈووکیٹ، ملک حامد سرفراز اور خورشید حسن میر ،معراج محمد خان اورحنیف رامے سمیت دوسرے شاہ دماغ شامل تھے۔بھٹو صاحب کواپنا لیڈر ماننے والوں میں حنیف رامے جیسے ذہین اورپڑھے لکھے سیاستدان بھی شامل تھے۔ حنیف رامے ایک ادیب ،مورخ،مصور ،مقرر اور عظیم صحافی بھی تھے۔جہانگیر اکرام نے مجھے یاد کرایا کہ میں نے لکھا تھا کہ بھٹو صاحب کے سیاسی مریدین میں حنیف رامے جیسے عظیم صحافی بھی شامل تھے جبکہ دوسری طرف صحافی حضرات ہمارے بعض سیاسی قائدین کے Mentor(معلم یا گرو) ہوتے ہیں۔ آپ نے لکھا تھا کہ ہمارے بعض صحافی سیاسی قائدین کے بچوں کی باقاعدہ تعلیم وتربیت کرتے ہیں‘ انہیں سیاسی ٹیوشن دیتے ہیں۔ سیاستدانوں کے بچوں کو سکھایا جاتا ہے کہ انہوں نے میڈیا کا سامنا کس طرح سے کرنا ہے؟انہیں قومی اوربین الاقوامی سیاست سمجھنے کے لئے کونسا ''گیس پیپر ‘‘پڑھنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ اپنے ایسے پیٹی بندوں کے لئے آپ نے ''ایجوکیٹرز‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی۔آپ سے سوال ہے کہ کیابلاول بھٹو کی تقریر سن کر آپ کو لگاکہ حکمرانی کرنے کیلئے ایک اوربھٹو ریڈی کیاجارہاہے؟
محترم جہانگیر اکرام صاحب !آپ کے سوال کا جواب (نہیں) ہے۔آپ نے میرے پرانے کالم کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے سوال کا جواب بھی میری تحریر سے درج کردیا ہے۔میں نے جولکھا اور آپ نے جسے نقل کیا وہ یہی بات ہے کہ '' بھٹوز کے نظریات اوردانش ادھار کے مانگے تانگے نہیںہوتے ‘‘۔خود اپنی نظرمیں ‘میں اپنے آپ کو بھٹو خاندان کا کوئی سیاسی متولی یا جہانگیری جیالا نہیں سمجھتا اورنہ ہی میں مورثی سیاست کے فضائل بیان کرنے والاکوئی قصیدہ گو ہوں۔حکمرانی اوراقتدار کے اس گھن چکر میں چار بھٹوز گڑھی خدا بخش کی مٹی تلے ابدی نیند سو رہے ہیں۔دولت، شہرت ،اختیار اوراقتدار کو انجوائے کرنے کیلئے زندہ رہنا لازمی شرط ہے۔ جیل میں پھانسی کی کوٹھڑی سے لکھی بھٹو صاحب کی کتابIf I Am Assassinated(اگر مجھے قتل کردیا گیا) کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ہم نے قیادت، علم ،دانش اور حب الوطنی کے خزانے کو کھویاہے۔مذکورہ کتاب پڑھیں توانسان ششدر رہ جاتا ہے کہ کوئی شخص موت کی کوٹھڑی سے ایسی بڑی کتاب کیسے تخلیق کرسکتا ہے۔کتاب میں بھٹو صاحب نے اپنا مقدمہ لڑتے ہوئے دنیا بھر کی سیاست، معاشرت، معیشت، ثقافتوں سمیت قوموں کے عروج وزوال کے بیش بہا دریاوں کو If I Am Assassinated کے کوزے میں بند کردیا ہے۔ 
کراچی سے عامر جاوید نے کرنٹ افیئر اورملک کے حالات کے حوالے سے سوال کیاہے کہ حکومت اورفوج کا قومی سلامتی کے اقدامات پر ایک بار پھر اتفاق ہوگیااب کیاہوگا؟ فوج اورحکومت تو ایک عرصہ سے عوام کی سکیورٹی اوردہشت گردی کے خلاف اتفاق کرچکے ہیںلیکن دہشت گرد نہتے اوربے گناہ عوام کواپنے ظلم کا نشانہ بنارہے ہیں۔عامر نے پوچھا ہے کہ میرا موقف کیاہے؟ شکیب جلالی نے کہاتھاکہ :
جب کبھی بڑھ گیا ہے خوف و ہراس 
ایک مرکز پہ آ گئے ہیں حواس
وفاقی کابینہ کی کمیٹی برائے قومی سلامتی نے تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کو ترجیح قراردیا ہے اورافغان سرحد پر مزید سکیورٹی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔اجلاس میں یہ فیصلہ کیاگیاہے کہ اے پی سی کے فیصلہ کے مطابق تحریک طالبان پاکستان کے مختلف گروپوں سے مذاکرات کی حکمت عملی جاری رکھی جائے گی اوردوسرے آپشنز آخری حربے کے طور پر استعمال کئے جائیں گے۔ یہ فیصلہ وزیر اعظم نوازشریف کی زیر صدارت کیاگیا جہاں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے پہلی بار کمیٹی برائے قومی سلامتی اجلاس میں شرکت کی ۔چیف صاحب کے علاوہ اجلاس میںچیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل راشد محمود ،ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام ،ڈی جی ملٹری آپریشنز، پاک بحریہ کے سربراہ ایڈمرل آصف سندھیلا،پاک فضائیہ کے سربراہ چیف مارشل طاہر رفیق بٹ ،وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سمیت دیگر حکومتی اراکین نے اکٹھے ہوکرقومی سلامتی کے اقدامات پرا تفاق کیاہے۔ اجلاس میں تین کلیدی نکات پر غور کیاگیاجن میں پاکستان کے قومی مفادات کے تحفظ کیلئے قومی حکمت عملی کی تشکیل ،اندورنی سلامتی کی حکمت عملی اورافغانستان سے تعلقات شامل ہیں۔کمیٹی نے اس بات پر اتفاق کیاکہ پاکستان کے عوام کی معاشی ترقی اورخوشحالی کا انحصار ملک کی سلامتی و استحکام کو یقینی بنانے پر ہے ۔
ہم سب جانتے ہیںکہ ( عوام کی معاشی ترقی اور خوشحالی) یہ وہی ایجنڈا ہے جس کے لئے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن کی ضرورت محسوس کی گئی تھی ۔وگرنہ آج بھی پاکستان سے زیادہ مسلمان بھارت میں مقیم ہیں جن کی تعداد 30سے 35کروڑ بیان کی جاتی ہے۔وزیر اعظم میاں نوازشریف نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں یقین دلایا ہے کہ ملکی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے دفاعی اداروں اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کو ضروری وسائل فراہم کئے جائیںگے ۔یہ بھی طے پایاکہ بھارت سے سیز فائر کے معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنایاجائے گا۔ملکی دفاع ،قومی مفادات اورعوام کی خوشحالی یہ وہ بنیادی نکات ہیں جن پر ہماری ریاست اورسیاست کی عالی شان عمارت تعمیر کی گئی جو وقت کے ساتھ ساتھ کھنڈر بنتی گئی ۔ہمیں ایک طویل عرصہ سے دہشت گردی کاسامنا ہے اورہم حالت جنگ میں ہیں۔جہاں تک ملکی دفاع کو مضبوط اورمستحکم بنانے کی پالیسی کا تعلق ہے تو بھٹو نے ایٹم بم بنانے کا آغاز کیاتھا اور جنرل ضیاالحق نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایاتھا۔ملکی دفاع کو مضبوط بنانے اور اسلحہ بڑھانے کی میراتھن ترک کرکے ہمیں بھارت سمیت اپنے سب ہمسایوںسے دوستی ،بھائی چارے اوراعتماد سازی کی فضا بحال کرنا چاہیے۔بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد ہم نے چاغی کے مقام پر جب ایٹمی دھماکے کئے تھے تو کہاگیا تھاکہ ''پاکستان ناقابل تسخیر ہوگیا ہے‘‘ لیکن دشمن نے جنگ کا انداز بدل دیا۔اب جنگ سرحدوں اور بارڈروں پر نہیں گلی گلی اوربازار بازار ہورہی ہے۔معاشی اورثقافتی جنگیں بھی لڑی جارہی ہیں یہ اور اس قسم کی دوسری جنگیں‘ جنگی جرائم میں شمار بھی نہیں کی جاتیں۔ ہمیں دفاع سے زیادہ صلح کی پالیسی اپنانا چا ہیے ۔ کیونکہ ان جنگوں کے سٹیک ہولڈرز خطے میں بسنے والے کروڑوں انسان ہیں: 
اے راہبرو! ذرا تو سوچو
بھٹکیں گے کہاں کہاں یہ راہی

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں