"TSC" (space) message & send to 7575

اللہ وسائی سے نورجہاں تک…(1)

21ستمبر 1926ء کی رات تھی۔قصور کے بازاروں میں میونسپل کمیٹی کے سرکاری گیس جگمگا رہے تھے۔لیکن بازار سے جڑی گلیوں میں اندھیرا تھا۔یہ وہ دور تھا جب قصور جیسے شہر میں سماجی زندگی نہ ہونے کے برابر تھی۔ لو گ سرشام ہی گھروں میں دبک جایاکرتے تھے۔ اس رات قصور کے محلہ کوٹ مرادخاں کے چھوٹے سے گھر میں ایک بچی پیدا ہوئی جس کا نام اللہ وسائی رکھا گیا۔غریب گھرانے کی اس بچی کو پہلے بے بی نورجہاں پھر نورجہاں اوربعد میں پوری دنیا نے ملکہ ترنم نورجہاں کے نام سے جانا۔ملکہ ترنم نورجہاں نے اپنے کروڑوں چاہنے والوں کے دلوں پر حکومت کی ۔ملکہ اپنی طبعی زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہوگئیں مگر موسیقی کے جہان پر ان کی حکومت آج بھی قائم ہے ۔
ملکہ ترنم نورجہاں کی زندگی الف لیلوی قصے کہانیوں اور ہزار داستان سے بھی زیادہ دلچسپ داستان ہے ۔مگر یہ بھی سچ ہے کہ نورجہاں کی زندگی کوئی من گھڑت قصہ کہانی نہیں بلکہ جہدمسلسل کی ایک ایسی تصویر ہے جس کا ہر رنگ محنت اورریاضت کا امین ہے۔ نورجہاں کی بھرپور زندگی کی ضخیم اوردلکش کتاب کے کسی ورق پر بھی نگاہ ڈالیں تو وہ ہزارداستان ہی دکھائی دیتا ہے۔ نورجہاں پیدائشی فنکارہ تھیں ۔بیان کیاجاتا ہے کہ نورجہاں کا پیدائش کے فوراً بعد رونا بھی ُسر اورتال میں تھا۔اس وقت نورجہاں کی پھوپی الٰہی جان نے‘ جو اپنے علاقے کی گلوکارہ تھیں‘ ہنستے ہوئے اپنے بھائی (نورجہاں کے والد) کو مبارک دی... بھائیا !مبارک ہووے کڑی تے روندی وی سر وچ اے ،رب مہر کرے ایہہ ساڈا ناں روشن کرے گی (بھائی ! مبارک ہو لڑکی تو روتی بھی ُسر میں ہے رب مہربانی کرے یہ ہمارا نام روشن کرے گی ) نورجہاں قصور میں پیدا ہوئیں اس کے بعد لاہور گئیں۔ لاہور سے وہ کلکتہ ،ممبئی اور قیام پاکستان کے وقت کراچی شفٹ ہوئیں۔ پاکستان میں نورجہاں نے پلے بیک سنگنگ کی ایک لمبی اننگ کھیلی اورملکہ ترنم نورجہاں کہلائیں۔نورجہاں ستمبر 1947ء میں ممبئی سے کراچی منتقل ہوئیںجہاں انہیں گارڈن ایسٹ میں بنگلہ الاٹ ہوگیا۔ انڈیا سے کراچی پہنچنے پر نورجہاں اور ان کے شوہر سید شوکت حسین رضوی نے اپنی فلم ''جگنو‘‘ کی نمائش کا اہتمام کیا جس کی اس سے قبل پاکستان میں شامل صوبوں اورعلاقوں میں نمائش نہیں ہوسکی تھی۔ملکہ ترنم نورجہاں اپنے شوہر اوربڑے بیٹے اکبر حسین رضوی کے ساتھ بھارت کوچھوڑ کر پاکستان چلی آئیں۔حالانکہ انہیں وہاں اپنے فنکارانہ اظہار اورترقی کے زبردست مواقع میسر تھے۔نورجہاں اوران کے شوہر شوکت حسین رضوی سمیت ان کے ساتھیوں نے ایک شکستہ، ٹوٹی پھوٹی اورنامکمل فلم انڈسٹری کو دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑے کرنے کے لئے ایک طویل جدوجہدکی اور بآلاخر انہیں کامیابی ہوئی۔ 
1960ء میں نورجہاں نے اعلان کیاکہ فلم ''غالب ‘‘ کے بعد وہ اداکاری ترک کر کے صرف گایاکریں گی۔ اس سے قبل نورجہاں نے لگ بھگ 25 سال تک گلوکاری اوراداکاری کے جوہر دکھاکر یہ ثابت کردیاتھاکہ وہ اپنے دور کی میگاسٹار ہیں۔ ان 25برسوں میں نورجہاں کی زندگی کا وہ عرصہ بھی شامل ہے جب وہ کم سن تھیں اور تھیٹر سمیت فلموں میں ''بے بی نورجہاں ‘‘ کے نام سے کام کررہی تھیں۔ دراصل نورجہاں سلور سکرین کی پہلی سٹار تھیں جنہوں نے برصغیر میں سٹاراورسٹارڈم کا رواج ڈالا۔ نورجہاں نے اپنے کیرئیر کا آغاز بہت چھوٹی عمر میں لاہور کے ''ٹکاتھیٹروں ‘‘ سے کیاتھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر کے لوگ سینما متعارف ہونے کے بعد بھی نوٹنکی اورتھیٹرکی طرح فنکاروں کی براہ راست پرفارمنس سے بھی محظوظ ہوتے تھے۔ لاہور کے سینمائوں میں (ہاف ٹائم) کے بعدفلم کے باقا عدہ دوبارہ شروع ہونے سے قبل کم سن اللہ وسائی اپنی بڑی بہن عیدن اورحیدر باندی کے ساتھ سماں باندھ دیا کرتی تھیں۔ 
نورجہاںجن کانام اس وقت اللہ وسائی تھا‘ تیس کی دہائی کے آغاز میں اپنی بڑی بہن عیدن اورکزن حیدر باندی کے ہمراہ قصور سے لاہور آئیں۔ لاہور جس نے اپنے دامن میں ہزاروں سالوں میں ہندوئوں، یونانیوں، افغانوں، مسلمانوں، سکھوں اور انگریزوں سمیت ان سب ثقافتوں کو اپنے اندر سمویا تھا۔لاہور کے لوگوں اوراس کی مٹی کی تاثیر ہے کہ یہ اپنے ہاں آنے والوں کو پناہ دینے کے ساتھ ساتھ عزت ،دولت اورشہرت بخشتی ہے۔ لاہور شہر نے تینوں فنکار بہنوں کو بھی شرف ِقبولیت بخشا۔ ٹکا تھیٹروں میں 
اللہ وسائی سسٹرز کا نام مشہور ہوا تو ان کے ماسٹر مائنڈ (شفیع) نے یہ چاہا کہ اب اگلاپڑائو کلکتہ میں ہونا چاہیے۔ شفیع،عیدن اوراللہ وسائی کے حقیقی بھائی جبکہ حیدر باندی کے خالہ زاد تھے ۔شفیع ذہین اورتیز طرار بندہ تھا اس لیے اس نے یہ مناسب جانا کہ تینوں بہنوں کے ساتھ لاہور سے کلکتہ پہنچا جائے۔کلکتہ اس وقت برِ صغیر کی فلم انڈسٹری کا گڑھ تھا۔ کلکتہ میں ان دنوں مختار بیگم کا چرچاتھاوہ وہاں کی ٹاپ کلاس ہیروئن بھی تھیں اورسٹیج کی نامور رقاصہ تھیں۔ اللہ وسائی (نورجہاں ) اور ان کی دونوں بڑی بہنیں مختار بیگم سے بے حد متاثر تھیں۔ تینوں بہنوں اورشفیع کے کلکتہ پہنچنے کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔اس زمانے میں ممبئی اورکلکتہ دومشہور بندرگاہیں تھیں جہاں دنیا بھر کے لوگ آتے جاتے تھے۔کلکتہ کے سٹیشن کا ماحول اچھا نہ تھا وہاں ایسے افراد کی بھرمار تھی جو لوگوں کو گھیر کر بازار حسن لے جایا کرتے۔یہ پیشہ ور گھروں سے بھاگے ہوئے لڑکوں اورلڑکیوں کی تلاش میں رہتے اور انہیں بازار حسن لے جاتے جسے ''بہوبازار‘‘ کہاجاتاتھا۔کلکتہ پہنچنے کے کچھ دن بعد شفیع اپنی بہنوں کو مختار بیگم کے پاس لیجانے میں کامیاب ہوگیا۔ 
مختار بیگم جو خود بہت بڑی مغنیہ اوررقاصہ تھیں انہیں عیدن اورحیدر باندی اپنے گانے بجانے سے زیادہ متاثر نہیں کرسکیں لیکن ننھی اللہ وسائی نے اپنے وقت کی عظیم گائیکہ کے دل میں اپنی جگہ بنالی۔اللہ وسائی نے مختار بیگم کا دل جیت لیااور پھر اس نے اپنے شوہر آغا حشر سے جو اپنے عہد کے عظیم استاد اوربڑے فنکار تھے‘ مل کر اللہ وسائی کو نورجہاں کا نام دیا۔ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ مختار بیگم کی سفارش پر جس تھیٹر اورفلم کمپنی میں نورجہاں اوران کی بہنوں کا سٹاف آرٹسٹ رکھاگیا تھا وہاں کے بورڈ آف رائٹرز نے اللہ وسائی کو نورجہاں کا نام دیا تھا۔ آغاحشر اس بورڈ کے ہیڈ تھے لہٰذا اللہ وسائی کونورجہاں کا نام دینے کا کریڈٹ آغا صاحب مرحوم کو جاتا ہے۔ نورجہاں‘ مختار بیگم کو اپنی آئیڈیل مانتی تھیں۔اپنے کیرئیر کے آغاز میں ننھی نورجہاں لاہور کے ٹکاتھیٹروں میں مختار بیگم کے گائے ہوئے گیت گایاکرتی تھیں۔ان گیتوں میں ''بولو تارا،را،را‘‘ اور فلم عالم آرا کے لئے مختار بیگم کا گایا گیت ''دے ،دے خدا کے نام پر بابا‘‘ جیسے گیت شامل رہے۔مختار بیگم کے علاوہ نورجہاں اختری بائی فیض آبادی کی مشہور غزل ''دیوانہ بناناہے تو دیوانہ بنادے‘‘ بھی شوق سے گایا کرتی تھیں۔
مختار بیگم کی سفارش پر ننھی نورجہاں کو سیٹھ سکھ لال کرنانی کی تھیٹر اور فلم کمپنی میں نوکری ملی ۔انہی دنوں مذکورہ کمپنی نے ایک فلم پروڈیوس کی جس کانام ''شیلاعرف پنڈ دی کڑی ‘‘تھا اس میں عیدن، حیدر باندی اورننھی نورجہاں تینوں بہنوں نے کام کیاتھا۔فلم کی ہیروئن کا تعلق لاہور سے تھا جس کانام پشپا رانی رکھا گیااورفلم کے ہیرو کلاسیکی موسیقی کے استاد مبارک علی خان تھے جو فلم کی کاسٹ میں (مبارک) کے نام سے شامل تھے۔اس زمانے میں عموماََ ہیرو اور ہیروئن گانا گانے کی صلاحیت سے بھی مالامال ہوتے اوروہ اداکاری کرتے ہوئے براہ راست گایابھی کرتے تھے۔مذکورہ فلم میں نورجہاں پر ایک گیت فلمبند کیاگیاجو انہوں نے خود گایا تھا اور سازندوں نے درختوں کے پیچھے چھپ کر ساز بجائے تھے... (جاری) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں