"TSC" (space) message & send to 7575

ڈینکا چھیکا

صحافت کے جگت استادوں کا کہنا ہے کہ قومی سیاسی رہنماوں میں مولانا نمبرون ہیں۔ نمبرون کی اصطلاح عام طور پر شوبز میں استعمال کی جاتی ہے جس میں اداکاروں، اداکارائوں، گلوکاروں،گلوکارائوں ، سٹارز اورسپر سٹارز کی باکس آفس پوزیشن اوران کی مقبولیت کے حوالے سے انہیں لیبل کیا جاتاہے۔پاکستان فلم انڈسٹری تو اس وقت انتہائی نگہداشت وارڈ میں زندگی اورموت کی جنگ لڑ رہی ہے لیکن بالی وڈ میںفلم انڈسٹری اپنے کاروباری جوبن پر ہے۔ میڈیائی ماسٹر مائنڈ اگر مولانا کو نمبرون قراردیتے ہیںتو مراد یہ ہے کہ مولانا سیاست اورذہانت میں دوسرے رہنمائوں پر سبقت رکھتے ہیں۔ ڈکشنری اور لغت کے اعتبار سے تو سیاستدان کے معنی اورمفہوم یہی ہیں کہ معاشرے کے وہ لوگ جو سیاست سے وابستہ ہوتے ہیں۔سیاست کا مطلب عوامی خدمت ہے‘ لیکن ہمارے ہاں سیاست کے نام پر دانستہ جو کھیل کھیلا گیا اس سے اس کے معنی اور مفہوم بدل دئیے گئے ہیں۔ بہرحال مولانا فضل الرحمن کے Persona (ظاہری شخصیت)میں وہ سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی جماعت کے سربراہ بھی ہیں۔لہٰذا مولانا کو ان کے اثرورسوخ کے حوالے سے سادہ کے بجائے 'مو لانا پلس‘ قراردیاجاسکتا ہے۔
مولانا نے گزشتہ دنوں اپنے ایک عوامی خطاب میں جینز پہننے والی عورتوں کا تذکرہ کیا۔انہوں نے کہاکہ این جی اوز کی جینز پہننے والی عورتیں صوبہ( کے پی کے ) پر حکمرانی کررہی ہیں۔مولانا کی بات کا مطلب کیا ہے؟ وہ این جی اوز کے خلاف ہیں؟ یا ان عورتوں کے حق میں نہیں جو این اوز سے وابستہ ہیں؟یا پھر وہ جینز پہننے والی این جی اوز سے وابستہ عورتوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں؟مولانا کے ماضی اورسیاست میں ان کی ترجیحات پر نگاہ ڈالیں تو یہ الاسٹک کی طرح اپنی سیاست کو کھینچ کھانچ کر مختلف سائز کا بنانا جانتے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ مولانا کی سیاست کی طرح جینز میں بھی الاسٹک موجود ہوتا ہے اور وہ بھی پہننے والی کی جسمانی ساخت خاص طور پر توند کے مطابق ڈھل جاتی ہے۔
جینزیوں توپاکستانی لباس نہیں لیکن دنیا کی بہترین جینز وطن عزیز میں تیار ہوتی ہے۔پاکستان میں جینز کی آمد ہِپیز کے ساتھ ہوئی۔ ہِپی کلچر 60ء کی دہائی میں مغرب سے اٹھنے والی معاشرتی روایات اور رسم ورواج کے خلاف ایک تحریک تھی جس میں جواں سال لڑکے اورلڑکیاںشامل ہوگئے تھے۔ ہِپی کھل کر اپنے جذبات، خیالات اور پسندیدگی کا اظہار کرتے تھے۔جینز کے علاوہ گٹار، چرس اور دیگر نشہ آور اشیاء ان کا حصہ تھیں۔ ہِپیز موومنٹ میں یورپ سمیت امریکہ ،کینیڈااوردوسرے ممالک کے جواں سال لوگ شامل ہوئے تھے۔ان کی بڑی تعداد 70ء کی دہائی میں بھارت، پاکستان ، سری لنکا،افغانستان، مالدیپ اورنیپال سمیت تیسری دنیا کے دیگر ممالک میں آئی تھی۔مذکورہ ممالک میں آنے کی وجہ نشہ کا سستے داموں دستیاب ہونا اورموسم کا تنوع تھا۔بھارت میں ہپیوں کے کلچر کو آنجہانی فلم میکر دیو آنند نے اپنی فلم ''ہرے راما ہرے کرشنا‘‘ میں موضوع بنایاتھا۔ فلم کی کاسٹ میں دیو آنند، ممتازاورزینت امان شامل تھیں۔ ''ہرے راما ہرے کرشنا‘‘ زینت امان کی Debutفلم تھی۔اس فلم کے موسیقار آرڈی برمن تھے۔ آنند بخشی نے اس کا یہ شاہکار گیت لکھا تھا: 
دم مارودم‘ مٹ جائے غم 
بولو صبح شام‘ ہرے کرشنا ہرے رام
انہوں نے اسے یوں کمپوز کیاتھا کہ یہ جنوبی ایشیا ء سمیت پوری دنیا میں بھارتی ثقافت کا ایک نعرہ بن گیاتھا۔بعدازاں پاکستانی موسیقاروں نے حضرت لعل شہباز قلندرؒ کی شان پر مبنی دھمالیں اوردوسرا صوفیانہ میوزک کمپوز کرکے ''ہرے راما ہرے کرشنا‘‘ کا حساب چکتا کیا تھا۔
جینز پہلے پہل یورپ، اٹلی اور فرانس میں استعمال ہوئی۔ اٹھارویں صدی میں جینز غلاموں کا لباس ہوا کرتی تھی ۔30ء کی دہائی میں ہالی وڈ میں Cowboysسیریز فلموں کے ہیروز کوجینز پہنے دکھایا گیا۔ اس طرح جینز ابتدائی طور پر فیشن میں شامل ہوئی ۔کہتے ہیں کہ جینز درزی اوردھوبی کی دشمن ہوتی ہے ۔مراد یہ کہ ایک بار اسے دھولیں تو چھ ماہ سے پہلے جینزکو دوبارہ دھونا جائز نہیں سمجھا جاتا۔ جینزجتنی میلی ہوتی جاتی ہے اتنی اس کی قدرومنزلت بڑھتی جاتی ہے۔میں نے آج تک کوئی جینز ایسی نہیں دیکھی جو پہننے والے یا والی کی طبعی عمر سے پہلے پھٹی ہویا اس کے بخیے ادھڑے ہوں۔ ہاں اسے زیب تن کرنے والے کے بخیے ادھڑتے ضرور دیکھے ہیں۔ پہننے والا اپنے ہاتھوں پیروں ،چلنے پھرنے اوراٹھنے بیٹھنے سے معذور ہوگیالیکن جینز اجنتا کی مورتوں اوردیگر ثقافتی ورثے کی طرح محفوظ رہی۔ جس طرح جینز ہرموسم کا لباس ہے اسی طرح مولانا فضل الرحمن کی سیاست کو بھی بارہ مہینے زوال نہیں۔ دلیر سنگھ مہدی کا چھوٹابھائی میکا سنگھ اپنا بھی چھوٹا بھائی ہے ،میکا سنگھ کہتا ہے کہ :
بارہ مہینے میں‘ بارہ طریقے سے‘ تجھ کوپیار جِتائوں گا رے 
ڈینکا چھیکا، ڈینکا چھیکا، ڈینکا چھیکا، ڈینکا چھیکا......
مولانا بارہ مہینوں میں بارہ طریقوں سے اپنی سیاست اور مفادات کا ''ڈینکا چھیکا‘‘ بجاتے ہیں۔ وہ یوں تو اپنی ثقافتی اورمذہبی تربیت کے باعث عورت کی حکمرانی کے خلاف ہیںمگر موصوف نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں اپنے مذہبی اورسیاسی رجحانات میںالاسٹک ازم کا مظاہرہ کرتے ہوئے خوب''ڈینکا چھیکا‘‘ کیا۔ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے مولانا کوپارلیمنٹ میں فارن افیئر کمیٹی کا چیئرمین مقررکیا جس کے بعد آپ ان کے ساتھ کئی مرتبہ سرکاری دوروں پر امریکہ، جاپان اور چین سمیت دیگر متعدد ممالک میں گئے۔مولانا نے امریکہ کے دوروں کے دوران اس وقت کی بل کلنٹن انتظامیہ سے گہرے روابط پیدا کرلئے تھے۔مولانا بھارت بھی کئی بار گئے‘ غالباً محمود غزنوی جتنی بار لیکن مندر ڈھانے نہیں بلکہ محبت ،بھائی چارے اوراعتماد کے سومنات تعمیر کرنے ۔ مولانا کی سیاست اپنے اندر موجود الاسٹے سٹی کے باعث سب کے لئے قابل قبول ہے۔محترمہ بے نظیر ہوں یا میاں محمد نوازشریف، صدرجنرل پرویز مشرف ہوں یا آصف علی زرداری یاایک بارپھر میاں محمد نوازشریف‘ مولانا کی سیاست کا طرہ امتیاز ہے کہ ''وہ کہیں بھی گیا لوٹا تومیرے پاس آیا‘‘۔وزیر اعظم کی چار رکنی کمیٹی بسلسلہ ''امن کو ایک موقع دیناچاہیے‘‘ کی بابت مولانا کی نیم رضا مندی 
شامل ہے۔ میڈیا میں رپورٹ کیاگیا ہے کہ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف قومی اسمبلی میں اپنے خطاب کے بعد عمران خان ،سید خورشید شاہ ،فاروق ستار اورمولانا فضل الرحمن سے فرداً فرداً ملے۔ مولانا ہمیشہ طالبان سے مذاکرات کرنے پرزور دیتے ہیں‘ دیکھیں وہ اس موقع کو کیسے طالبان کے لیے یا پاکستان کے لیے امن اورسلامتی کا ''سنہری موقع‘‘ بنانتے ہیں؟ 
میاں صاحب ہمیشہ سنجیدہ اورافسردہ ماحول میں اپنے لاہوری بالخصوص گوالمنڈی سٹائل کا شگوفہ چھوڑ کر پانسہ پلٹ دیتے ہیں۔ میاں صاحب نے کہاہے کہ ''عمران خان کبھی میرے ساتھ بیٹھ کر تجاویز دیں ‘‘۔وزیر اعظم کی چار رکنی کمیٹی کے بارے میںجواں سال سیاستدان بلاول بھٹو نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں دلچسپ تبصرہ کیاہے۔بلاول نے کہاکہ طالبان سے مذاکرات کرنے طالبان جارہے ہیں۔ کمیٹی کے چار میں سے تین اراکین نے بتایا ہے کہ ان کا نام طالبان سے مذاکرات کرنے والی کمیٹی میں شامل کرنے سے قبل ایک ہی ''ٹرنک کال‘‘ موصول ہوئی تھی۔ بقول وزیر اعظم میاں نوازشریف ہمیں 14سال سے دہشت گردی کا سامنا ہے‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو گزشتہ 35سال سے دہشت گردی کا سامنا ہے۔ 5جولائی 1977ء کو ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت کا دھڑن تختہ کرکے دہشت گردی کا ''میٹر ڈاون ‘‘ کیا گیاتھا۔پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت سمیت نون لیگ کی موجودہ حکومت نے دہشت گردی کے دیرینہ مسئلہ سے نبٹنے کیلئے ہرقسم کی ''آل پارٹیز کانفرنس‘‘ کرانے کے بعد ایک بار پھر چاررکنی کمیٹی بنا دی ہے۔ طالبان نے اگر جمہوریت اوراس کے تحت''غیرشرعی ‘‘انتخابات کے تحت قائم کئی گئی حکومت کے خاتمے کا مطالبہ اور ''ذاتی شریعت‘‘کے نفاذ کا حکم جاری فرمایاتو پھر کیاہوگا؟؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں