"TSC" (space) message & send to 7575

اپسرائوں کاشہر جموں

گلابی نمکین چائے کے ساتھ پراٹھوں کا ناشتہ کبھی بھولا نہیں ہوں۔میں اورمیرابڑا بھائی سکول جانے کیلئے یونیفارم پہن کرتیار ہوتے تو ناشتہ تیار ہوتا۔ہماری دادی عائشہ بیگم نمکین چائے کے ساتھ ولوں والے پراٹھے ہمارے لئے خاص طور پرپکایا کرتی تھیں۔ ناشتے پر جب ہمیں اپنی دادی کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کاموقعہ ملتاتو دادی اُس ''پراٹھا سیشن‘‘ میں اکثر ہمیںاپنے شہر جموں سے متعلق قصے کہانیاں سنایاکرتی تھیں۔دادی نے جموں کا نام کبھی صرف جموں نہیں لیاتھا۔ وہ ہمیشہ ''ساڈا جموں‘‘ (ہماراجموں) کہاکرتیں۔دادی بتاتی تھیں کہ جموں کے مشہور بازار میں ہمارا''تاج ہوٹل ‘‘ ہواکرتاتھاجو ان کے سب سے بڑے بھائی تاج دین کے نام پر تھا۔ہوٹل سے کچھ فاصلے پر محلہ دل پتیاں تھا جہاں ہمارے اور رشہ داروں کے کئی ایک گھر ہواکرتے۔ دادی بتاتی تھیں کہ جموں میں موتیااور گلاب کا پھول ہاتھ برابر ہوتا تھا۔وہ سیب کو 'سیو‘اورناش پاتی کو' ببوگوشہ‘ کہاکرتیں ۔جموں کی بات کرتے ہوئے دریائے توی کو ہمیشہ یاد کیاکرتیں ۔ دادی ہمیں بتاتی تھیں کہ دریائے توی کے کنارے پر چڑیلیں،جن ،بھوت، پریاں اوراپسرائیں اکثر ہمارے بزرگوں کے سامنے آجایاکرتی تھیں۔
میں اورمیرا بھائی طیب سرورمیر اپنے بچپن میں جموں کو ''کوہ قاف‘‘ ہی سمجھتے رہے ۔جہاں پریوں ،اپسرائوںاورجن بھوتوں کے ساتھ انسان قدرے اکثریت میں رہائش پذیر تھے۔ دادی جب ہمیں جنوں ،بھوتوں اورچڑیلوں کے قصے کہانیاں سناتیں توہمارے بچگانہ ذہنوں میں جموں کی اہمیت ''ہیری پوٹر‘‘ جیسی تھی۔لیکن جوں جوں ہم بڑے ہوتے گئے تو ہم نے محسوس کیاکہ ہمارے بزرگوں نے اپنی زندگیوں میں اپنے جموں سے جدائی کا ایک ایسا زخم کھایاتھا جس زخم سے ساری عمر خون ہی رستا رہا۔ دادا، دادی، والدہ اور والد اپنی زندگیوں میں جموں سے محبت کرنے کا وصف ہمیں ورثے میں منتقل کرکے خود گجرانوالہ میں آسودۂ خاک ہوئے۔ گجر انوالہ کے بڑے قبرستان میں میرے دادا کی قبر کے کتبے پر لکھا ہے کہ ''اللہ رکھامیر جموں والے‘‘۔ دادا اکثر کہاکرتے تھے کہ جب ہمارا خاندان جموں سے ہجرت کرکے پاکستان آرہا تھا تو ان کے ایک دوست نے کہاتھاکہ ''آپ جائیں گے ہم یہیں رہیں گے ،آپ واپس آئیں گے ہم نہیں ہوں گے‘‘۔میرے دادا جموںسے ہجرت کرکے سچیت گڑھ کے رستے سیالکوٹ اورپھر گجرانوالہ آبا د ہوئے ۔دادا اور ان کے رشتہ داروں کو کشمیری مہاجر ین کے کلیم کے طور پر گجرانوالہ کے محلہ جاجی پورہ لکڑوالہ پل پر ایک گھر الاٹ ہواتھا۔بعدازاں دادا اپنے بیٹے اورمیرے والد غلام سرور میر اوردیگر اہل خانہ کے ساتھ سیٹیلائٹ ٹاون پونڈاں والہ چوک میں منتقل ہوئے۔میرے دادا جموں سے ہجرت کرنے کے 26 سال اوروالد لگ بھگ 56سال بعدوفات پاگئے لیکن دونوںکو دوبارہ اپنا جموں دیکھنا نصیب نہیںہوا۔
جموں سے محبت کرنا ہمارا ورثہ ہے۔ 1974ء میں جب امرتسر سے بھارتی ٹیلی وژن (دور درشن ) کا آغاز ہواتو ''چترہار‘‘ ہم سب کا مقبول پروگرام ہواکرتاتھا۔دوردرشن سے جب کبھی کسی فلمی گیت میں ہیمامالنی ،سائرہ بانو اورشرمیلاٹیگور کے ساتھ جموں کا دریائے توی دکھائی دیتاتو میرے والد کی آنکھیں بھیگ جایاکرتی تھیں۔ اپنے والد کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر میرے دل میں یہ سوال اٹھتا تھاکہ ہمارے بزرگوں نے کیاگناہ کیاتھاکہ انہیں ان کے گھربار ، شہر، کاروبار اورجائیدادوں سے بے دخل کردیاگیاتھا؟ ہندوستان کی تقسیم جو کہ بھارت اورپاکستان کی شکل میں ہوئی تھی اس کے دونوں اطراف لاکھوں انسان مارے گئے۔یہ سب کیوں ہوا؟ 
1947ء میں ریاست جموں وکشمیر کی آبادی تقربیاً 40لاکھ تھی جس کا 77فیصد حصہ مسلم آبادی پر مشتمل تھا۔ریاست جموں وکشمیر اور مغربی پنجاب میں تاریخی اورجغرافیائی طور پرا یک رشتہ قائم تھا۔ یہاں بسنے والے لوگ یہ سوچتے تھے کہ ریاست کی تقسیم بھی انہی اصولوں کے تحت ہوگی جو ہندوستان کی تقسیم کے دوسرے علاقوں کے لئے بروئے کار لائے جائیں گے، مگر فرنگی اورہندوگٹھ جوڑ نے خطے میں تقسیم کے نام پر ایک گھنائونا ڈرامہ رچایا۔ دستاویزی اورواقعاتی شہادتوں کی بنیادپر یہ ثابت ہوچکاہے کہ ماوئنٹ بیٹن اورپنڈت نہرو کے درمیان جو خفیہ معاہدہ طے پایاتھااس کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ تقسیم اس طرح سے کی جائے کہ بٹالہ اور گوروداسپور کی مسلم اکثریت کی تحصیلیں ہندوستان میں شامل کرلی جائیں اوراس طرح ریاست جموں وکشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کا جغرافیائی جواز پیدا کیاجائے گا۔ ریڈکلف کے تحت ہندوستان کی غیر منصفانہ تقسیم پر مسلمانوں میں غم وغصہ پایا جاتا تھا، مشرقی پنجاب سے لاکھوںمسلمان برباد ہوکر مہاجرین کی شکل میں پاکستان داخل ہورہے تھے اورخود پاکستان میں بھی ہندوئوں اور سکھوں پر حملوں کا سلسلہ ختم نہیںہورہاتھا۔
ہندوستان کے ہی جغرافیائی بطن سے ایک نومولود نظریاتی وطن معرض ِوجود میں آچکاتھا۔حصول پاکستان کے لئے سالہا سال کی سیاسی جدوجہد ،انگریزوں کے بعد ہندوئوں سے ایک طویل سیاسی جنگ کے بعد اگرچہ پاکستان توہمیں مل چکا تھامگر اگست کے بعد ستمبر، اکتوبر،نومبر اوردسمبرتک ہزاروں اپاہج مسلمان ہندوستان سے پاکستان بھیجے جاتے رہے۔قائد اعظم ؒنے کشیدہ صورت حال کو معمول پر لانے کے لئے اپنے مسلمان بھائیوں سے اپیل کی کہ وہ صبروتحمل سے کام لیں۔ قائداعظمؒ کا کہنا تھاکہ یہ ثالثی (ریڈکلف ایوارڈ کے تحت تقسیم ) اگرچہ غیر منصفانہ تقسیم ہے لیکن ہم معاہدے کے تحت اسے قبول کرچکے ہیںلہٰذا اب مسلمانوں کو صبر ،تحمل اوراستقامت کے ساتھ اسے قبول کرلینا چاہیے۔لیکن قائد اعظمؒ کی اس اپیل کے دوچار دن بعد نومبر کے اوائل میں انبالہ کے تقریباً 5ہزار مہاجرین کی ایک سپیشل گاڑی گوجرہ ضلع لائل پور میں پہنچی تومعلوم ہوا کہ ان میں سے 85فیصد پیچش میں مبتلا تھے۔تقریباً2ہزار کی حالت نازک تھی جبکہ تقریباً ایک سو راستے میں ہی جاں بحق ہوگئے تھے۔ایسا اس لیے تھاکہ مہاجرین کے آٹے میں گندھک کی ملاوٹ کی جارہی تھی۔لاشوں کے پوسٹ مارٹم سے بھی پتہ چلاکہ مہاجرین کو آٹے کے ساتھ گندھک کا زہر دیاجارہاتھا۔11نومبر کو دہلی سے لاہور آنے والی مہاجرین کی ایک سپیشل گاڑی پر ہندوستانی فوج کی کمپنی نے حملہ کیا۔حملہ آوروں نے بہت سے مہاجرین کو گولیوں کا نشانہ بنایااورنوجوان لڑکیوں کی برسرعام آبروریزی کی ۔
مشرقی اور مغربی پنجاب کے مابین مہاجرین اور شرنارتھیوں کا تبادلہ دسمبر تک مکمل ہوا۔ اس دوران کتنے لوگ مارے گئے اس کاجواب کسی کوبھی معلوم نہیں۔ اندازہ ہے کہ اس جبری تبادلہ میں 2 سے 10 لاکھ انسانوںکا قتل عام کیاگیا۔لیکن یہ محض اندازہ ہی ہے۔ کون جان سکتا تھا کہ مشرقی اورمغربی پنجاب کے دور دراز دیہات میں کتنے معصوم لوگ مارے گئے؟۔حکومت پاکستان کے 10دسمبر 1947ء کے اعلان کے مطابق چار مہینوں میں 90لاکھ کی آبادی کا جبری تبادلہ ہواتھا۔55لاکھ مسلمان مہاجرین نے پاکستان میںپناہ لی تھی اور35لاکھ غیر مسلم شرنارتھی ہندوستان گئے تھے۔پنجاب میں وحشیانہ قتل وغارت گری اورجبری تبادلہ ء آبادی کے دوران مسلمانوں کا جانی نقصان ہواتھا۔پاکستان کے اس وقت کے وزیر خارجہ ظفراللہ خان نے سکیورٹی کونسل کے روبرو بیان دیاتھاکہ مشرقی پنجاب میں یکم اگست سے لے کر 21دسمبر تک 5لاکھ مسلمان شہید کئے گئے۔
میرے والد غلام سرورمیر(مرحوم ) بتایاکرتے تھے کہ اتنی تعداد میں مسلمانوں کے قتل عام کی وجہ یہ نہیںتھی کہ سکھوںکاتعلق کسی مارشل قوم سے تھا۔وجہ یہ تھی کہ سکھ نہتے مسلمانوں پر رات کی تاریکی میں حملے کرتے تھے ۔ ان کی قیادت سکھ ریاستوں کے باقاعدہ فوجی دستوں کے ہاتھ میں ہوتی تھی ۔وہ اپنے حملوں میں دستی بم ، آتش گیر اورخودکار ہتھیار استعمال کرتے تھے جبکہ مسلمانوں کے پاس لاٹھیوں کے سواکچھ نہیںہوتاتھا۔مسلمان دراصل بے خبری میں مارے گئے۔ شرومنی اکالی دل کی قیادت نے آزادی سے قبل سکھ ریاستوں کے حکمرانوں سے سازباز کرکے مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کا قتلِ عام اورنسل کشی کا منصوبہ بنارکھاتھا جس کا وائسرائے ہائوس اورمتحدہ پنجاب کے گورنرہائوس میںسب کو پتہ تھا ۔ اس منصوبے کا انکشاف میرے بزرگوں پر کیسے ہوا۔ کل پڑھئے گا! (جاری) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں