"TSC" (space) message & send to 7575

ٹھٹھہ سے دہلی تک

ٹھٹھہ میں سندھ فیسٹیول کا اختتام اوردہلی میں کجری وال کی حکومت کا وائنڈ اپ ہوگیا ۔ ٹھٹھہ اوردہلی میں کیا واسطہ ؟ اس روٹ پر تو دوستی بس سروس بھی نہیں چلتی۔ یہ صرف حسن اتفاق ہے کہ میںنے خبروں کے ڈھیر سے اپنے لیے جن دو خبروں کا انتخاب کیا ہے وہ ٹھٹھہ اوردہلی سے متعلق ہیں ۔ ٹھٹھہ میں سندھ فیسٹیول کا اختتام ہو گیا اور اس موقع پر بلاول بھٹو نے حکومت کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کی پالیسی پر شدید تنقید کی جبکہ دہلی میں عام آدمی پارٹی کے وزیر اعلیٰ اروند کجری وال نے استعفیٰ دے کر بھارت سمیت پوری دنیا کو حیران کردیا۔اس دوران ٹھٹھہ اور دہلی کے درمیان لاہور میں بھی ایک کارنامہ سرانجام پاگیا۔۔۔ دنیا کا سب سے بڑا نسانی پرچم بنا کر پاکستان کا نام 'گنیز بک آف دی ورلڈ ریکارڈ‘ میں شامل کرالیاگیا۔
دنیا کا سب سے بڑا انسانی پرچم بنانا بالکل ایک اعزاز ہے لیکن کیاہی اچھا ہوکہ ہمارا یہ پرچم دنیا کی ذہین، ایماندار، محنتی اور مستحکم قوم کے طور پر بھی سب سے بڑا اوربلند ہو۔لیکن افسوس، ایسا نہیں ہے۔ایسا کب ہوگا؟کچھ معلوم نہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ ایسا کوئی اعزاز حاصل کرنا ہماری ریاست، سیاست ، جمہوریت اورعوام کی شاید ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ، تازہ مثال نوٹ فرمالیجیے ، حکمرانوں اورسیاستدانوں کے انکم ٹیکس گوشوارے سامنے لائے گئے ہیں۔ان گوشواروں کے مطابق حکمرانوں خاص طور پر مولانا فضل الرحمن نے جو مبلغ 13ہزار روپے کی رقم ٹیکس کی مد میں قومی خزانے میں جمع کرائی ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے ۔ اس درجے کی ٹیکس ادائیگی کے لیے کوئی محاورہ معرض وجود میں نہیں لایا جاسکتا۔ وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے امیرترین افراد کی ٹاپ ٹین لسٹ پرنگاہ ڈالیں تو دوسرے اورچوتھے نمبر پر آنے والی شخصیات کا تعلق معروف سیاسی گھرانوں سے ہے۔ان کی دولت کا اندازہ بالترتیب 1.8ارب ڈالر اور1.4ارب ڈالر ہے ۔ یہی نہیں ، دونوں خاندانوں کی دولت سے سوئس بنک بھی بھرے پڑے ہیںاورلندن میں شاپنگ مال بھی لدے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں کرپشن کی بات کی جائے تو وطن عزیز میںقائم حمام اور بیوٹی سیلونز میں سب ننگے ہیں ۔ فوجی ٹیکسالوں پر ڈھالی گئی سویلین لیڈرشپ کرپشن کا بہترین ماڈل اورنمونہ تھی ۔ یوں تو آغاز سے ہی ریاست اورسیاست میں کرپشن کے جراثیم پائے جاتے تھے مگرکرپشن کی بابت جنرل محمد ضیاء الحق کا گیارہ سالہ فوجی دور بہت اہم ہے۔ یوں سمجھیے کہ جس طرح انسانی تاریخ میں پنسلین کی دریافت ہوئی اسی طرح جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میںکرپشن ایجادکی گئی۔ جنرل ضیاء الحق کا دور ہمارے ہاں کرپشن کا میٹرکس(رحمِ مادر) ثابت ہوا جس سے ہر قسم کی کرپشن نے نہ صرف جنم لیا بلکہ پھلی پھولی بھی۔ جو لوگ کرپشن کو صرف سیاستدانوں کے کھاتے میں درج کرتے ہیں وہ تاریخ کے ساتھ ہیراپھیری کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ برصغیر خاص طورپر موجودہ پاکستان میں کرپشن پہلے انگریزوں کی آشیرباد سے ہوئی، بعدازاں یہ اتھارٹی اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ کو منتقل ہوگئی۔تب سے چل سوچل۔
ٹھٹھہ میں ختم ہونے والے سندھ فیسٹیول میں بلاول نے ایک پروگریسو اورجذباتی تقریرکی۔ سندھ فیسٹیول کا افتتاح موئن جودڑو سے ہوا تھا۔ فیسٹیول کی مختلف تقاریب میں جتنے فنکاروں نے بھی اپنے فن کامظاہرہ کیا سب میرے دوست ہیں۔ فنکاروں نے مجھے بتایاکہ ہم سب نے سندھ فیسٹیول میںاپنا کمرشل معاوضہ وصول کیا۔ فیسٹیول میں فنکاروں کا انتخاب فخر عالم نے کیاتھا۔ فخرعالم ہمارے ملک کے جانے پہچانے اداکار، گلوکار، میزبان اور ایونٹ مینجمنٹ ڈیزائنر ہیں۔ مجھے فخر عالم کی صلاحیتیوں سے انکار نہیںمگر سیاست ان کی ڈومین نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی سے ان کی نظریاتی وابستگی بھی نہیں ،اس لیے سندھ فیسٹیول میلہ کم اورفیشن شو زیادہ دکھائی دیا ۔ پندرہ روزہ تقریبات میں عوامی رنگ بھی دکھائی دیے لیکن وہ آٹے میں نمک کے برابر تھے۔ بلاول بھٹو کی فی البدیہہ اورگلابی اردو پر مبنی تقریر پہلے سے بہتر تھی لیکن اسے فخر عالم ، شرمیلافاروقی اور ڈاکٹر باسط کی کمپنی(صحبت) کے علاوہ پیپلز پارٹی کے سینئر اورنظریاتی ساتھیوں کے ساتھ بھی اپنی سنگتیں بڑھانی چاہئیں۔ اس سے ان کی کارپوریٹ سیاست میں اپنے نانا بھٹو شہید کی دمادم مست قلندر کی سیاست کا رنگ گاڑھا ہوگا۔
اب کجری وال کی بات بھی کرلیتے ہیں۔ بھارتی الیکٹرانک میڈیاکا سٹاراینکر پرسن کجری وال پر چڑھائی کیے ہوئے تھا: ''آپ بھارت کے معزز ترین صنعت کار انیل امبانی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی ضد کررہے ہیں جس کے لیے آپ کے پاس مسٹر امبانی کے خلاف کوئی دستاویز ی ثبوت بھی نہیںہیں‘‘۔ ٹی وی اینکر کہہ رہاتھا:'' آپ نے جنتا کو سپنے دکھائے کہ ان کی تقدیر بدل جائے گی لیکن صرف 49دن بعد ہی ان کا سپنا توڑ دیا‘‘۔ اینکر پرسن نے یہ بھی کہاکہ دہلی کے بعد آپ کی نظر اب وزیر اعظم کی کرسی پر ہے لیکن لو گ آپ پر اعتماد نہیں کریں گے ، آپ دہلی کے وزیر اعلیٰ تھے لیکن آپ نے جوا کھیلااوردہلی کی چیف منسٹری دائو پر لگادی، بالکل اسی طرح جیسے مہابھارت میں پانڈو اپنی رانی (دروپتی) کوروئوں کے آگے جوئے میں ہار گئے تھے۔ یہ سب باتیں کجری وال سرجھکائے سنتا رہا ۔ پھر اس نے جواب دینے کے لیے سر اٹھایا اورانتہائی نرم لہجے میں اٹل بات کی: ''سپنے دیکھنا زندگی کی علامت ہے،انسان پہلے سپنے دیکھتا ہے پھر ان کی تعبیر ڈھونڈتا ہے۔برا یہ ہوا تھاکہ ہم سب نے سپنے دیکھنا بند کردیے تھے جو غلط ہے۔ ہم سپنے بھی دیکھیں گے اور ان کی تعبیر بھی ڈھونڈیں گے۔ آپ نے کہاکہ میں نے دہلی کی چیف منسٹری سے استعفیٰ دے کر جوا کھیلا ہے ، یہ سب آپ کی اختراعیں ہیں، میڈیا اسے جوئے کانام دے یا کچھ اورمجھے اس سے کوئی سروکار نہیں ، میں مرتے دم تک بھارت اور اس کے عام آدمی کے حقوق کے لیے کام کرتا رہوںگا‘‘۔
اینکر نے کجری وال سے آخری سوال کیاکہ جن لوگوں نے صرف 49دن پہلے ووٹ دیے تھے، وہ دوبارہ آپ کو ووٹ کیوں دیں ؟کچھ لوگ آپ کے لیے کہہ رہے ہیںکہ آپ چیف منسٹری چھوڑ کر دوبارہ سڑک پر آ گئے ہیں یعنی کجری وال اب گھر کے رہے ہیں نا گھاٹ کے۔ یہ سوال سننے کے بعد کجری وال نے کہا: لوگ مجھے ووٹ مت دیں، اپنے آپ کو ووٹ دیں ،اپنے بچوں کو ووٹ دیں۔۔۔ جس دن وہ یہ کرلیں گے ان کے حالات بدل جائیں گے۔کجری وال سے جب یہ پوچھا گیا کہ آپ نے اپنی سرکار کے 49دن میں کیا دیکھا اورکیاسیکھا ؟ تو ان کا کہنا تھاکہ بھارت میں روپے پیسے کی کمی نہیںہے ایمانداری کی کمی ہے۔ عام آدمی کو یہی بتایاجاتا ہے کہ ہمارے پاس وسائل کم ہیں ،ہمارے پاس فنڈز کی کمی ہے جو بالکل غلط بات ہے۔اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں دولت اوروسائل کی تقسیم میں زبردست بے ایمانی کی جاتی ہے۔کجری وال نے انکشاف کیاکہ انیل امبانی گیس کی قیمتیں بڑھا کر ایک لاکھ کروڑ روپیہ منافع کمانے کی منصوبہ بندی کیے ہوئے ہے ، میں اس کے خلاف کرپشن بل لانا چاہ رہاتھا جسے بی جے پی اورکانگریس نے مل کر ناکام بنادیا کیونکہ وہ دونوں کو فنڈنگ کرتے ہیں، لیکن وہ ہار نہیںمانیںگے۔
کِجری وال عام آدمی ہے اوراپنے جیسے عام آدمیوںکے حقوق کی جنگ لڑرہا ہے ۔ ہمیں بھی اپنی ایگزیکٹو کلاس اورمہنگی لیڈر شپ سے جان چھڑا کر اپنی کلاس سے لیڈر شپ پیدا کرنا ہوگی۔کیا دونوں اطراف کی اسٹیبلشمنٹ ایسا ممکن ہونے دے گی ؟اس پر بات پھر ہوگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں