"TSC" (space) message & send to 7575

مے نوشی…(2)

جمشید دستی سیکرٹ سروس کے تحت چلائی جانے والی ''دستی ایجنسی‘‘ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ مے نوشی پارلیمنٹ سے وابستہ افراد ہی کرتے ہیں۔ مذکورہ رپورٹ میں کتنی صداقت ہے اس کا واحد دستاویزی ثبوت وہ خالی بوتلیں ہیں جوجمشید دستی نے لگ بھگ درجن سے زائد نیوز چینلزکو الگ الگ برآمد کیں۔ علاوہ ازیں وہ شراب کی بیسیوں خالی بوتلیں بوریوں میں بھرکر ٹاک شوزکو بھی سپلائی کرتے رہے۔ دستی صاحب کا یہ قومی فریضہ ، قومی سلامتی سے مشابہ دکھائی دیتا ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ جمشید دستی نے یہ فریضہ جمہوریت کی'' مخالف پارٹی‘‘کے آشیر بادپراداکیا تاکہ یہ ثابت کیاجاسکے کہ لوگوں کے ووٹوں سے اقتدار میں آنے والے سیاستدان غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی گل چھروں میں اڑا دیتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پارلیمنٹ اوراس سے وابستہ منتخب افراد غریب عوام کے مسائل اوردکھوں کا مداوا نہیں کرسکے مگر تجزیہ کیاجائے تو ہمارے دیگر ادارے بھی عوام کو آسودگی فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ جیسے گزشتہ روزکے کالم میں بیان کیاگیا، میرزا غالب کے نزدیک مے نوشی بری عادت تھی پر اتنی بھی نہیں کہ انسان اپنے مرتبہ سے گرجائے۔ میرزاکے نزدیک ایک مے نوش اوربادہ خوارکو صرف ولی نہیں سمجھا جاسکتا؛ البتہ غالب کے مقام پر فائز ہونے کے لیے وہ کوالیفائیڈ ہوتاہے۔ غالب سمجھتے تھے کہ ان کی طرح واعظ بھی پیتا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ یہ کام وہ چھپ چھپاکر انجام دیتا ہے ؎
کہاں میخانے کا دروازہ غالب‘ اورکہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
وطن عزیز میں پارلیمنٹ کوہی سومنات کامندر سمجھ کر فتح کیاجاتارہا ہے۔ یہ ہوتا رہاکہ جب کوئی فاتح پارلیمنٹ کو فتح کرتا تو وہ اپنے ہاتھوں سے پتھرکے صنم تراشتا جو بعد ازاں اقتدارکے بت خانوں میں بھگوان بن کر بیٹھ جاتے ۔ بت گروں کا شیوہ یہ رہا کہ اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوںکو توڑکر بت شکن کہلاتے رہے۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے 1977ء میں 5جولائی کی صبح اس وقت مارشل نافذ کیا تھا جب بھٹو حکومت اوراپوزیشن جماعتوں میں سمجھوتہ ہوگیا تھا۔جنرل ضیاء صرف 90 دن کے لیے آئے اورپھر گیارہ سال تک قوم کا مقدر سنوارتے رہے۔ جنرل ضیاء الحق کو سیاست اور سیاستدانوں سے نفرت تھی لیکن مجبوراً انہیں انتخابات کرانا پڑے ۔ جنرل ضیاء الحق نے غیر سیاسی انتخابات کے نتیجے میں غیر سیاسی اسمبلیاں بنائیں اورمحمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنایا لیکن جلد ہی ان سیمی جمہوری مے خواروں سے بیزار ہوگئے ۔جنرل ضیاء نے اپنی ہی بنائی ہوئی اسمبلیاں توڑتے ہوئے غالب کا یہ شعر پڑھا تھا ؎
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن 
غالب نے مے نوشی کی عادت چھپانے کے بجائے اسے اپنی شاعری کا مستقل موضوع بنایا حالانکہ اس زمانے میں بھی ہندوستانی معاشرے میں شراب نوشی کو بہت بڑی اخلاقی اورمذہبی برائی سمجھا جاتاتھا۔ غالب کے نزدیک مے نوشی برائی نہیں بلکہ چشم بینا کو تیز کرنے کا نسخہ ہے ؎
سبزہ و گل کے دیکھنے کے لئے 
چشم نرگس کو دی ہے بینائی 
ہے ہوا میں شراب کی تاثیر 
بادہ نوشی ہے باد پیمائی 
برصغیرکے ادب اورشاعری میں مے نوشی کو بری عادت کے بجائے ایک رومانوی بیماری سمجھاگیا ہے جو اداسی اورغموں سے وقتی طور پر نجات دلاتی ہے۔ منیر نیازی تو مے نوشی کو غموں اورزخموں کے لیے باقاعدہ ایک ''تھراپی‘‘ سمجھتے تھے ؎
شام آئی ہے شراب ِتیز پینا چاہیے
ہوچکی ہے دیراب زخموںکو سینا چاہیے
بادہ خواری برصغیر کے شعراء کا مستقل موضوع رہی ہے‘ لیکن ساغر صدیقی کے پاس اس کے''مالکانہ حقوق‘‘ تھے۔ ساغرکے معنی جام اورپیالہ کے ہیں اورصدیق نہایت سچے اورراست گو انسان کوکہتے ہیں ۔ ساغر صدیقی ایک سچے اورکھرے انسان تھے ، وہ زندگی اوراخلاقیات کے تضادات کو بلاجھجک موضوع سخن بناتے تھے ؎
حوروں کی طلب اورمے وساغر سے ہے نفرت 
زاہد! ترے عرفان سے کچھ بھول ہوئی ہے
ساغر صدیقی کے نزدیک مالک کے نزدیک ہونے کے طریقے بھی اپنے تھے، وہ عالم مدہوشی میں سجدہ کرنے کی بات بھی کرتے ہیں ؎
آئو اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیںکہ ساغرکوخدایاد نہیں 
ادب کی طرح فلم میں بھی مے نوشی مستقل سچوایشن ہوتی ہے۔ پاکستان اوربھارت کی ان گنت فلموں میں بیسیوں فنکاروں نے اس کردار میں رنگ بھرے ہیں۔ ہمارے ہاں سنتوش کمار، درپن ، لالہ سدھیر ،حبیب ،اعجاز درانی،محمدعلی،ندیم، وحیدمراد، شاہد ،مظہر شاہ ، افضال احمد، ظریف اورمنورظریف سمیت دیگر اداکاروں نے اس کردارکو نبھایا ہے۔ انڈین سینمامیں بہت سال پہلے لیجنڈ دلیپ کمار نے''دیوداس‘‘ میں ایک شرابی کا کردار ادا کرکے اس بابت''ناپ تول کا اعشاری نظام ‘‘ وضع کر دیا تھا۔ دیوداس میں ایک ناکام عاشق دانستہ طور پر اپنے آپ کو سزا دیتے ہوئے شراب پی کر اپنی زندگی ختم کرلیتا ہے۔دلیپ کمار صاحب نے یہ کردار لگ بھگ نصف صدی پہلے ادا کیاتھا مگر حیرت ناک امر ہے کہ آج کا بڑے سے بڑا اداکار اس بلندی کو چھو نہیںپارہا۔ دلیپ صاحب کے بعد بالی وڈ میں جن فنکاروں نے شرابی کا کردار ادا کیاان میں شاہ رخ خان اورامیتابھ بچن کے نام شامل ہیں۔شاہ رخ خان نے سنجے لیلابنسالی کی ''دیوداس‘‘ کرتے ہوئے کہاتھاکہ مذکورہ کردارادا کرتے ہوئے وہ صرف دلیپ کمار صاحب کو خراج تحسین پیش کررہا ہے۔
2001ء میں جب میری امیتابھ بچن سے پہلی ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے تفصیلی انٹرویو کیاتھا۔ میں نے بچن صاحب کی ان فلموں کا حوالہ دیا جن میں وہ مختلف سچوایشن میں شراب پیتے ہیں۔ یہ فلم سٹی سٹوڈیوتھا جہاں میں امیتابھ بچن صاحب کا مہمان تھا ۔ میں صبح ان کے گھر''جلسہ‘‘ میںگیا تھا جہاں سے اکٹھے سٹوڈیو آئے تھے۔ بچن صاحب چپ چاپ میرا سوال سن رہے تھے۔۔۔۔۔بچن صاحب! آپ نے سارا آکاش، امر اکبر، انتھونی، ستے پہ ستہ ، دوانجانے ، شکتی ، نصیب اورشرابی میں ایک ہی کردارکوادا کرتے ہوئے اس قدرورائٹی کیسے دی ہے؟
امیتابھ بچن میرا سوال سمجھ گئے تھے، وہ زیر لب مسکرائے اوربولے ''مجھے بڑی خوشی ہوئی ہے کہ ایک پاکستانی پترکار (صحافی) نے میراکام اس قدر غور سے دیکھاہے، لیکن یقین جانیے آج تک شراب پینا تودرکنار میں نے اسے کبھی چھوا بھی نہیں‘‘۔ میں نے امیتابھ بچن کی بات پر اعتبارکرلیا، لیکن ان کے قریبی لوگوں نے مجھے بتایاکہ مہاراشٹریہ کی آدھی شراب بچن صاحب نے اکیلے ہی ختم کی ہے۔ 
امیتابھ بچن سیانے آدمی ہیں، وہ بھارت جیسے سیکولرملک میںرہتے ہوئے بھی اپنی مے نوشی کی عادت کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ہمارے ہاں بھٹو صاحب نے ناصر باغ میں کہہ دیا تھاکہ ''اٹھارہ گھنٹے کام کرتا ہوں، جب تھک جاتا ہوں توتھوڑی سی پی لیتا ہوں، بھٹو شراب پیتا ہے غریب کا خون نہیںپیتا‘‘۔ بھٹو صاحب کے اس سچ کو ان کے خلاف بری طرح استعمال کیا گیا تھا۔ بھٹو صاحب نے بعدازاں شراب پر پابندی بھی عائد کردی لیکن انہیںمعاف نہ کیاگیا۔ایک محتاط اندازے کے ساتھ پاکستان ہویا بھارت مے نوشی کی عادت کو سرعام موضوع سخن بنانانقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ ہمارے ہاں اکثر لوگ سب کچھ کرتے ہیں لیکن اوپر سے وہ امیتابھ بچن کے پیروکار بنے رہتے ہیں۔ (ختم) 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں