"TSC" (space) message & send to 7575

ذوالفقار علی بھٹو

ایوبی اوریحییٰ خانی مارشل لائوں کے کئی برس بعدجب بھٹو صاحب کواقتدار سونپا گیا تو ملک کے حالات انتہائی پیچیدہ تھے۔ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو پانچ بڑے مسائل کا سامنا تھا۔ پہلا مسئلہ بنگلہ دیش کوتسلیم کرنے کاتھا۔ دوسرا مسئلہ شیخ مجیب الرحمان تھے جو اس وقت مغربی پاکستان میں قید تھے۔ تیسرا مسئلہ پاکستان کے 93ہزار قیدیوں کی واپسی کاتھا۔ چوتھا مسئلہ پاکستان کی پانچ ہزار مربع میل زمین کو بھارت کی فوج کے قبضے سے واگزارکرانا تھا۔ پیپلز پارٹی کے چیئر مین ذوالفقار علی بھٹو کو پانچوں مسائل حل کرکے ایک ٹوٹے پھوٹے اورشکست خوردہ پاکستان کو دوبارہ اپنے پائوںپر کھڑا کرکے ترقی کے فاسٹ ٹریک پر لے جاناتھا۔ بھٹوصاحب کے کارناموںکی تفصیل طویل ہے لیکن آئین سازی ان کی حکومت کا ایک بہت بڑا کارنامہ تھا۔ ملک کی اسٹیبلشمنٹ نے بھٹو صاحب کو ایسے حالات میں اقتدار سونپا جس میں شاید شاہِ جنات بھی کچھ نہ کرپاتے مگر بھٹو نے ان گنت کرشمے کردکھائے۔ان کے بدلے میں انہیں 4اپریل 1979ء کو پھانسی پر لٹکا دیاگیا۔ بھٹو کو پھانسی دی گئی یا اس ملک کے غریب عوام کے مقدرکو سولی پرلٹکادیاگیا، دونوں ایک ہی داستان کے عنوانات دکھائی دیتے ہیں۔ شکیب جلالی نے کہاتھا ؎ 
ملتی جلتی داستاں وجہِ غلط فہمی ہوئی 
آپ شرمندہ نہ ہوں، یہ میرا ہی افسانہ تھا
بھٹو کی زندگی کا جائزہ لیں تو وہ ایک سپر نیچرل ہیرو کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ فطری اورطبعی طور پر وہ ایک کرشماتی انسان تھے جنہوں نے اپنی سیاسی زندگی میں وہ کچھ کردکھایا جو شاید ایک زندگی میں ممکن نہیںہو سکتا۔ عالمی طاقتوں نے انہیں اسلامی ممالک پر مبنی تھرڈ ورلڈ بلاک اورپاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی سزا دی تھی جبکہ مقامی اسٹیبلشمنٹ نفسیاتی اور سیاسی طور پر بھٹو صاحب کے سامنے اپنے آپ کو پستہ قد سمجھنے لگی تھی جس کے باعث بھٹو صاحب کو جسمانی طور پر ختم کرنے کی سازش تیارکی گئی۔ تیسری دنیا کے عظیم لیڈرکوجج جرنیل گٹھ جوڑکے ذریعے پھانسی دی گئی ۔
پاکستان اپنے قیام کے صرف 24سال بعدسلور جوبلی منانے سے پہلے ہی دو لخت ہوگیا۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستانی قوم ایک عظیم سانحہ سے دوچار تھی ۔ اب پاکستان کو تقسیم ہوئے چاردہائیوں سے زائد عرصہ بیت چکا ہے لیکن آج تک اس کے ملزمان کو کٹہرے میں کھڑا نہیں کیاگیا۔ لگ بھگ 44 سال بعد بھی ملک کے جمہوری نظام کے سامنے یہ سوال کھڑا ہے کہ آئین توڑنے والے ملزم کو قانون کے مطابق سزا دینی چاہیے یا انسانی ہمدردی کے تحت اسے ملک سے باہر جانے دیا جائے؟ اس سوال کا جواب بھی باقی ہے کہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم اورایٹمی پروگرام کے بانی ذوالفقار علی بھٹوکو انسانی ہمدردی کے تحت رہاکیوں نہ کیاگیا ؟
تیسری دنیا کے عظیم اورناقابل تسخیر لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اگر وہ امریکہ میں پیدا ہوتا تو وہاں بھی سب سے بڑا لیڈرہوتا،اس پائے کے لیڈر کو ایک کمزور مقدمہ قتل میں سزائے موت سنادی گئی ۔ بھٹو کوایک سیاستدان نواب احمد رضا خان کے قتل کے مشکوک مقدمہ میں مجرم ٹھہرایا گیا تھا ۔ نواب مرحوم، ہمارے کمانڈو جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری کے والد تھے جنہیں‘ 11نومبر 1974کو لاہور میں قتل کردیاگیاتھا۔نواب احمد رضا خان کے مقدمہ میں ایک منتخب وزیراعظم کو قاتل قرار دلوانے کامقدمہ تکنیکی طور پر بہت کمزور تھا‘ اسی لیے صرف 10دن بعد لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس کے ایم اے صمدانی نے بھٹو صاحب کی ضمانت قبول کرلی تھی ۔ تب جنرل محمد ضیاء الحق نے مولوی مشتاق کو لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقررکیاجو بھٹو کا جانی دشمن تھا۔ اس دشمنی کا پس منظر یہ تھاکہ بھٹو صاحب نے لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس اسلم ریاض حسین کو مقررکیا تھا جبکہ مولوی مشتاق سمجھتا تھا کہ اس عہدے پر اس کا حق ہے۔ مذکورہ فیصلے پر مولوی مشتاق کو بڑا رنج ہوااوروہ بھٹو صاحب سے نفرت کرنے لگا۔ جنرل ضیاء الحق کو جب بھٹو اورمولوی مشتاق کی اس یک طرفہ دشمنی کا پتہ چلاتو انہوں نے بھٹو صاحب کے خلاف اپنی مرضی کافیصلہ لینے کے لیے لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مولوی مشتاق کو مقررکردیا جو صریحاً انصاف کا قتل تھا۔
جسٹس مولوی مشتاق کے بارے میں بیان کیاجاتا ہے کہ مقدمہ کی سماعت کے دوران وہ دوستوں کی محفل میں اکثر بھٹوکو سزائے موت کا حکم سنانے کا ذکر کرتے رہتے تھے۔ مولوی مشتاق حسین لاہور ماڈل ٹائون میں رہتے تھے، ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے اپنے آپ کو آئسولیٹ کرلیاتھا، ہروقت ان پر موت کا خوف طاری رہتاتھا، ان کے قریبی ذرائع کا کہناہے کہ مولوی مشتاق مرنے سے قبل ایک پراسرار بیماری میں مبتلا ہوگئے تھے جس کے باعث ان کے جسم سے بدبو اورتعفن اٹھتا رہتا تھا۔ جس دن قیدِزندگی سے آزاد ہوئے ان کے جنازے پر شہدکی مکھیوں نے حملہ کردیا۔ اخبارات میں شائع ہونے والی وہ تصویر مجھے بھولتی نہیں‘ جس کے کیپشن میں بیان کیاگیا تھاکہ بھٹو کوسزادینے والے جج مولوی مشتاق حسین کی میت سڑک پر لاوارث پڑی ہے۔ مولوی مشتاق کے جنازے پر شہدکی مکھیوں نے اتنا شدید حملہ کردیا تھا کہ آخری رسومات میں شامل لوگ جنازہ چھوڑکر بھاگ اٹھے۔شہد کی مکھیوں کے کاٹنے سے جنازے میں شریک بعض لوگ زندگی کی بازی ہارگئے۔ اس واقعہ کو غیر معمولی قرار دے کر بھٹو صاحب کو ولی اللہ قرار دیاجاسکتا ہے لیکن وہ ایک اچھے انسان ، عظیم لیڈر اورمحب وطن پاکستانی تھے‘ جنہیں پھانسی دینا ایک ایساگناہ ہے جس کی سزا نجانے ہم کب تک بھگتتے رہیں گے۔ بادی النظر میں دہشت گردی نے اس گناہ کی کوکھ سے جنم لیا ہے جو عرصہ درازسے قومی سلامتی برانڈ اسٹیبلشمنٹ کے قابو نہیںآرہی۔ 
بھٹو صاحب نے منتخب وزیر اعظم ہوتے ہوئے باوقار انداز سے اس ملک کی عدالتوں کا سامنا کیاتھا۔ وہ کمانڈو نہیں سیاسی لیڈر تھے اس لیے اس دھج سے مقتل کی جانب گئے کہ وہ شان آج بھی سلامت ہے ۔ دوسری طر ف کاغذی دلیر عدالتوں کا سامنا کرتے ہوئے ہسپتالوں اورانتہائی نگہداشت وارڈوں میں بھی گھبرائے ہوئے ہیں۔ 21مارچ 1978ء کو لاہور ہائی کورٹ میں اپنی پیشی کے دوران بہادر بھٹو نے بیان دیاتھا: ''میرا خدا جانتا ہے کہ میں نے اس آدمی (نواب احمد رضا خان) کا خون نہیں کیا۔اگر میں نے اس کا ارتکاب کیاہوتا تو مجھ میں اتنا حوصلہ ہے کہ میں اس کا اقبال کرلیتا۔ یہ اقبالِ جرم اس وحشیانہ مقدمے کی کارروائی سے کہیں کم اذیت دہ اوربے عزتی کا باعث ہوتا۔ میں مسلمان ہوں اورایک مسلمان کی تقدیر کا فیصلہ قادر مطلق کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ میں صاف ضمیر کے ساتھ اس کے حضور میں پیش ہوسکتا ہوں اوراس سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اس کی مملکت اسلامیہ پاکستان کو راکھ کے ڈھیر سے دوبارہ ایک باعزت قوم میں تعمیر کردیا ہے۔ میں آج کوٹ لکھپت کے اس 'بلیک ہول ‘ میں اپنے ضمیر کے ساتھ پُرسکون ہوں‘‘۔ (جاری) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں