"TSC" (space) message & send to 7575

’’فلک اور خواجگی‘‘…(2)

اس سے قبل کہ میں اپنے گزشتہ روزکے موضوع '' فلک اورخواجگی ‘‘ کی طرف آئوں ایک 'بریکنگ نیوز‘ ایسی ہے جس پر میرا تبصرہ بہت ضروری ہے۔ اخبارات اوربرقی میڈیا میں وفاقی وزراء خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق کے بیانات کو فوج کے سربراہ راحیل شریف کے بیان کے ساتھ جوڑکر جو تبصرے اورتجزیے کیے جارہے ہیں ، اس پر بات ہوگی لیکن پہلے بنیادی انسانی حقوق اور ثقافتی ایمرجنسی کے زمرے میں آنے والے وقوعے پر ہمارا تبصرہ سن لیں ۔ خبریہ ہے کہ بلو، پروین اورپی ٹی آئی فیم گلوکارابرارالحق کو دبئی ایئرپورٹ پر روک لیاگیا۔ اپنے 'دیرینہ گلوکار اور پاپ دوست‘ ابرارالحق کے حوالے سے اس نوع کی خبر سن کر میں پریشان ہوگیا کہ خدا خیر کرے‘ وہ کسی سازش کا شکار نہ ہوجائے ۔ پھر ذہن میں آیاکہ ابرار الحق کے سامان میں سے طارق طافو (ڈرم ماسٹر) کے سوا قابل اعتراض ''پراڈکٹ ‘‘ کیا ہوسکتی ہے؟ بعد میں نیوز چینلز نے خبر کی تفصیل بیان کی کہ ابرار الحق کو اس لیے روکا گیا کہ وہ ویزے والا پاسپورٹ گھر چھوڑگئے تھے، لہٰذا انہیں ائیرپورٹ کے عملے اورحفاظتی ایجنسیوں نے روک لیا ۔اس بابت ہمارے دوست ابرارالحق کا بیان آیا کہ انہیں محض اس لیے روکا گیا کہ پاسپورٹ اوردبئی ائیر پورٹ کی دستاویز میں ایک ہندسے کا فرق تھا یعنی ایک نقطے نے محرم سے مجرم بنا دیا ۔ ابرارالحق نے بتایاکہ وہ دبئی شاہی خاندان کے مہمان کی حیثیت سے آئے ہیں، جونہی ان کے بھائی میجر اسرارالحق نے شاہی خاندان کو اطلاع دی، انہیں پورے پروٹوکول کے ساتھ شاہی مہمان کی طرح شاہی محل میں لے جایا گیا۔ 
ماضی میں افغانستان کے آخری بادشاہ ظاہر شاہ کے دور میں 'جشن کابل ‘ منایا جاتا رہا‘ جہاں بھارت اور پاکستان کے عظیم فنکاروں کو فن کے مظاہرے کے لیے دعوت دی جاتی تھی۔ اساتذۂ فن بتاتے ہیں کہ جشن کابل کے موقعہ پر پاکستانی اوربھارتی فنکاروں کے مابین ''موسیقی کا ورلڈکپ ‘‘ منعقد ہوا کرتا تھا جس میں دونوں ملکوں کے فنکاروں کے مابین مقابلہ تو ہوتا تھا مگر سٹہ بازی نہیں ہوتی تھی۔ شہنشاہ ِغزل مہدی حسن ایسے پاکستانی گویے تھے جنہیں نیپال کے بادشاہ نے شاہی مہمان کے طور پر اپنے ہاں مدعو کیا تھا۔ خاں صاحب مہدی حسن کو نیپال میں 21 توپوں کی سلامی بھی دی گئی تھی۔ ہمارے ہاں ایسے گلوکار بھی پائے جاتے ہیں جنہیں توپوں کی سلامی دینے کے بجائے ان کے سامنے کھڑا کرکے 'پروٹوکول ‘ دینا چاہیے ۔ توپوں سے یاد آیا کہ ہمارے ہاں میڈیا کی توپوں کا منہ اسی ایک طرف ہوچکا ہے جہاں ہلکی پھلکی موسیقی سے بات کلاسیکی بلکہ عسکری موسیقی تک پہنچ گئی ہے۔
دوراندیشوں کا کہنا ہے کہ سیاست میں بڑھک بازی کی پذیرائی نہیں کی جانی چاہیے، اس سے نقصان کا اندیشہ ہے۔ بڑھک بازی پنجابی فلموں کی اصطلاح ہے ، اردو میں اس کا ترجمہ ''بڑ بازی ‘‘ کیا جاسکتا ہے ۔ ''دیوانے کی بڑ ‘‘ ایک معروف محاورہ بھی ہے جس کا مطلب مہمل بات ہے۔ سیاست کے اسلوب اورحکومت کے طریق میں بڑھک بازی کوئی منفعت بخش سرگرمی نہیں ہوتی لیکن اس سمعی انتشار سے ہماری فلموں نے کئی دہائیوں تک باکس آفس پر جھنڈے گاڑ رکھے ہیں۔ پاکستانی فلموں میں لالہ سدھیر اور مظہر شاہ کو بڑھک بازی کا ' رائٹ برادرز‘ قرار دیا جاسکتا ہے۔ 'رائٹ برادرز ‘ نے ہوائی جہاز کا بنیادی ڈھانچہ تیارکیا تھا پھر وقت کے ساتھ ساتھ ایف سولہ اورایف اٹھارہ جیسے طیارے بنالیے گئے۔ لالہ سدھیر کو جنگجو ہیرو کا خطاب حاصل تھا، ان کے مدمقابل مظہر شاہ مقبول ولن ہوا کرتے تھے ۔ ہر فلم میں مظہر شاہ کا ایک مخصوص تکیہ کلام ہوتا تھا جسے وہ بڑھک کے انداز میں ادا کیا کرتے تھے : '' ٹبر کھا جاں تے ڈکار نہ ماراں‘‘ یعنی خاندان کھا جائوں اور ڈکار نہ لوں یا '' اوئے میں اڈی ماراں تے دھرتی ہلادیاں‘‘ یعنی میں ایڑ ی ماروں تو دھرتی ہلادوں ۔ان کے اس طرح کے دوسرے کئی ڈائیلاگ بہت مقبول ہوئے تھے۔
کبھی ہماری فلم انڈسٹری میں ''24 چوڑے ‘‘ ہوا کرتے تھے جو مرکزی ولن کے حواریوں کا کردار ادا کیاکرتے تھے۔ مبلغ دو درجن متذکرہ چوڑوں کے ہیڈماسٹر اداکار ساون تھے جبکہ لوئر سٹاف میںجگی ملک، ظاہر شاہ، میاں بادل ، نصراللہ بٹ، الطاف خاں، حیدر عباس، سلیم بٹ، راج ملتانی ، حاجی احسن، محسن ، اچھی خاں، اقبال درانی ، بابر بٹ اورانور خاں سمیت دوسرے شامل تھے۔ یہ چوڑے چکلے اورتن ساز اداکار ہمیشہ ایک طرح کی سٹف ایکٹنگ (سخت اداکاری) کیاکرتے تھے۔ سلطان راہی ان چوڑوں کے 
آئیڈیل تھے۔ یہ سب سلطان راہی بننا چاہتے تھے مگر اپنے روایتی انداز کی وجہ سے ان میں سے کوئی بھی سلطان راہی نہ بن سکا۔ میاں نوازشریف کی فرسٹ اورسیکنڈ ٹرم میں پانچ پیارے مقبول ہوئے تھے ، اس بار ٹرینڈ بدل گیا ہے۔ نون لیگ کی فلم میں میاں نوازشریف اورمیاں شہباز شریف کو ویسی ہی مرکزیت حاصل ہے جیسی ''بھٹی پکچرز‘‘ میں عنایت حسین بھٹی اورکیفی کو حاصل رہتی تھی جبکہ دیگر کاسٹ میں چودھری نثار علی خان، خواجہ محمد آصف، خواجہ سعد رفیق، اسحاق ڈار، پرویز رشید ، عابد شیر علی ، رانا ثناء اللہ ، خرم دستگیر خاں،احسن خان اورسپیشل انٹری کے طور پر مہتاب عباسی شامل دکھائی دے رہے ہیں۔ جناب غوث علی شاہ کی حیثیت مہمان اداکار کی سی ہے۔ ایسے کردار فلم کے ٹائیٹلز کے دوران ہی کسی حادثے کاشکار ہوکر باقی ماندہ کہانی اور سکرین پلے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ انجینئر امیر مقام اپنے ڈیل ڈول سے روایتی فلمی چوڑوں والی کوالیفکیشن پر پورے اترتے ہیں ۔ قبلہ امیر مقام ہاف ٹائم کے بعد ہیرو پارٹی میں شامل ہوئے اور اپنا کردار بخوبی نبھا رہے ہیں۔
ایسے ''نابغہ روزگار‘‘ ہمیں جمہوری حکومت میں بھی اعلیٰ مقام پر دکھائی دیتے ہیں جو آمر کی حکومت میں بھی چھائے رہے۔ ''سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگا کر ماضی میں ہمارے ہاں جو بھی ہوتا رہا‘ اس کی گنجائش اب ختم ہوجانی چاہیے۔ ماضی میں پانچ مرتبہ آئین توڑا گیا جس کے باعث بعض ریاستی اداروں پر تنقید کی جاتی ہے۔ اگر سچ بولاجائے اورریاستی امور میں ایمانداری برتی جائے تو آئین توڑنے کا عمل تنہا سرانجام نہیں پاتا‘ اس کے لیے فرد واحد کو حواریوں اورمختلف اداروں کا تعاون حاصل رہتا ہے جسے فاسٹ فارورڈ کرکے فلم کا وائنڈ اپ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ آمرکی طرف سے آئین شکنی کے عمل کو عدالت کی طرف سے ''پاکستان بچانے کا معرکہ‘‘ قراردیا گیا تھا ۔ ہم وہ بدقسمت ہیں‘ جن کاماضی بعید اورقریب دونوں ہی گرہن زدہ ہیں ، لہٰذا اب اگر گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کا فیصلہ کررہے ہیں تو اس کی نیت ایماندارنہ طریقے سے باندھیں اورآستینوں سے بت نکال پھینکیں وگرنہ قبولیت کیسے ہوگی ؟
یہ وہ وقت ہے جہاں ''فلک‘‘ (ریاست) اور''خواجگان‘‘ (حکومت )کے مابین ہر قسم کا گلہ شکوہ اوررنجش دور ہونی چاہیے۔ حکومت اورفوج ایک ہی جسم کے اعضاکی طرح کام کریں تو قوم کی نائو کنارے لگے گی ۔ فوج کا وقار پاکستان سے منسوب ہے اورقوم کو اپنے محافظوں کا مورال ڈائون نہیںہونے دینا۔پرویز مشرف کا اصل مقدمہ اتنا سادہ نہیں ہے ۔ اس کا آغاز کارگل سے ہوتا ہے۔ کولمبو سے پاکستان آتے ہوئے پرویز مشرف طیارے میں تھے جب منتخب وزیر اعظم میاں نوازشریف کو گرفتار کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا گیا تھا۔ لہٰذا ''خواجگی ‘‘ کے اس انداز کو ''بندہ پروری‘‘ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ حکمرانوں کے غصہ اوربدلہ کی خواہش سے متعلق اقبال ؒ نے سکندر اعظم کے انجام کی طرف اشارہ کیا ہے جس سے سبق سیکھنا دانشمندی ہوگی ؎
اسی خطا سے عتابِ ملوک ہے مجھ پر
کہ جانتا ہوں مآلِ سکندری کیا ہے 
(ختم)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں