"TSC" (space) message & send to 7575

پریس کلب والا چوک

لاہور میں کئی معروف چوک ہیں۔ لکشمی چوک، بوہڑ والا چوک، صفاں والا چوک، فوارہ چوک، یتیم خانہ چوک، لبرٹی چوک، حسین چوک، کلمہ چوک، چوبرجی چوک، شادمان چوک، یاد گار چوک، اکبر چوک، انار کلی چوک، پنجاب اسمبلی چوک، مسجد شہداء چوک اور داتا سرکار ؒ والا چوک سمیت لاہور میں کئی دوسرے مشہورچوک بھی ہیں۔ ایک عرصہ سے لاہور میں پریس کلب چوک نے خاص اہمیت اختیار کر لی ہے۔ یہ چوک آئے روز التحریر اسکوائر کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہاں کبھی لوڈ شیڈنگ کے ستائے ہوئے عوام کا قبضہ ہوتا ہے اور کبھی سوئی گیس کی بندش سے اکتائے لوگ سراپا احتجاج ہوتے ہیں۔ کبھی پانی کو ترسے ہوئے لوگ ٹریفک کو روکے حکومت سے پانی مانگ رہے ہوتے ہیں تو کبھی مہنگائی سے پسے ہوئے پاکستانی اپنے مقدر پر سینہ کوبی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں دکھ درد، مصیبتیں، ظلم و زیادتی اور بے انصافی پہلے ہی بے حد زیادہ ہے اور پھر لوگوںکو اپنا حق مانگنے کے لئے میڈیا کے سامنے خود کو اور زیادہ مظلوم بنا کر پیش کرنا پڑتا ہے۔ کمسن بچیوں اور ان کے لواحقین کے دکھ درد بیک گرائونڈ میوزک کے ساتھ بیان کئے جاتے ہیں۔ لاہور پریس کلب چو ک غریبوں، مظلوموں، مسکینوں اور دکھیارے عوام کے دکھوں کی ''عکسبندی‘‘ کے لئے ایورنیو سٹوڈیو کی شکل اختیار کر گیا ہے‘ جہاں انواع و اقسام کے مظلوموں کے دکھوں کی نمائش کے لئے آئوٹ ڈور کے ساتھ ساتھ ان ڈور شوٹنگز کی سہولت بھی موجود ہے۔
اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے باعث میں پریس کلب کے احاطے میں کم ہی جا پاتا ہوں مگر مجھے روزنامہ ''دنیا‘‘ پہنچنے کے لئے روزانہ اس چوک میں ٹریفک کا سونامی عبور کرنا پڑتا ہے۔ پریس کلب کے صدر دروازے کے سامنے سے گزرتے ہوئے مجھے اکثر وہاں بیٹھے اپنے یار بیلی بھی دکھائی دیتے ہیں‘ جو چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے اپنے اپنے ذاتی ''ٹاک شوز‘‘ برپا کئے ہوتے ہیں۔ دل چاہتا ہے کہ ان کی انقلابی، تجزیاتی، سیاسی اور صحافتی آزادی سمیت دوسرے موضوعات سے متعلق چھڑی بحث میں شریک ہو جائوں لیکن پیشہ ورانہ مصروفیات آڑے آتی ہیں اور میں اس چوک سے یوں نکل جاتا ہوں جیسے عدم نے زندگی کے آلام اور طویل سفر کو طے کرتے ہوئے شارٹ کٹ رستہ یوں اپنایا تھا:
میں میکدے کی راہ سے ہو کر نکل گیا
ورنہ سفر حیات کا بے حد طویل تھا 
اب کچھ دنوں سے میں پریس کلب کے احاطے کے اندر بھی چلا جاتا ہوں اور اس احتجاج میں بھی شریک ہوتا ہوں جو آزادیٔ اظہار کے لئے کیا جاتا ہے۔ 13 مئی کی دوپہر پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام پریس کلب میں ''یومِ عزم‘‘ کے عنوان سے سیمینار کرایا گیا۔ 13 مئی کی تاریخی اہمیت کیا ہے؟ جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں جب بھٹو صاحب کی منتخب حکومت کا تختہ الٹا گیا تو آزادیٔ اظہار پر بھی سخت پابندی لگا دی گئی۔ پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنمائوں اور ورکروں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ایسے میں بعض صحافیوں نے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ''صر صر کو صبا، بندے کو خدا‘‘ لکھنے سے انکار کر دیا اور سچ لکھا جس پر انہیں ملٹر ی کورٹس سے سزائیں ہوئیں اور لکھپت جیل میں کوڑے مارے گئے۔ ان میں ناصر زیدی، خاور نعیم ہاشمی اور اقبال جعفری شامل تھے جبکہ مسعوداللہ خان کے اپاہج ہو جانے کے باعث انہیںکوڑے نہ مارے گئے۔ 
سیمینار کے میزبان ارشد انصاری اور شہباز میاں تھے جبکہ مقررین میں سنیئر صحافی حسین نقی کے ساتھ ساتھ اس بندۂ عاجز کا نام بھی شامل تھا۔ وقت مقررہ پر جب کلب کے صدر کے کمرے میں پہنچا تو وہاں حسین نقی کے ہمراہ جماعت اسلامی کے رہنما فرید احمد پراچہ اور پی ٹی آئی کی خاتون رہنما عندلیب عباس چائے پیتے پائے گئے۔ میں نے دیکھا کہ حسین نقی اور فرید احمد پراچہ اکٹھے بیٹھے سیاسی گپ شپ میں مصروف ہیں۔ 80ء کی دہائی میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے ترقی پسند صحافی دائیں بازو کی سیاست کی علمبردار، جماعت اسلامی کے ساتھ دوستوں کی طرح گپ شپ کر سکتے ہیں۔ بائیں بازو والے جماعت اسلامی سے وابستہ افراد کو رجعت پسند جبکہ جماعت اسلامی نے انہیں ''کفار‘‘ قرار دے رکھا تھا۔ نقی صاحب، پراچہ صاحب، قیصر شریف اور عندلیب عباس کے بعد تقریب میں پیپلز پارٹی کے رہنما چودھری منظور اور وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کی شرکت سے سیمینار کی سٹار کاسٹ ویلیو بڑھ گئی تھی۔ 
مقررین نے تفصیل سے 13 مئی کی تاریخی اہمیت بیان کی۔ میں نے عرض کیا کہ 13 مئی کا ذکر کریں تو 12 مئی کا دن بھی یاد آتا ہے جب چودھری اعتزاز احسن سابق چیف جسٹس کو سندھ ہائی کورٹ تک لے جانا چاہتے تھے۔ افتخار محمد چودھری اور ان کے ساتھیوں کو کراچی ایئر پورٹ کے اندر ہی محبوس کر کے شام تک 52 شہریوں کا قتل عام کر دیا گیا تھا۔ اسی شام ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف اور ان کے چِٹ کپڑیوں (سیاسی حواریوں) نے اسلام آباد میں جلسہ عام کیا تھا۔ اس شام جنرل پرویز مشرف، اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی اور خصوصاًََ شیخ رشید نے جو تقریر پھڑکائی تھی وہ قومی سلامتی اور حب الوطنی کے تازہ منظرنامے میں بھی ''سپر ہٹ‘‘ ہو سکتی ہے۔ جنرل مشرف نے جلسہ عام میں مکہ لہراتے ہوئے کراچی میں جاں بحق ہونے والے پاکستانیوں کے لواحقین کو پُرسہ دیتے ہوئے کہا تھا '' آپ نے دیکھا عوامی طاقت کے سامنے آنے والے کس طرح کچلے گئے ہیں‘‘۔ 12 اور 13 مئی سے بہت پہلے 17 اکتوبر کا دن بھی یاد آتا ہے جب 1951ء میں پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو سرعام قتل کر دیا گیا تھا۔ 2 جنوری کا دن بھی ہمارے مقدر کے افق پر ایک نحس ستارہ بن کر ہمیں ہماری بدقسمتی کی یاد دلاتا رہتا ہے۔ اس روز جنرل ایوب خان نے اقتدار سنبھالا تھا۔ اس کے بعد 10 سال تک بنگالیوں کو غدار ثابت کرنے کا سلسلہ جاری رہا اور پھر 16 دسمبرکا سورج طلوع ہوا۔ 1971ء میں اس دن پاکستان کے اس حصے نے اپنے آپ کو ہم سے علیحدہ کر لیا تھا جہاںمسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تھا اور جہاں سے پاکستان کے حصول کے لئے تحریک ابھری تھی۔ 5 جولائی 1977ء اور 4 اپریل 1979ء کی دو تاریخیں بھی ہماری بدقسمتی کے کیلنڈر میں ایک ایسا اضافہ تھیں جن کے منحوس اثرات سے ہم آج تک نکل نہیں پائے۔ اپنے قومی دکھوں کے کیلنڈر کا ہر دن تازہ جنازے جیسا ہے اور ہر تاریخ غم کا مہورت ہی دکھائی دیتی ہے۔ مذہبی منافرت اور فرقہ پرستی کی بھینٹ چڑھنے والے حساس شاعر محسن نقوی نے کہا تھا:
روز کیا تازہ جنازے کا جلوس
روز اک غم کا مہورت کیوں ہے؟
چودھری منظور نے کہا کہ پیپلز پارٹی آزادی ِاظہار اور آزادی صحافت پر یقین رکھتی ہے لیکن ذمہ دارانہ صحافت کا بھی فقدان ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ اس ملک میں جی ایم سید، خان عبدالولی خان، مولانا عبدالستار نیازی، جاوید ہاشمی، خواجہ رفیق اور نواب اکبر بگٹی کو غدار کہا گیا۔ اکبر بگٹی جس نے قائد اعظم ؒ سے لے کر بھٹو اور پھر سبھی جمہوری حکومتوں کا ساتھ دیا‘ انہیں بڑھاپے میں قتل کر دیا گیا۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ صحافت میں یہ رواج فروغ پا گیا ہے کہ بیانات کو اپنی مرضی کے مطابق ٹوئسٹ دیا جاتا ہے۔ افواج پاکستان بحیثیت ادارہ ہم سب کے لئے قابل احترام ہیں اور اس کے جوان اس ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنے پر مامور ہیں، ہم صدق دل سے ان کی قربانیوں کی قدر کرتے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ اس وقت سیاسی جماعتوں اور میڈیا کو جلتی پر تیل ڈالنے کے بجائے فائربریگیڈ کا کام کرنا چاہیے کیونکہ اسی میں ہمارے ملک کی بھلائی ہے۔ تقریب کے اختتام پر میں پریس کلب چوک سے اپنے دفتر کی جانب تیز قدموں سے بڑھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ کیا ہم خواجہ سعد رفیق کے اس اکسیری فارمولے پر عمل کر سکیںگے؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں