"TSC" (space) message & send to 7575

Love and Hate

ٹاک شوز میں بیٹھی ''رودالیاں‘‘ ( ماتم کرنے والی پیشہ ور خواتین) جو چاہیں آہ و بکاہ کرتی رہیں‘ بالی وڈ سے موصول ہونے والی باکس آفس رپورٹ مختلف ہے۔ بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف دہلی میں یوں چھائے رہے جیسے ایک عرصہ سے بھارتی بالی وڈ میں ''خانز‘‘ کا ڈنکا بج رہا ہے۔ سفارت کاری اور ڈپلومیسی کو پوری دنیا میں نازک، مختلف اور مشکل مضمون سمجھا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں اسے زبیدہ آپا کے ٹوٹکوں سے بھی ایزی لیا گیا۔ اُدھر نریندر مودی نے پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو دہلی آنے کی دعوت دی اِدھر قومی میڈیا پر جنگی ترانے گونج اُٹھے۔ بعض نیوز چینلز پر تو یاجوج ماجوج ڈیزائن کے اینکر پرسنز اور تاتاری قسم کے تجزیہ نگار بھی دکھائی دیے‘ جن کی خواہش تھی کہ دونوں ملکوں میں ڈائیلاگ کے بجائے اب آخری جنگ ہو جانی چاہیے۔ وہ تو شکر ہے سر پر بجٹ آن پہنچا، اب کچھ شہ دماغوں نے آنے والے بجٹ پر بگل بجا رکھا ہے، کچھ مشرف کے طبی معائنے اور ای سی ایل سے ان کا نام نکالنے کی لکیر پیٹ رہے ہیں اور بعض عوامی مسائل اور دکھوں کی دہائی دے کر اپنی ریٹنگ (ٹی وی پروگراموں کی مقبولیت کا چارٹ) بہتر کرنے کا یُدھ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اسلام آباد سے پروگرام کرنے والی ایک جوڑی کے سینئر اینکر پرسن نے اس سپرٹ کا ذکر کیا جو عمومی طور پر ہمارے محب اینکر پرسنز کے موضوعات میں دکھائی دیتی ہے۔ اینکر پرسن کا کہنا تھا کہ گزشتہ چار برسوں میں ان کی جوڑی سمیت کسی مائی کے لال نے کشمیر کے موضوع پر ٹاک شو نہیں کیا‘ لیکن جب وزیر اعظم دہلی گئے تو سب کو مسئلہ کشمیر یاد آ گیا۔ میڈیا‘ خصوصاً ''ٹا ک شوز‘‘ کی ذمہ داری پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کشیدگی کم کرنے یا ماحول کو بہتر بنانے کے لیے کی جانے والی سرجری کا پوسٹ مارٹم کرنا نہیں ہونا چاہیے۔ تنقید کرنا میڈیا کے فرائض میں شامل ہے مگر یہ فریضہ ادا کرتے ہوئے ہمیں حقیقت، معروضیت اور تاریخی حقائق کو جھٹلانا نہیں چاہیے۔ وطن عزیز میں یہ رواج رہا ہے کہ خارجہ پالیسی کو عوامی نمائندوں کی دسترس سے دور رکھا جائے۔ اس کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔ بھارت کے ساتھ بڑی جنگیں اور چھوٹے موٹے معرکے سر کرنے کی پرانی ڈاکٹرائن بری طرح فلاپ ہو چکی ہے۔ اس کا اظہار ماضی قریب میں ہماری اعلیٰ عسکری قیادت نے کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کو بیرونی نہیں اندرونی دشمنوں کا سامنا ہے۔ دہشت گردی کے اس محاذ پر ہماری بہادر افواج سینہ سپر بھی ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ نہیں‘ تنازعات طے ہونے چاہئیں۔ ان تنازعات میں کشمیر، پانی، سرکریک، سیاچن اور ہمارے مشترکہ بارڈر شامل ہیں‘ جن پر کشیدگی کم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ تمام تر حقیقت پسند تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کا نو منتخب بھارتی وزیر اعظم مودی کی حلف برداری کی تقریب میں راشٹریہ بھون دہلی جانا ہر لحاظ سے ایک اچھا قدم تھا۔ 
پیپلز پارٹی نے جس قسم کی نیک تمنائوں کا اظہار میاں نواز شریف کے دورۂ بھارت کے حوالے سے کیا‘ وہ وتیرہ روایتی مخالف سیاسی جماعتوں کا نہیں بلکہ گھر کی بڑی بوڑھیوں کا ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے حکومت کے لیے اس قسم کی ''مادرانہ شفقت‘‘ کو جتنا سراہا جائے کم ہے کیونکہ حکومت کو بہت سی سوتیلی جماعتوں کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ پیپلز پارٹی کی سپرٹ خاص حالات میں خالصتاً جمہوری رہتی ہے جبکہ اس کے مخالفین اسے آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ عمران خان اور تحریک انصاف نے وزیر اعظم نواز شریف کے دہلی جانے کی مخالفت نہیں کی؛ تاہم جب نواز شریف چلے گئے تو کپتان خان نے فرمایا کہ ''وزیرستان میں پاکستان سے علیحدگی کی باتیں کی جا رہی ہیں اور وزیر اعظم کو بیرونی دوروں سے فرصت نہیں مل رہی‘‘۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ بھارت سے معاملہ کرنے میں پھونک‘ پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔ پیپلز پارٹی کی طرح متحدہ بھی بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری چاہتی ہے؛ تاہم جماعت اسلامی نے بھارت اور پاکستان کے تعلقات کے سلسلہ میں پرانی ڈاکٹرائن کو ہی رائج رکھنے کا نعرہ بلند کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ کشمیر کا تنازع حل کیے بغیر خطے میں امن قائم نہیں ہو سکتا‘ مزیدبرآں دونوں ملکوں میں دریائوں کے پانی کے علاوہ دوسرے تنازعات بھی حل ہونے چاہئیں۔
اب جماعت کو یہ کون بتائے کہ معاملات طے کرنے کے لیے فریق دوم سے ملاقات تو کرنا ہوتی ہے۔ 66 سال پرانے تنازعات سوشل میڈیا کی مفت سہولیات وائبر یا واٹس ایپ پر تو حل نہیں کیے جا سکتے۔ راشٹریہ بھون دہلی میں سجائی گئی تقریب کی براہ راست کوریج دیکھی۔ ہمارے محبوب وزیر اعظم سب سے زیادہ ڈیشنگ لگ رہے تھے۔ مون موہن سنگھ کے ساتھ بیٹھے نواز شریف اور بھی زیادہ حسین دکھائی دے رہے تھے۔ جونہی میاں صاحب پنڈال میں داخل ہوئے لگ بھگ سبھی لوگوں نے اپنی نشستوں سے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں جس سے صاف ظاہر ہوا کہ وہاں سبھی پاکستانی وزیر اعظم کے منتظر تھے۔
میاں صاحب کو راشٹریہ بھون میں دیکھ کر مجھے اپنا دورۂ بھارت یاد آ گیا۔ یہ دسمبر 2011ء کی بات ہے‘ جب میں برادرم مکرم سہیل احمد المعروف عزیزی کے ساتھ دلیپ کمار صاحب سے ملاقات کرنے بھارت گیا تھا۔ ممبئی سے دلیپ کمار صاحب کا دیدار کرکے ہم دہلی لوٹے تو ہمارے ساتھ شام چوراسی گھرانے کے ذہین سپوت گلوکار رفاقت علی خاں بھی تھے۔ راشٹریہ بھون کی پُرشکوہ اور وسیع عمارت کو دیکھ کر رفاقت علی خاں نے از راہ تفنن کہا تھا: ''اگر راشٹریہ بھون کے رقبے کی دس مرلہ ہائوسنگ سکیم والی پلاٹنگ کی جائے تو ''قوم‘‘ کو کتنا فائدہ ہو گا؟‘‘۔ رفاقت علی خاں کی طرف سے ادا کئے گئے ایک ہی جملے نے قومی سیاست کے ان گنت گورکھ دھندوں کو دلنشیں ''سیاسی جگت‘‘ کا عنوان دے دیا تھا۔ اس پر ہم نے انجوائے کرنے کے ساتھ ساتھ کف ِافسوس بھی ملا کہ کس طرح سے ہم بحیثیت قوم ذاتی مفادات کے پلازے تعمیر کرنے کے لیے قومی یادگاروں کو مسمار کر دیتے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کو راشٹریہ بھون میں دیکھ کر مجھے 2000ء میں کیا گیا اپنا
پہلا دورۂ بھارت بھی یاد آیا۔ مجھے یاد ہے پاکستان سے بھارت داخل ہونے کے بعد پاکستانی 50 ہزار روپیہ 90 ہزار بھارتی کرنسی میں بدل گیا تھا۔ لگ بھگ 14 سال بعد پاکستانی روپیہ ڈالر سمیت انڈین کرنسی کے ہاتھوں بھی مسلسل مار کھا رہا ہے۔ ان چودہ برسوں میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا‘ اس حقیقت کا تجزیہ کرنا بہت ضروری ہے۔ ان برسوں میں بھارت کی سوچ میں کوئی مثبت تبدیلی رونما نہیں ہوئی‘ مگر سچائی یہ ہے کہ بھارت ہم سے کئی گنا بڑی معیشت کا مالک ہے۔ ہمیں اس کی نقالی کرنے کے بجائے اسے اپنے لیے موزوں رستوں پر لانا ہو گا، اسی میں ہماری بھلائی ہے۔ اگر ان رستوں پر چلتے ہوئے بھارت کی وسیع آبادی کا بھی بھلا ہو جائے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
اعتراض کیا جا رہا ہے کہ میاں اینڈ مودی ملاقات میں بھارتی وزیر اعظم کی طرف سے ممبئی حملوں کے ذمہ داروں اور دہشت گردی کی روک تھام کی بات کی گئی جبکہ پاکستانی وزیر اعظم مسئلہ کشمیر سمیت بلوچستان میں بھارتی خفیہ اداروں کے ملوث ہونے کے شواہد موجود ہونے کے باوجود چپ رہے۔ خارجہ امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف نے بھارت جا کر کوئی غلطی نہیں کی بلکہ ان کے اس قدم کو خطے میں امن قائم کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔ جہاں تک تیز گام نریندر مودی کی طرف سے ''دعوت ولیمہ‘‘ (حلف برداری کے دوسرے دن) ہی پاکستان کے ساتھ اٹ کھڑکا لگانے کی پالیسی کا معاملہ ہے تو اسے پذیرائی نہیں ملی۔ پاکستان اور بھارت کی پریم کہانی جو Love and Hate کے جذبات سے بھرپور ہے‘ اس فلم کے سکرین پلے سے ''چلو یونہی روٹھے رہو‘‘ والے سونگز ایڈٹ کر کے ''تجھ کو اپنا نہ بنایا تو میرا نام نہیں‘‘ والے ہارڈ ٹریک شامل کرنا ہوں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں