"TSC" (space) message & send to 7575

ایڈوانس ایف آئی آر

یہ ایڈوانس ایف آئی آر کیا ہوتی ہے؟ ایڈوانس سائی، بیعانہ اور سپاری وغیرہ کی سماجی اصطلاحیں کس کس برادری‘ محکمے اور ادارے میں رائج ہیں‘ اس کی تشریح بعد میں کریں گے۔ سب سے پہلے ایڈوانس ایف آئی آر پر بات کر لیتے ہیں۔ یہ ایڈوانس یا پیشگی اطلاع بھی ہوتی ہے اور وارننگ بھی‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی ایسے فعل، عمل اور سازش کو پہلے سے بے نقاب کر دیا جائے‘ جس سے کسی فریق، گروہ، سیاسی جماعت یا حکومت کو نقصان پہنچ سکتا ہو۔ حکومت کے خلاف ایسی ہی ایک ایڈوانس ایف آئی آر شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری درج کرانے کی بات کر رہے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام اور خاص طور پر نون لیگ سے تعلق رکھنے والے وزرا پروفیسر قادری کی ایف آئی آر کو ''کینیڈین بابا کا ڈرامہ‘‘ قرار دے رہے ہیں‘ لیکن ہماری سیاسی تاریخ میں معمولی اور من گھڑت ایف آئی آروں کے نتیجہ میں چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو جیسے طاقتور سیاسی لیڈر کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا‘ لہٰذا کسی بھی ایڈوانس ایف آئی آر کو صرف ڈرامہ نہ سمجھا جائے۔ سوچے سمجھے منصوبوں، سازشوں، ایف آئی آروں اور ایسے حادثات کے لیے ہی کہا گیا ہے کہ ؎
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
ہمارے ہاں ایڈوانس ایف آئی آروں اور حادثات کا رواج کم و بیش آغاز سے ہی رائج ہے۔ پھر جب یہ زیادہ فروغ پا گیا تو اہل وطن نے اسے اپنی زندگی کا معمول سمجھ کر قبول کر لیا۔ بقول محسن نقوی ہمارے ہاں روز تازہ جنازوں کے جلوس نکلتے ہیں اور ہر روز نئے غموں کے مہورت سجتے ہیں، لہٰذا اب حادثے سے بڑا حادثہ یہ ہوا کہ لوگ حادثے کو دیکھ کر رکتے نہیں ہیں ؎
حادثے سے بڑا حادثہ یہ ہوا 
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
کراچی ایئرپورٹ پر ہونے والی دہشت گردی اور اس طرح کے حادثات سے نمٹنے کا جو مظاہرہ ہم نے نجی ٹی وی چینلز پر دیکھا ہے‘ اس کے بعد کسی بھی قسم کی ایمرجنسی سے نمٹنے کی تمام تر ذمہ داری کسی ادارے پر ڈالنے کے بجائے اوپر والے پر ڈالی جا سکتی ہے۔ اس خیال کو حتمی شکل اس لیے دے دینی چاہیے کہ کراچی ایئرپورٹ پر 34 سے زائد ہلاکتوں کے چند گھنٹے بعد ہی دہشت گردوں نے ایئرپورٹ کے احاطہ میں واقع اے ایف ایس کی اکیڈمی اور گرلز ہاسٹل پر فائرنگ کر دی۔ ہر ٹی وی چینل ساجھے کی Exclusive کوریج کے دعویٰ کے ساتھ کراچی ایئرپورٹ کو جلتا ہوا دکھا رہا تھا۔ یوں دکھائی دے رہا تھا کہ ایئرپورٹ کے اندر دہشت گردوں کا قبضہ ہے اور باہر الیکٹرانک میڈیا کے جانبازوں نے اپنا تسلط قائم کر رکھا ہے۔ دہشت گردوں کے حملے کی لائیو کوریج کے لیے میڈیا کی ان گنت گاڑیاں اطراف میں کھڑی کر دی گئیں۔ سانحہ کی کوریج کرنے والے جانباز رپورٹروں نے ایک ایک کا نام لے کر جب صوبائی اور وفاقی متعلقین کی غیرحاضری لگانی شروع کی تو سبھی اپنی اپنی نام نہاد گُڈول بچانے کے لیے ایئرپورٹ پر آدھمکے جس سے ریسکیو ٹیموں کے لیے راستے بند اور کولڈ سٹوریج میں پھنسے سات غریب خاکستر ہو گئے۔ سانحات کی کوریج کرتے ہوئے ہم آزادیٔ صحافت کی اپنی پٹاری اگر تھوڑی دیر کے لیے بند بھی کر دیں تو اس سے آسمان آزاد صحافت کے سر پر نہیں گر جائے گا۔ ایئرپورٹ سانحہ کی رپورٹنگ کرنے والے بعض جانبازوں کی جانبداری اس وقت طشت از بام ہو گئی جب ان کی آزاد صحافت کا سارا بہائو نچلی اور سیاسی آبادیوں کی طرف تھا۔
یہ کس قسم کا اعزاز ہے کہ ہم ملک کے ایسے مقام (ایئرپورٹ) کو دہشت گردوں کے قبضے میں براہ راست جلتا ہوا دکھائیں‘ اس دہشت ناک منظر کے بیک گراونڈ میں گولیوں، دھماکوں، انسانی چیخوں اور ایمبولینسوں کے ہوٹرز کی آوازوں کی لائیو کوریج کریں تاکہ غیر تو غیر ہمارے اپنے بھی اس طرف کا کبھی منہ نہ کریں۔ کراچی ایئرپورٹ کے سانحہ کے بعد ہمیں اپنا ٹورازم ڈیپارٹمنٹ بند کر دینا چاہیے۔ بعض ٹی وی چینلز نے خبر نشر کی کہ ایئرپورٹ پر کھڑے طیارے جل رہے ہیں لیکن بعدازاں مختلف ٹیلی وژن (دنیا نیوز نہیں) کے نیوز اینکروں نے چیخ چیخ کر بتانا شروع کیا کہ کسی طیارے کو کچھ نہیں ہوا۔ ذمہ دارانہ برقی صحافت کے علمبردار متذکرہ خبر بھی Exclusive ہی نشر کر رہے تھے۔ 
اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ جتنے فوجی اور سویلین ''انقلاب‘‘ ہمارے ہاں لائے گئے ہیں‘ کوئی دوسری قوم ہوتی تو کب کا اس شغل سے توبہ کر چکی ہوتی‘ لیکن ایک ہم ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہم پر بے موسمے انقلاب لادنے کی سرتوڑ کوششیں جاری 
رہتی ہیں۔ پروفیسر قادری صاحب پیپلز پارٹی کے دور میں بھی اسلام آباد آئے تھے‘ تب چونکہ چوہدری برادران حکومت میں شامل تھے اس لیے انہوں نے انقلاب ''رفع دفع‘‘ کرا دیا تھا۔ اب چونکہ چوہدری برادران حکومت میں شامل نہیں اس لیے ایک عدد انقلاب کی اشد ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ جہاں تک شیخ رشید کے انقلاب کی بات ہے تو جنرل محمد ضیاالحق سے لے کر دو مرتبہ میاں نواز شریف اور پھر آٹھ سال تک جنرل پرویز مشرف کی سنگت میں لائے گئے‘ ان کے شیخی انقلاب دیکھ چکے ہیں۔ ان پے در پے انقلابوں سے ہمارا معدہ خراب ہونے کے باعث اب تو ہمیں کھٹے ڈکار آ رہے ہیں لہٰذا بھانت بھانت کی انقلابی حلیمیں کھانے سے اچھا ہے کہ اب ہم جمہوری پھکی سے اپنا نظام ہضم درست کریں۔
جیسا کہ کالم کے آغاز میں عرض کیا تھا‘ ایڈوانس، بیعانہ، سائی اور سپاری ہمارے ہاں رائج اصطلاحیں ہیں۔ بیعانہ جائیداد کی خریدوفروخت میں دیا جاتا ہے۔ اس قسم کے لین دین میں بعض بدنصیب اپنا ورثہ اور اثاثہ بھی بیچ دیتے ہیں۔ سائی ہیجڑوں کو اور سپاری پیشہ ور قاتلوں کو دی جاتی ہے۔ ہیجڑے اور ٹارگٹ کلرز دونوں پروفیشنل ہوتے ہیں اس لیے ہیجڑہ سائی کے بغیر ٹھمکا اور ٹارگٹ کلر سپاری کے بغیر اپنا نشانہ ضائع نہیں کرتا۔ متذکرہ اصطلاحات کی حسب منشا تشریح پھر کریں گے فی الحال ایڈوانس ایف آئی آر کی بات کرتے ہیں۔ ایڈوانس ایف آئی آر کا معاملہ اس ورلڈ سیمینار کے ایجنڈے سے مماثلت رکھتا ہے جہاں امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، چین، جاپان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایسے اداروں کے 
سربراہان تشریف فرما تھے جو اپنے اپنے ممالک میں امن و امان قائم کرنے کے ذمہ دار تھے‘ لیکن پاکستانی افسر بالا نے بین الاقوامی مندوبین کو ہکا بکا کر دیا تھا۔ سوال کیا گیا کہ آپ اپنے ہاں کسی مجرم تک پہنچنے اور اسے سلاخوں کے پیچھے کھڑا کرنے کے لیے کتنا وقت صرف کرتے ہیں؟ امریکی خفیہ افسر نے کہا: ہمیں مجرم تک پہنچنے کے لیے صرف 48 گھنٹے چاہیے ہوتے ہیں۔ کینیڈین پولیس افسر نے اپنے اور مجرم کے درمیان اس فاصلے کو سمیٹنے کا دورانیہ 36گھنٹے بتایا۔ سمارٹ جاپانی افسر نے اپنے کندھے اچکاتے ہوئے کہا کہ جاپان میں یہ کام 24 گھنٹوں میں سرانجام دیا جا رہا ہے۔ برطانوی افسر نے کہا: آپ سب کا طریقہ کار پرانا اور روایتی ہے‘ ہمارے جوان بڑے سے بڑے مجرم کو صرف 12 گھنٹوں میں گرفتار کر لیتے ہیں۔
سب سے آخر میں پاکستانی افسر کی باری تھی۔ سب اس کی جانب دیکھ رہے تھے کہ وہ کیا انکشاف کرنے والا ہے۔ پکے رنگ کے ہمارے ڈھیلے ڈھالے افسر نے اپنی لٹکی ہوئی بیلٹ کو ناف کے عین سامنے لاتے ہوئے ہونٹوں میں دبا کوڑا سگریٹ ہاتھ میں تھاما‘ وہ کچھ دیر سگریٹ کو مسلتا رہا اور پھر اس نے سگریٹ ایش ٹرے میں پھینکنے کے بجائے اپنے بوٹ سے مسل دیا۔ یہ سب ٹشن اس لیے تھا کہ سیمینار کے مندوبین اس کے سٹائل سے متاثر ہوں۔ پاکستانی افسر بولا 48 نہ ہی 12گھنٹے ۔ پھر اس نے چٹکی بجاتے ہوئے کہا: ہم تو مجرم کو واردات سے ایک ہفتہ پہلے گرفتار کر لیتے ہیں۔ بین الاقوامی مندوبین ہمارے اس دیسی جیمز بھانڈ کی طرف رشک بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے اور ہمارا کسبی (پروفیشنل) یہ سوچ کر زیر لب مسکرا رہا تھا کہ مجرم تو خودہی پکڑا جانا ہے کیونکہ وہ کوئی غیر تھوڑی ہوتا ہے۔ وہ صاحب بہادر کا نائب ہوتا ہے۔ یہ ہوتا ہے مجرم تک پہنچنے کا ایڈوانس طریقہ‘ ایڈوانس ایف آئی آر کا آئیڈیا بھی اسی سے مستعار لگتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں