آصف علی زرداری کو میاں نوازشریف کی حکومت کی ''بیمہ پالیسی‘‘ قراردیاجارہاتھا لیکن زرداری صاحب نے کہہ دیا کہ ''میاں صاحب وزیر اعظم بنیں قوم نے انہیں بادشاہ منتخب نہیں کیا‘‘۔ تیسری دنیا میں بادشاہ اوربادشاہت جیسے ادارے تو معدوم ہوچکے ہیں لیکن جنتا، رعایا اورعوام پہلے سے زیادہ تعداد میں موجود ہیںجن پر حکمران طبقہ حکمرانی کرتاہے۔ ہمارے ہاں آمریت اورجمہوریت کے شکل میں بادشاہت آتی جاتی رہتی ہے ۔ میاں گھرانے میں تو دو،دو بادشاہ ہیں۔۔۔۔۔ وفاق میں بڑے میاں اورصوبے میں چھوٹے میاں بادشاہ ! بادشاہوں کی جوڑی کے علاوہ مستقبل کے لئے بھی سڑکوں ، پلوں ، انڈر پاسزکی تعمیر کے ساتھ زیر تربیت شہزادوں اورشہزادیوں کو بادشاہ اورملکائیں بنانے کے قومی منصوبے جاری ہیں۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں تھوک کے حساب سے دانشور اورتجزیہ نگار موجود ہیں جو اپنی اپنی دف کے لیڈر ، رہنما اور قائد کو تاریخ کے ساتھ ساتھ زمانہ حال میں بھی سرخرو کرنے میں جتے رہتے ہیں۔ یہ سب اس لئے ہوا کہ ملک میں الیکٹرانک میڈیا کے متعارف ہونے کے بعد کئی ایک ُسپر نیچرل ہیرو مارکیٹ کئے گئے۔ میڈیا کے یہ ٹارزن اور سند باد آئے دن کوئی نہ کوئی ٹارگٹ، ایونٹ اورتاریخی موڑ منتخب کرکے پوری قوم کو اس منزل کی جانب دوڑا دیتے ہیں۔ اسی کوشش میں پوری قوم کی سانس پھولی رہتی ہے۔ تازہ ترین سنگ ِمیل عمران خان اورپی ٹی آئی کا آزادی مارچ ہے جو وہ 14اگست کو ڈی چوک میں کرنا چاہتے ہیں۔ آزادی مارچ کا پرانا نام سونامی مارچ تھا، مولانا طارق جمیل اورمولانا نعیم بٹ کی دعوت پر عمران خان نے سونامی مارچ کا عنوان بدل کر آزادی مارچ رکھ دیا ہے۔ مولانا طارق جمیل ، عمران خان کو حج کی سعادت حاصل کرنے کی دعوت دینے گئے تھے ۔ مولانا یہ نیک کام کرتے رہتے ہیں ،انہوں نے اس سے قبل اداکارہ نرگس،اس کی چھوٹی بہن دیدار، روبی انعم سمیت دیگر اداکارائوں کو حج کی دعوت دی تھی ۔ ادکارہ نرگس کو میں اس وقت سے جانتا ہوں جب اس کانام غزالہ تھا اوریہ اپنی والدہ بلو کے ہمراہ میرے پاس آئی تھی اور میں نے اسے فلم انڈسٹری میں متعارف کروایا تھا۔ یہ 90ء کی دہائی کے آغاز کی بات ہے جب میں جیل روڈ لاہور سے شائع ہونے والے قومی روزنامے میں فلم ایڈیشن کا انچارج ہوا کرتاتھا۔ انجمن، نیلی، نادرہ اورریما کے ہوتے ہوئے میں نے غزالہ کو نرگس بنانے کے لئے ''آپریشن جیرونیمو‘‘(امریکیوں کا ایبٹ آباد میں کیا گیا آپریشن) کیسے کیا ؟ یہ دلچسپ کہانی کسی دن پھر سنائوں گا۔ فی الحال مولانا طارق جمیل کی نیکیوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔
مرد فنکاروں میں قوی ، خالد عباس ڈار، افتخار ٹھاکراورامان اللہ سمیت دیگرکئی مولانا کی دعوت پر یہ سعادت حاصل کرچکے ہیں۔ سیاستدانوں میں مولانا طارق جمیل نے حج کی سعادت حاصل کرنے کے لئے کس کس کو دعوت دی، اس بابت اپنے مہربان دوست مولانا نعیم بٹ اورجواد وسیم صاحب سے پوچھوں گا،دونوں مولانا طارق جمیل کے معتمد ِخاص ہیں ۔ جواد وسیم کو آپ سبھی جانتے ہیں، وہ دنیانیوزکے مقبول پروگرام اورقہقوں کا فیفا ورلڈ کپ جیتنے والی ''مذاق راتی ٹیم ‘‘ کے فل بیک ہیں۔ مولانا طارق جمیل عموماً کن لوگوں کوحج کی دعوت دیتے ہیں،ا س کا اندازہ درج بالاحاجیوں کی فہرست دیکھ کر ہوجاناچاہیے۔ غالب کے زمانے میں دلی کی مشہور گائیکہ جب حج کرنے گئی تو میرزا نے کہاتھا ؎
بجا ہے، شیریں اگر چھوڑ دلّی حج کو چلی
مثل ہے، نو سوچوہے کھا کے بِلّی حج کو چلی
پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ حکومت کے لئے سب سے بڑا طعنہ آصف علی زرداری کا نام ہی بنادیاگیاتھا۔ ایسا ہی کچھ اب نون لیگ اور میاں نوازشریف کی حکومت کے ساتھ ہورہاہے۔ ایک ولائتی سروے کے مطابق پی ٹی آئی کی مقبولیت 33 فیصد، پی پی پی 19فیصد جبکہ نون لیگ کی عوامی مقبولیت گر کر صرف 17فیصد رہ چکی ہے۔ عمران خان، بلاول بھٹو اور نوازشریف کی مقبولیت بھی بالترتیب پہلے، دوسرے اورتیسرے نمبر پر آچکی ہے۔ متذکرہ سروے میں صوبائیت کا رجحان بھی سامنے آیا ہے جو پہلے سے ہماری سیاست میں موجود ہے۔ سندھ میں بلاول بھٹو کی مقبولیت 70فیصد، نوازشریف 5 فیصد جبکہ عمران خان کی مقبولیت صرف 2فیصد تک گر گئی ہے۔ اسی طرح پنجاب میں پیپلز پارٹی کے نام لیوا کم کم دکھائی دیتے ہیں۔ نوازشریف کے مقابل شہباز شریف کی مقبولیت قائم ودائم ہے حالانکہ 2013ء کے انتخابی مہم میں(چھ مہینے، سال اوردوسال) میں بجلی فراہم کرنے کے نعرے نوازشریف نے نہیں، شہباز شریف نے لگائے تھے، لیکن اس کا نقصان شہبازکے بجائے نوازکو اٹھانا پڑ رہاہے۔ میرے خیال میں نوازشریف کی مقبولیت کا گراف کم ہونے سے میاں برادران کی اجتماعی سیاست کو دھچکا لگے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شریفوں کی سیاست کا برانڈ نیم شہباز نہیں نواز شریف ہیں۔ پیپلز پارٹی باری لے چکی، نون لیگ اپنی باری لے رہی ہے جس میں نوازشریف وزارت عظمیٰ اورخادم اعلیٰ پنجاب اپنی ہیٹرک سے بھی اوپر جاکر کھیل رہے ہیں۔ اب اگلی باری عمران خان کی دکھائی دے رہی ہے۔ عمران خان آنے والے دنوں میں مولانا طارق جمیل کے ہمراہ حج کے سفر پرروانہ ہوںگے اور ان کے سیاسی ہم سفراپنا اپنا ثواب ان کی نذرکرتے ہوئے چاہیںگے کہ انہیں اقتدارکے سفر میں یوں ساتھ رکھا جائے جیسا غالب نے تجویز کیاتھا ؎
غالب گر اس سفر میں مجھے ساتھ لے چلیں
حج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی
پیپلز پارٹی کے حوالے سے کہاجاتا ہے کہ صرف سند ھ میںسکڑ گئی ہے؟ پاکستان کے نقشے پر دیکھیں تو پیپلز پارٹی کی حکومتیں سندھ کے ساتھ ساتھ آزاد جموں وکشمیر اورگلگت بلستان میں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ اس کے برعکس نون لیگ کی حکومت صرف پنجاب میں ہے۔ آصف علی زرداری کا وہ بیان جس میں منتخب وزیراعظم کے فرائض ادا کرنے اوربادشاہ بننے سے پرہیز اختیار کرنے کا مشورہ دیاہے، ہمارے خیال میںوہ اکسیری نسخہ ہے۔ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ میاں نوازشریف کو چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کرانے سے آگے بڑھنا چاہیے تھا۔ میاں صاحب کو چاہیے تھاکہ وہ ان چار حلقوں میں دوبارہ پولنگ کروا دیتے،اس سے ان کے سیاسی قد میں مزید اضافہ ہوتا۔ پاکستان میں اقتدار کا کھیل سانپ سیڑھی سے زیادہ پیچیدہ ہوتاہے۔ جوں جوں 14اگست قریب آرہاہے حکومتی سانس کی تال تیز ہورہی
ہے۔ جوائنٹ فوٹو شوٹس میں وزیر اعظم اورآرمی چیف اپنے فرائض منصبی ادا کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ تبصرے کئے جارہے ہیںکہ دونوں میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ دوسری طرف چوہدری شجاعت کی پریشانی بھی دور ہوگئی ہے، وہ پریشان تھے کہ 14اگست کے دن ڈی چوک میں پریڈکیوں ہورہی ہے؟ انہوں نے کہا: ''میرے دور میں تو پریڈ ایوان صدر یا پارلیمنٹ کے باہر ہواکرتی تھی‘‘۔ چوہدری شجاعت نے اپنے دور کا ذکر یوں کیاہے جیسے وہ دور جنرل ایوب، جنرل ضیااورجنرل مشرف کی طرح طویل تھا۔ جنرل مشرف نے چوہدری صاحب کو ایک آئینی ضرورت کے تحت 90دن کے لئے وزیر اعظم بنایاتھا جسے عباس اطہر مرحوم المعروف شاہ جی نے ''حلالہ وزیر اعظم ‘‘ کانام دیاتھا۔
ہماری آبادی ،جس کے بارے میں گمان کیاجارہاہے کہ 22 کروڑ تک پہنچ چکی ہے، اس کے لئے روٹی ،پانی ،علاج معالجہ اور بجلی پید ا کرنا مشکل تو ہے لیکن ناممکن نہیں۔ لیکن جب تک نندی پور پاور پروجیکٹ جیسے دکھاوے کی سیاسی وارداتیں ہوتی رہیں گی‘ عوام کے مسائل حل نہیںہوں گے۔ عوامی مسائل حل نہ ہونے کی وجہ صرف حکمرانوں کی کرپشن اورنااہلی نہیں، اس ''کارِ خیر ‘‘ میں وہ قوتیں بھی اپنا حصہ باقاعدگی سے ڈالتی رہتی ہیںجن کے مفادات جمہوریت سے ٹکراتے ہیں۔ نام نہاد جمہوریت کا توڑ نام نہاد انقلاب ڈھونڈا گیاہے۔ عاصمہ جہانگیر نے کینیڈین برانڈ انقلاب اورساٹھ سالہ ''اینگری ینگ مین ‘‘ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاہے کہ ہمیں انقلاب نہ سکھائیں۔ آصف زرداری نے وزیر اعظم کو یاد دلایا کہ وہ بادشاہ نہیں ہیں جبکہ چوہدری پرویزالٰہی نے میاں نوازشریف کو 'میراسلطان‘ قراردیاہے۔ جمہوریت،نظام کی تبدیلی اورانقلاب کی نوٹنکی جاری ہے۔ ا نجام وہی ہوگا جو پہلے ہوتاآیاہے۔