"TSC" (space) message & send to 7575

محمد رفیع کو دلیپ کمار کا خراج ِعقیدت

گزشتہ 15برسوں کے درمیان بالی وڈ کے سپرسٹارز سے لے کر جونیئر آرٹسٹوں کے ساتھ میری ان گنت ملاقاتیں رہیں۔ یہ سوال میں نے سبھی فنکاروں سے پوچھا: ''آپ کے نزدیک بھارتی فلم انڈسٹری کا سب سے نیک اورعظیم انسان کون ہے؟‘‘ اس کے جواب میں ہندو، مسلم ،سکھ ،عیسائی ،پارسی اوردوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے تمام فنکاروں نے گلوکار محمد رفیع کا نام لیا۔ میرے اس سروے کے مطابق محمد رفیع، سنیل دت اوردلیپ کمار فنی کمال کے ساتھ ساتھ اپنے سینے میں ہمدرد دل بھی رکھتے تھے۔ محمد رفیع کے پرستاروں میں بھارت کے سابق وزرائے اعظم پنڈت جواہرلعل نہرو،اندرا گاندھی ، لال بہادر شاستری اور سابق صدر ڈاکٹر ذاکر حسین سمیت پوری اسٹیبلشمنٹ شامل رہی ہے۔ بھارتی میڈیا نے محمد رفیع کو شہنشاہ موسیقی اورگیتوں کے سمراٹ کا خطاب دے رکھاتھا۔ محمد رفیع کے فن کی وسعت تھی کہ انہیں بیسویں صدی کے تان سین مانے جانے والے استاد سلامت علی خاں اور ایک عام انسان یکساں پسند کرتے تھے۔ محمدرفیع کا بچپن اورلڑکپن لاہورکے علاقہ بلال گنج چومالہ اوربھاٹی گیٹ کے اندرونی علاقے میں گزرا ۔ بعض بھارتی جرائدکے مطابق محمد رفیع کی پیدائش بھارت کے شہر جالندھر کے ایک چھوٹے سے گائوں کوٹلہ سلطان میں ہوئی تھی ۔ ایک ویڈیو کلپ میں محمد رفیع یہ بات خود بھی بیان کررہے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق محمد رفیع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ پیدائش کے وقت ان کی والدہ کوٹلہ سلطان سے اپنے کسی عزیزکے ہاں سیالکوٹ آئی ہوئی تھیں کہ محمد رفیع پیدا ہوئے۔ محمد رفیع کی جائے پیدائش کوٹلہ سلطان ہو، سیالکوٹ ہویا لاہور؟وہ ہم سب کے تھے، وہ ہمارے دلوں میں رہتے ہیں ، ان کی نورانی، میٹھی اورجادوئی آواز ہمیشہ ہماری سماعتوںکو مہکاتی رہے گی۔ 
محمد رفیع کومتعارف کرانے کاسہرا موسیقار شیام سندر کے سر ہے جنہوں نے لاہور میں ہونے والی ایک تقریب میں انہیں سنا اورممبئی آنے کی دعوت دی۔ شیام سندر نے محمدرفیع کو پہلی پنجابی فلم ''گل بلوچ ‘‘میں گوایا جس کے بعدنوشاد، پنڈت گوبند رام اورشیام سندر نے ان سے اردو فلموں کے لئے ابتدائی گیت گوائے، پھر ایک طویل جدوجہد کے بعد محمدرفیع شہنشاہ ِموسیقی اورگیتوں کے سمراٹ کہلائے۔ محمد رفیع نے اپنے کیریئر میں تین نسلوں کے لئے گیت گائے۔انہوں نے پرتھوی راج کپورکے لئے گایااوران کے پوتے رشی کپور کے لئے بھی گایا ۔ رفیع 55سال سات ماہ اورچند دن جئے، اگر وہ لمبی عمر پاتے تو یقیناً پرتھوی راج کے پڑ پوتے رنبیرکپورکے لئے بھی گاتے ۔ انہوں نے جن دوسرے ہیروز کے لئے گایاان میں دلیپ کمار، دیوآنند، گرودت، شمی کپور، پردیپ کمار، سنجیوکمار، منوج کمار، دھرمیندر، راجیش کھنہ ، ونود کھنہ ،امیتابھ بچن، رشی کپور سمیت دیگر شامل ہیں ۔ محمد رفیع نے شمی کپورکے لئے ''چاہے مجھے کوئی جنگلی گایا‘‘ تو لگاشمی کپورگا رہے ہیں اورجب ساحل سمندر پر دلیپ کمارکے لئے یہ گیت گایا ''آج پرانی راہوں سے کوئی مجھے آواز نہ دے‘‘ تو معلوم ہوا دلیپ صاحب ہی گارہے ہیں۔گزشتہ برسوں میں جب کبھی دلیپ صاحب سے بات چیت کا موقع ملامیں نے خاص طور پر رفیع صاحب کا تذکرہ ضرور چھیڑا ۔ ان کے بارے میں دلیپ کمارجو کچھ کہتے ہیں آپ کی نذر ہے:
''رفیع صاحب سے میری گہری دوستی تھی ۔ ہم لوگ کبھی کبھی ایک دوسرے کے گھر بھی آتے جاتے تھے۔ میں جب بھی ان کے یہاں جاتا، وہ گھر کے ایک ایک فرد کی خیریت پوچھتے۔ ہمارے تعلقات ذاتی نوعیت کے تھے اورہماری گفتگو بھی زیادہ تر غیرفلمی موضوعات پر ہوتی تھی۔ رفیع صاحب سے میری ملاقات فلمستان میں ''شہید‘‘ کے سیٹ پر ہوئی تھی جہاں وہ ایک کورس میں حصہ لینے آئے تھے۔ یہ سرسری ملاقات تھی۔ دوسری ملاقات شوکت حسین رضوی کی فلم ''جگنو‘‘ کے سیٹ پر ہوئی جو بھرپور ملاقات تھی۔ اس فلم کے لئے رفیع صاحب نے نورجہاں کے ساتھ مل کر مشہور دوگانہ ''یہاں بدلہ وفاکا، بے وفائی کے سوا کیا ہے‘‘ پردے پر نورجہاں کے ساتھ گایا تھا۔یہاں سے رفیع صاحب اورمیرا ساتھ شروع ہوگیا۔شروع میں موسیقار حضرات میرے لئے مکیش اورطلعت محمود کی آوازایں استعمال کرتے رہے، مجھے ان دونوں فنکاروں کی فنی عظمت کا اعتراف ہے، لیکن مجھے یہ احساس ہوتا تھا کہ ان کی آوازیں میری شخصیت کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ نہیں ہوپاتیں ۔ میں نے نوشاد صاحب سے اس بات کا ذکر کیا۔ انہوں نے میری بات سے اتفاق کیااورفلم ''دیدار‘‘ میں پہلی بار میرے سارے گیت رفیع صاحب کی آواز میں ریکارڈکئے گئے۔ یہ 
سب گیت مقبول ہوئے، فلم بھی بہت مقبول ہوئی اورمیں سمجھتا ہوں کہ اس میں محمد رفیع صاحب کی آوازکا بہت بڑا حصہ تھا۔ اس کے بعد ''آن‘‘ آئی جس میں رفیع صاحب نے میرے لئے الگ انداز میں گانے گائے کیونکہ اس فلم میں میرا رول مختلف تھا۔''آن ‘‘ کے گیت سن کر مجھے یقین ہوا اورنوشاد صاحب بھی مان گئے کہ یہ گیت کوئی اورگلوکار نہیں گا سکتا تھا۔ بس پھر تو میری اوررفیع صاحب کی جوڑی بن گئی۔ ایسا نہیں کہ میرے سارے گیت رفیع صاحب نے ہی گائے ہوں۔ اس دوران میرے لئے طلعت محمود نے ''دیوداس‘‘ گلوکار شبیر حسین نے ''آزاد‘‘کے لئے گایا اوربعد ازاں مہندرکپور سے ''گوپی ‘‘ اورکشورکمار سے ''سگینہ ‘‘ سے گوایا گیا لیکن یہ احساس مجھے ہمیشہ رہاکہ میرے لئے موزوں ترین آواز رفیع صاحب ہی کی ہے۔ ان کے اندر ایک کمال تھا، وہ میری اداکاری ،میرے رول اورمیرے سٹائل کے ساتھ آواز بدلتے تھے۔ مثلاً ''اڑن کھٹولہ ‘‘ میں ان کا انداز اورہے ،''دل دیا درد لیا‘‘ میں اور سٹائل ہے ، ''لیڈر‘‘ میں بالکل مختلف انداز اپنایا اور پھر ''گنگاجمنا‘‘ میں کردار کی مناسبت سے انہوں نے بالکل ہی اچھوتا انداز اختیار کیا تھا۔ ''رام اورشیام ‘‘ میں میرے دو کردار تھے، دونوںکے لئے نوشاد صاحب نے رفیع صاحب کی آواز استعمال کی تھی، لیکن آپ نے محسوس کیاہوگاکہ رام اورشیام کے لئے گائے گیتوں میں انہوں نے ایک فرق ملحوظ رکھا اور یہ وہ مہارت تھی جو رفیع صاحب کا ہی حصہ تھی‘‘۔
دلیپ صاحب نے پھر اس رات کو یاد کیاجب نوشاد صاحب نے سائرہ بانوکو محمدرفیع کے انتقال کی خبر سنائی ۔ دلیپ صاحب بتاتے ہیںکہ ''ان دنوں میری طبیعت کچھ خراب تھی اس لئے سائرہ نے یہ خبر مجھے نہ دی ۔ میں صبح کو اٹھا تو دیکھا کہ سائرہ کی آنکھیں سوجی ہوئی ہیں ۔ معلوم ہواکہ رات بھر روتی رہی ہیں۔ لاکھوں دلوں کو گرمانے والا اور اپنی مدھر آواز سے زندگی کا رس ٹپکانے والااپنی آرام گاہ میں روز ِقیامت تک کے لئے سوگیا تھا۔ رفیع صاحب کے ساتھ تیس بتیس سال کا ساتھ رہا ۔ یادوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جو چراغوں کی قطار کی طرح ذہن میں روشن ہے ۔اس کے ساتھ دلیپ صاحب نے ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے فراق کا یہ شعر پڑھا :
اب تو یادِ رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی 
یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں 
محمد رفیع کے ہم عصر گلوکار اورگلوکارائوں کی سوچ بڑی پروفیشنل تھی، وہ کسی کو ایک پیسہ بھی نہیں چھوڑتے تھے مگر ان کے برعکس محمد رفیع سخی اوردریا دل انسان تھے ۔ جن دنوں محمد رفیع ایک گیت کا معاوضہ 20ہزار روپے وصول کررہے تھے ،اس وقت درمیانے درجے کے پروڈیوسر انہیں جو لفافہ دیتے اس میں صرف 500روپیہ ہوتا لیکن محمد رفیع ایسے درویش منش انسان تھے کہ ناراض نہ ہوتے اور اگلی ڈیٹ پر پھر گانے کے لئے پہنچ جاتے۔ رفیع صاحب پاکستان اورپاکستانی فنکاروں سے والہانہ محبت کرتے تھے۔ مہدی حسن اورغلام علی سمیت ان کی زندگی میں جتنے پاکستانی فنکار ممبئی گئے، محمد رفیع نے انہیں سرآنکھوں پہ بٹھایا۔ محمد رفیع کو ہم سے بچھڑے 34 برس ہوگئے ہیں، لیکن یوں لگتا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ جی رہے ہیں۔ اس تیز رفتار دنیا میں ،جہاں ہر آنے والا لمحہ گزرتے لمحے کو ماضی بنادیتا ہے ،محمد رفیع حال اورمستقبل بن کر زندہ ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں