"TSC" (space) message & send to 7575

بت شکنی

ہم وہ بد قسمت ہیں جنہیں آمریت بھاتی ہے اورنہ جمہوریت سہلاتی ہے۔ اس ملک میں دس دس اورگیارہ گیارہ سال تک آمریت رہی اور پھر اس کے بانجھ پن سے جمہوری اولادیں اورمن کی مرادیں پائی گئیں۔آمریت سے جمہوریت کشید کرنے کا عمل ایسے ہی ہے جیسے کوئی ہیجڑہ صاحب اولاد ہونے کا دعویٰ کرے‘لیکن ہمارے ہاں یہ چمت کار مسلسل ہوتارہاہے ۔قومی قائدین کی محتاط فہرست تیار کریںتو 90فیصد رہنما ایک ہی ٹکسال پر ڈھالے گئے ہیں۔ آرڈر پر تیار کی گئی لیڈر شپ اورجمہوریت جب ایک آنکھ نہیں بھاتی توپھر اپنے ہاتھوں سے تراشے گئے بتوں کو ''پاش پاش‘‘ کرنے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔وطن عزیز میں ان دنوں ''بت شکنی‘‘ کا عمل جاری ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ شیخ الاسلام سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کو 67 سال بعد یاد آیا کہ ملک میں جو جمہوری نظام قائم ہے وہ تو حقیقی جمہوریت ہی نہیں اور اب انقلاب مقصود ہے ۔ان سیاسی قائدین ، ڈاکٹروں ، پروفیسروں اور شیخ الاسلامین سے کہیں زیادہ وژنری تو پھر فیض احمد فیض ہی ہوئے جنہوں نے 50 ء کی دہائی میں ہی کہہ دیا تھا کہ: 
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر 
کہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں 
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر 
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں 
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل 
کہیں تو ہوگا شبِ سست موج کا ساحل
کہیں تو جا کے رکے گا سفینۂ غمِ دل 
1961ء میں ریلیز ہونے والی یش چوپڑا کی فلم ''دھرم پترا ‘‘ جسے نیشنل فلم ایوارڈ اور فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا‘ میں ساحر لدھیانوی کا لکھا ہوا گیت گویا اس دور میں موجودہ حالات کی عکاسی کر گیا تھا: 
اے رہبرِ ملک و قوم بتا 
آنکھیں تو اٹھا، نظریں تو ملا 
کچھ ہم بھی سنیں، ہم کو بھی بتا 
یہ کس کا لہو ہے، کون مرا... ؟
اے عزمِ فنا دینے والو 
پیغامِ بقا دینے والو 
اب آگ سے کیوں کتراتے ہو 
شعلوں کو ہوا دینے والو 
طوفان سے اب ڈرتے کیوں ہو 
موجوں کو صدا دینے والو 
کیا بھول گئے اپنا نعرہ 
اے رہبرِ ملک و قوم بتا 
یہ کس کا لہو ہے کون مرا... ؟
ہمارے سیاسی پروفیسروں اورڈاکٹروں سے سیانے تو بھارتی فلم ڈائریکٹر ہی ثابت ہوئے جنہوں نے نصف صدی سے زیادہ عرصہ پہلے''رہبروں کو نظریں ملانے ‘‘ کے لئے کہاتھا۔ معروف شاعر احمد فراز مرحوم نے آمریت کے دور میں جلاوطنی اور قید و بند جیسی صعوبتیں برداشت کی تھیں۔ انہوں نے جب اس ملک میں جمہوریت کا بُرا حال دیکھا تو شاید انہیں مایوسی ہوئی ہوگی جو انہوں نے یہ کہا: 
نگارِ گل تجھے وہ دن بھی یاد ہوں شاید 
کہ جن کے ذکر سے اب دل پہ تازیانہ لگے 
تیری طلب میں وہ دار و رسن کے ہنگامے 
کہ جن کی بات کریں بھی تو اب فسانہ لگے 
بقدرِ ذوق جلاتے رہے لہو کے چراغ 
کہ تو جب آئے تو یہ گھر نگار خانہ لگے 
ان اشعار میں بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ جمہوریت کو پاکر فراز صاحب کو کچھ خاص خوشی نہیں ہوئی تھی لیکن جیسا آصف علی زرداری صاحب ایک بات بارہا کہتے ہیں کہ ''بدترین جمہوریت آمریت سے بہتر ہوتی ہے ‘‘ اسی طرح اس نظم میں فراز صاحب بھی جمہوریت کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں: 
نگارِ گل یہ تقاضا مگر وفا کا ہے 
کہ اب بھی ہم تیرے وعدوں کا اعتبار کریں 
گزر گئی جو گزرنی تھی سخت جانوں پر 
پر آج تیری جفاؤں کا کیا شمار کریں 
الم گزیدہ سہی، پیرہن دریدہ سہی 
مگر لبوں پہ غمِ دل نہ آشکار کریں 
جبیں سے دھو کے ہر اک نقش نامرادی کا 
نگارِ گل تیرے جلووں کا انتظار کریں 
حکمرانوں اور سیاسی رہنماؤں کے رویّوں کی بات ہو تو منیر نیازی کی شاعری کا تذکرہ کئے بنا بات مکمل نہیں ہوتی۔ منیر نیازی نے انفرادی اورقومی المیے کو درد ِدل کے ساتھ یوں بیان کیاہے کہ: 
میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا 
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا 
میں بہت کمزور تھا اس ملک میں ہجرت کے بعد 
پر مجھے اس ملک میں کمزور تر اس نے کیا 
شہر میں وہ معتبر میری گواہی سے ہوا 
پھر مجھے اس شہر میں نا معتبر اس نے کیا 
شہر کو برباد کر کے رکھ دیا اس نے منیر
شہر پر یہ ظلم میرے نام پر اس نے کیا 
اس غزل کو پڑھ کر یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ منیز نیازی کوئی بھی بات گھما پھرا کر نہیں کرنا چاہتے تھے۔ عمران خان،چودھری برادران اور طاہر القادری جن کی جمہوری حکومت کو بادشاہی نظام قرار دے چکے ہیں اس گھرانے کی ''فیملی پوئم ‘‘ حبیب جالب کی مشہور نظم ''دستور ‘ ‘ ہے ۔یہ نظم خادم اعلیٰ کے جلسوں میں یوں گونجتی رہی ہے جیسے فلم کا ''تھیم سونگ ‘‘ وقفے وقفے بعد پوری فلم میں سنائی دیتا ہے: 
دیپ جس کا محلات میں ہی جلے 
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے 
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے 
ایسے دستور کو، صبحِ بے نور کو 
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا 
آمریت اورجمہوریت کی بابت غالب نے براہ راست تو شاید کچھ نہیں کہامگر میرزا نے ان انسانی خواہشات اور نفسیاتی رویوں کی نشاندہی ضرور کی ہے جن کے تابع ہوکر قائدین اپنی باری کا انتظار کرنے سے پہلے ہی نظام کا ''جھٹکا‘‘ کرنے پر اتر آتے ہیں ؎
نہ دے نامے کو اتنا طول غالب مختصر لکھ دے
کہ حسرت سنج ہوں، عرضِ ستم ہائے جدائی کا
ذاتی طور پر میں کبھی میاں برادران کے نظریات، سیاست اورحکمرانی کے انداز سے متاثر نہیں ہوا‘ لیکن انہیں ہٹاکر کن شہ دماغوں کو لایا جائے گا؟نوازشریف ، شہباز شریف ، اسحاق ڈار، چودھری نثار اورسعد رفیق کے عہدوں پر بالترتیب عمران خان ، شاہ محمود قریشی ، اسد عمر، شیریں مزاری اور جہانگیر ترین کو لانے سے تبدیلی یا انقلاب آجائے گا؟ شیخ الا سلام کے ایسے کتنے ہی ویڈیو کلپس یوٹیوب پر موجود ہیں جنہیں غور سے دیکھنے اورسننے کے بجائے اگر عجلت میں بھی ان پر غور کرلیاجائے تو بقول غالب ''جی کا زیاں‘‘ ہونے کا اندیشہ ہے۔ 
اٹھارہویں صدی کا آغاز غالب کے لڑکپن اورجوانی کازمانہ تھا۔اس زمانے میں جمہوریت اور آمریت کے موجودہ بکھیڑوں کے آثار بھی نہیں تھے لیکن نفع اورنقصان کے ساتھ ساتھ نادان کی دوستی سے جی کا زیاں ہونے کا تصور ان دنوں بھی بدرجہ اتم موجود تھا۔لیکن ہمارے ہاں آئے روز ہمیں کسی نہ کسی نادان دوست کے متھے لگا دیا جاتاہے۔ اے پروردگار! ہمیں ایسے نادان دوستوں سے محفوظ فرما‘ جوآئے روز ہمیں جمہوریت، احتساب، تبدیلی اورانقلاب کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگاکر ہمارا بیش قیمت وقت برباد کردیتے ہیں ؎ 
فائدہ کیا؟ سوچ! آخر تو بھی دانا ہے اسد
دوستی ناداں کی ہے، جی کا زیاں ہو جائے گا
سوال ہے کہ کیا پھر سے ''بت شکنی ‘‘ کاعمل شروع ہوچکا ہے؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں