"TSC" (space) message & send to 7575

لاہور سے نیویارک تک

یہ 10اور 11اگست کی درمیانی رات کا قصہ ہے ۔مجھے لاہور کے علامہ اقبال ایئر پورٹ سے نیویارک کے جان ایف کینیڈی ائیر پورٹ کے لئے فلائٹ پر سوار ہونا تھا۔جیساکہ میں اپنے گزشتہ کالموں میں بیان کرچکا ہوں‘ مجھے قبلہ شیخ الاسلام طاہرالقادری کا ہمسایہ ہونے کا ''اعزاز ‘‘ حاصل ہے۔میڈیا پر قادری صاحب کی گرما گرم تقریروں سے خوفزدہ ہوکر علاقے کو کنٹینروں، خاردارتاروں ، ناکوں اور پنجاب پولیس کے فرض شناسوں نے یرغمال بنا رکھاتھا۔پورے علاقے پر ملیشیا کا رنگ یوں چڑھا ہوا تھا جیسے کبھی افغانستان میں پوست کاشت کی جاتی تھی۔جا بجا ملیشیا کی وردی پہنے پولیس والے یوں دکھائی دے رہے تھے جیسے کھیتوں میں سورج مکھی کے کالے اورپیلے پھول دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن گلو بٹ کی یہ ''جگر پولیس‘‘ سورج مکھی کے بجائے سورج گرہن مکھی زیادہ لگ رہی تھی ۔گارڈن ٹاون سے لاہور ائیر پورٹ تک کا مختصر سفر بھی ناکوں اور کنٹینروں کے باعث امریکہ جیسا طویل لگ رہا تھا ۔یوں امریکہ کے سفر پر روانہ ہونے کے بعد لاہور میں ہی خود کو ''کولمبس‘‘ سمجھنے لگا تھا۔
امریکہ پہنچنے کے لئے میں معروف کالم نگار محترم حسن نثار صاحب کا ہم سفر تھا۔امریکہ روانگی سے قبل حسن نثار دنیا نیوز کے مقبول پروگرام ''مذاق رات ‘‘ میں شرکت کے لئے آئے تو وہاں خوبصورت جملوں کا ٹوئنٹی ٹوئنٹی ہوگیا۔ مذاق راتی ٹیم کے کپتان امان اللہ اور ان کی ٹیم میں شامل جگت ریسلروں کے لئے سکرپٹ میں جو لکھا گیا وہ کچھ یوں تھا‘ امان اللہ: میں نے تو حسن بھائی کا کالم پڑھنا ہی چھوڑ دیا ہے ... میں جس دن حسن بھائی کو پڑھ لوں ... میرا ضمیر مجھے ٹھڈے مارتا ہے۔ سخاوت : میں جس دن حسن بھائی کی تحریر پڑھ لوں ... میرے گریبان کے بٹن ٹوٹ جاتے ہیں... ٹھاکر: میں جس دن حسن بھائی کا کالم پڑھ لوں ... میرے گالوں پر طمانچوں کے نشان پڑ جاتے ہیں... جوادوسیم : میں جس دن حسن بھائی کا کالم پڑھ لوں... مجھے سب کچھ الٹا دکھائی دیتا ہے... امان اللہ: میں تو حسن بھائی کے کالم پر چائے بھی گرم کر لیتا ہوں... سخاوت: میں حسن بھائی کے کالم پر ماحول گرم لیتا ہوں... یہ سب سننے کے بعد حسن بھائی نے میری جانب دیکھتے ہوئے یوں تالی بجائی جیسے وہ الٹی میٹم دے رہے ہوں کہ وہ مجھ سے اس چھیڑ خانی کا ''بدلہ ‘‘ لیں گے۔ حسن بھائی کے ہمراہ لاہور سے براستہ دوحہ قطر نیویارک کا سفر یاد گار رہا جس میں انہوں نے اپنی ذاتی اور صحافتی زندگی کے کئی ایک یاد گار واقعات سنائے۔ وہ سب کچھ کسی اور نشست میں بیان کروں گا۔ 
لگ بھگ تین گھنٹے بعد قطر کے شہر دوحہ کے حمد انٹر نیشنل ایئر پورٹ پر اترا تویوں لگا کہ کسی بہت بڑے ملک کی دہلیز پر کھڑا ہوں۔ دوحہ کا انٹرنیشنل ایئرپورٹ پاکستان کے سات کمرشل ایئرپورٹس سے بڑا ہے۔ پاکستان میں لگ بھگ 139فوجی اور 8کمرشل انٹر نیشنل ائیر پورٹ ہیں۔ سب سے بڑا ایئرپورٹ جناح انٹر نیشنل کراچی ہے۔دوسرے نمبر پر لاہو رکا علامہ اقبال انٹر نیشنل ایئر پورٹ ہے جبکہ دیگر ایئر پورٹوں میں باچا خان ایئرپورٹ، کوئٹہ ایئرپورٹ، ملتان ایئرپورٹ، سیالکوٹ ایئرپورٹ، گوادر ایئرپورٹ اورفیصل آباد انٹر نیشنل ایئرپورٹ پر بھی کمرشل ٹریفک جاری ہے ۔لیکن حمد ایئرپورٹ دوحہ ہمارے تمام ایئرپورٹوں سے ہیوی ویٹ لگا ۔ان میں مقابلہ کرانا ایسے ہی ہے جیسے سیو ن ٹائم مسٹریونیورس آرنلڈ شواز نیگر کا مقابلہ' مسٹر گجرانوالہ‘ سے کرادیا جائے۔ کسی بھی ملک میں داخل ہونے کے لئے ایئر پورٹ کو اس کا دروازہ سمجھا جاتا ہے، اس لیے ضرو ری ہے کہ دروازہ نہ صرف دیدہ زیب ہو بلکہ محفوظ بھی ہولیکن ہمارے گھر، دروازے، کھڑکیاں اورآنگن کچھ بھی محفوظ نہیں۔ برادر اسلامی ملک کا ہائی ٹیک ایئر پورٹ دیکھ کر خوشی تو ہوئی لیکن اپنے ایئرپورٹو ں پر ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں سے متعلق سوچ کر دل بجھ سا گیا۔ 
مجھے یاد ہے 90ء کی دہائی کے آغازمیں لاہور کے پرانے ایئرپورٹ پر دھماکے میں ہلاکتیں ہوگئی تھیں۔ دہشت گردی کی اس واردات میںاسحاق میراثی نامی دہشت گرد ملوث تھاجس نے بعد ازاں اعتراف ِجرم کرتے ہوئے انکشاف کیاتھاکہ اسے ایک ہمسایہ ملک کی خفیہ ایجنسی نے لاہور میں دھماکے کرنے کے صرف چند ہزار روپے دیے تھے۔لاہور ایئرپورٹ پر دھماکہ تو اسحاق عرف ساقے میراثی نے کرائے تھے لیکن کراچی ایئر پورٹ پر دہشت گردی کرنے والے ایسے ''نان میراثی ‘‘ تھے جو دو سے تین روز تک ہماری سکیورٹی کی قوالی کرتے رہے تھے۔ ہمارے ملک میں دہشت گردی اور دھماکے گزشتہ تیس سال سے ہو رہے ہیں۔ یہ سلسلہ کوئٹہ ایئر بیس پر دہشت گردوں کی طرف سے دھماکوں کی شکل میں جاری ہے ۔ 
نیویارک پہنچنے کے بعد متعدد پاکستانیوں سے ملاقات ہوئی جن میں کاروباری حضرات‘ ڈاکٹر ، انجینئر ، کمپیوٹر انجینئر اور دوسرے شعبوں سے وابستہ افراد ملے‘ جو سب کے سب پاکستان کے حالات کے حوالے سے شدید پریشان ہیں۔امریکہ میں پاکستان سے آئے مہمانوں کو کھانے پر مدعو کیاجاتا ہے اور پھر سب لوگ کھانے کے میز پر ٹاک شو برپا کرلیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک پروگرام نیویارک میں پیپلز پارٹی کے سینئر وائس پریذیڈنٹ عرفان میر اور سینئر صحافی محسن ظہیر کی طرف سے دیے گئے عشائیے میں ہوا ۔ تقریب میں لاہو رسے کینیڈا منتقل ہونے والے صحافی ندیم چوہدری، ظہیر الدین بابر، مرزا خاور بیگ، ڈاکٹر پرویز اقبال قریشی، راجہ رزاق ، اچھی میاں، یوسف اور دبئی سے شائع ہونے والے گلف نیوز کے ڈپٹی ایڈیٹر اشفاق احمد سمیت دیگر کئی صحافی شامل تھے۔ امریکہ میں رہنے والے پاکستانی اپنے ملک کے حوالے سے بڑے جذباتی ہیں ۔وہ ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جس کی بنیاد شخصی آزادی اورجمہوریت پر استوار ہے ۔پاکستان ان کاماضی جبکہ امریکہ ان کا حال اورمستقبل ہے ۔وہ اپنا رشتہ پاکستان سے بھی جوڑے رکھنا چاہتے ہیں‘ اس لیے پاکستان ان کا مستقل موضوع ہوتاہے۔سوال کیاگیاکہ کیاعمران خان کے آزادی 
مارچ اور قادری صاحب کے انقلابی جھٹکوں سے نوازحکومت ختم ہوجائے گی؟لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر صحافی اور تجزیہ نگار جو گزشتہ ایک ماہ سے امریکہ میں لنگر انداز ہیں‘ نے جواب دیاکہ ''حکومت جانے کے امکانات 70فیصد تک ہوگئے ہیں‘‘۔
امریکہ میں مقیم پاکستانی‘ جو ہفتے کے 6دن امریکی لوگوں کی طرح ہی زبردست محنت کرتے ہیں‘ حیران ہیں کہ وہ ملک کیاترقی کرے گا جہاں پورا پورا مہینہ چھٹی کی کیفیت طاری رہے، عیدالفطر کے سلسلہ میں 9چھٹیاں کی جائیں اور اگست کا پورا مہینہ یوم آزادی ، انقلاب اور آزادی مارچ کے لئے وقف کردیا جائے۔ امریکہ میں ڈاکٹروں کی تنظیم کے سابق صدر ڈاکٹر پرویز اقبال قریشی کا کہنا تھاکہ پاکستان میں ایسے افراد کو بھی رہنما تسلیم کرلیاجاتاہے جوschizophrenia (نفسیاتی مریض جو خبطِ عظمت میں مبتلا ہو) کے مریض ہوتے ہیں۔ جن دنوں لاہور سے براستہ گجرات آزادی مارچ کی میراتھن ٹرانسمشن جاری تھی‘ نیوز چینلز پر لاہورمیں بنایا گیا آزادی انٹر چینج چوک دکھایاگیا۔ آزادی چوک خادم اعلیٰ کی تعمیراتی ساکھ کا نادر نمونہ ہے ۔میاں شہباز شریف نے آزادی انٹر چینج تعمیر کرایا جبکہ آزادی مارچ اور قادری صاحب کے انقلاب کے شرکا اس پر سے فاتح کی طرح وزیر اعظم میاں نوازشریف سے استعفیٰ وصول کرنے کے لیے اسلام آباد روانہ ہوتے دکھائی دئیے ۔ٹیلی وژن پر ایک رپورٹر کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ '' عمران خان اسلام آباد سے اس وقت ہی واپس آئیں گے جب وہ نیا پاکستان تعمیر کرلیں گے‘‘۔دعا ہے کہ عمران خان نئے پاکستان کی تعمیر کے بعد خیبر پختونخوا کی رینو ویشن (تعمیر نو)کے لئے بھی وقت نکالیں۔ آمین۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں