حکومت نے سوگنڈھا بھی کھا لیا اور کنٹینر بھی ہٹالئے ۔ آزادی اور انقلاب مارچ گل پاشی ،کِیل پاشی اور پتھراؤمیں سے گزرتے ہوئے بالآخر وفاقی دارالحکومت پہنچ ہی گئے ۔کہا جارہا ہے کہ اگلے 96 گھنٹے انتہائی اہم ہیں ۔کنٹینر اور رکاوٹیں ہٹانے کے بعد اب حکومت اپنا اگلا لائحہ عمل تیار کر رہی ہے کہ اس بحران سے کیسے نمٹا جائے ۔دیکھنا یہ ہے کہ وہ حکومت جو دیگر بحرانوں سے نمٹنے کے لئے پانچ سے دس سال کا وقت مانگ رہی تھی‘ چھیانوے گھنٹے میں اسبحران سے کیسے نمٹتی ہے ۔خیر حکومت کے ساتھ تو جو ہو رہا ہے‘ ہو رہا ہے‘ امریکہ کے شہر نیویارک میں میرے ساتھ بہت بُرا ہوا۔ میں جمعہ کے روز نیویارک کے Brighton Beachپر سیر کی غرض سے چلا گیا ۔وہاں پر صرف ضعیف خواتین کو ساحل ِ سمندر کے مخصوص لباس میں دیکھ کر مجھے پتا چلا کہ جمعہ یہاں پر آف ڈے ہوتا ہے اور نوجوان طبقہ صرف ہفتہ اور اتوار کو نکلتا ہے ۔ساحل پر موجود ضعیف خواتین خوبصورت عمارات کے کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی تھیں جنہیں دیکھ کر ایک پل کو یوں لگا کہ جیسے میں ہڑپہ یا ٹیکسلا کے آثارِ قدیمہ میں پہنچ گیا ہوں ۔سچ پوچھئے تو جمعہ کے دن نیویارک کے ساحل پر پہنچ کر جذبات کچھ ایسے ہوئے‘ جیسے پاکستان میں کوئی منگل کے دن چھوٹا گوشت لینے نکل پڑے ۔چونکہ میں Brighton Beach پہنچ چکا تھا اس لئے نیلے سمندر کی منہ زور لہروں ،آسمان پر چھائے ہوئے بادلوں اور ساحل سے اڑ کر آسمان میں مستیاں کرتے ہوئے کبوتروں اور ماحول کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوتا رہا ۔یہ حقیقت ہے کہ پردیس کتنا ہی خوبصورت کیوں نہ ہو ،اپنے دیس جیسا نہیں لگتا لیکن مہذب قوموں کے خوشحال لوگوں کے مطمئن چہرے دیکھ کر دل میں احساس ِ کمتری ضرور پیدا ہوتا ہے ۔
میں امریکہ آتو گیا ہوں لیکن توجہ مسلسل ملکی حالات کی طرف ہے۔ لمحہ بہ لمحہ کوئی پاکستانی چینل لگا کر حالات سے باخبر رہتا ہوں۔ گزشتہ رات جب آزادی مارچ آب پارہ پہنچا‘ تو سب سے پہلے شیخ رشید نے اپنے روایتی انداز میں تقریر کا آغاز ان الفاظ سے کیا کہ ''میں نے لوگوں کا اتنا بڑا ہجوم زندگی میں کبھی نہیں دیکھا ‘‘ ۔یہاں میں شیخ صاحب کو 1986ء کا وہ دن یاد دلا دوں جب محترمہ بے نظیر بھٹو شہید لاہور کے فقید المثال استقبال کے بعد گجرانوالہ تشریف لائیں تو ریلی کا ایک سرا شیرانوالا باغ گجرانوالہ میں اور دوسرا یادگار چوک لاہور میں تھا ۔ مجھے یاد ہے اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد نواز شریف نے بے نظیر بھٹو کے استقبال کے لئے آئے 10لاکھ سے زائد لوگوں کو 50 ہز ار کا مجمع قراردیا تھا۔ اس دور میں ماڈرن میڈیا نہیں تھا، پرنٹ میڈیا تھا‘ جو کنٹرولڈ تھا اس لئے عوام کا وہ ٹھاٹھیں مارتا سمندر صرف یادداشت میں محفوظ ہے ۔آزادی اور انقلاب مارچ میں شریک لوگوں کی تعداد کے حوالے سے متضاد بیانات سامنے آرہے ہیں۔ حکومتی نمائندوں نے ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر شرکاء کی تعداد تین سے چار ہزار ہونے کا دعویٰ کر کے طنزو مزاح سے بھرپور جوابات وصول کئے ۔سرکاری چینل سمیت چند پرو گورنمنٹ چینلز نے تو آزادی مارچ کی باکس آفس رپورٹ وہی بتائی ہے جو پچھلے دنوں ریلیز ہونے والی پاکستانی فلم ''لفنگا ‘‘ کی تھی جبکہ باقی چینلز نے آزادی مارچ کی باکس آفس رپورٹ عید الفطر پر ریلیز ہونے والی سلمان خان کی فلم ''کک‘‘ جیسی بیان کی ہے ۔
حسبِ روایت پاکستان تحریکِ انصاف کے مارچ میں ''میوزیکل ارینجمنٹس‘‘ بہت اچھے ہیں ۔شیخ رشید اور سیف اللہ نیازی کی پُرجوش تقریر کے بعد لالہ عطاء اللہ کا آئٹم سونگ پیش کیاگیا۔ جس کے بعد وزیر ِ اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے حکومت کوآڑے ہاتھوں لیا۔ جوش خطابت کے دوران وہ اس بات سے بالکل بے نیاز دکھائی دیے کہ ان کا صوبہ قدرتی آفت کی زد میں ہے اور ڈیڑھ درجن کے قریب افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔
آزادی مارچ سے ایک دن قبل عمران خان صاحب نے کارکنوں کو کہہ دیا تھا کہ کھانے پینے کی چیزیں اور پانی کی بوتلیں ہمراہ لے کر چلیں جبکہ انقلاب مارچ اس معاملے میں زیادہ منظم دکھائی دیا۔ انقلاب مارچ کی ریلی میں موبائل ٹوائلٹ، موبائل
کچن اور کوکنگ ایکسپرٹس شامل تھے ۔یوں تو تحریک ِ انصاف کے انتظامات بھی ٹھیک دکھائی دے رہے تھے لیکن ایک نجی ٹی وی پر چلنے والی رپورٹ نے ان انتظامات کا بھانڈا پھوڑ دیا ۔رپورٹ میں دکھایا جارہا تھا کہ وفاقی دارالحکومت میں نسوار کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے اور خیبر پختونخوا سے آئے ہوئے پٹھان بھائی انتہائی بے بسی کے عالم میں کہہ رہے تھے کہ چاہے ہمیں روٹی نہ دو پر خدارا ہمیں نسوار فراہم کردو۔ چودھری شجاعت صاحب سمیت وہ تمام شخصیات جنہوں نے شرکاء کے لئے کھانے کا اہتمام کیا‘ انہیں یہ پہلو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے تھا ۔مجھے ڈر ہے کہ نسوار کی اس قلت سے کہیں حکومت ہی فائدہ نہ اُٹھالے۔
آزادی مارچ کی پروموشن پی ٹی آئی کے بہاولپور والے جلسے میں ہی کردی گئی تھی بالکل اسی طرح جیسے یش راج ،کرن جوہر یا شاہ رخ خان کی ہوم پروڈکشن فلم کی پروموشن کی جاتی ہے ۔گو کہ اس وقت اس مارچ کا نام سونامی مارچ تھا ۔نام تبدیل ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے‘ عموماً سنسر بورڈ کی ہدایت پر فلموں کے نام بدل دیئے جاتے ہیں۔ لالی وڈ اور بالی وڈ میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ماضی میں پاکستانی فلم ''خاندانی بدمعاش ‘‘ کا نام سنسربورڈ کے اعتراض کے بعد ''خاندانی بدمعاش عرف دادا ‘‘ اور ''اندھا قاتل‘‘ کا نام ''اندھا قاتل عرف چیخ‘‘ رکھا گیا ۔دوسری طرف بالی وڈ میں بھی اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں جیسا کہ 2002ء میں
ریلیز ہونے والی امیتابھ بچن، اکشے کمار اور ارجن رام پال کی فلم ''آنکھیں ‘‘ جس کا پہلا نام ''آل دا بیسٹ ‘‘ تھا جبکہ 80ء کی دہائی میں ریلیز ہونے والی فلم ''خطروں کے کھلاڑی ‘‘ کا پہلا نام ''تیسری عدالت ‘‘ تھا ۔ان مثالوں کو دیکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ''سونامی مارچ عرف آزادی مارچ‘‘۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد حیرت انگیز طور پر گلو بٹ کا کریکٹر جتنا پاپولر ہوا ہے اتنی قلیل مدت میں کوئی ایکٹر یا کرکٹر بھی فیمس نہیں ہوتا۔ گلو بٹ سب سے زیادہ پاکستان عوامی تحریک کا مجرم ہے لیکن قادری صاحب کی نسبت کپتان خان صاحب کی باتوں سے اس کے لئے زیادہ نفرت چھلکتی ہے ۔اب تو صورت ِ حال اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ کپتان خان صاحب گلوبٹ کے نام کو میاں برادران کے لئے استعارے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ دوسری طرف غنڈہ گردی کی دنیا میں گلو بٹ کنگ خان بن چکا ہے جس کے سامنے کئی بٹ گمنام ہو چکے ہیں ۔ہمارے ملک میں اب تک بننے والی سُپر ہٹ پنجابی فلمیں بدمعاشوں کی زندگیوں پر ہی بنی ہیں لیکن گلو بٹ واحد غنڈہ ہوگا جس کی زندگی پر شاید کامیڈی فلم ہی بنے۔ گلو بٹ فوبیا کے بعد تو ذہن میں گیت بھی اسی طرح کے گونجتے ہیں:
ہم تم ہوں گے گلو ہو گا
ویرانے کا الو ہو گا
اور شعر کچھ اس طرح کے نازل ہوتے ہیں ؎
اب ترے ہجر میں اے فہم و ذکا کے گلو
زہر کپتان کا آیا ہے مرے لہجے میں