خادم اعلیٰ میاں شہباز شریف لانگ شوز پہن کر سیلابی پانیوں میں اترے ہوئے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ جب تک وہ سیلاب متاثرین کے لئے بحالی کا کام مکمل نہ کرلیں چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ یہی کام بلاول بھٹو بھی کررہے ہیں ، وہ سیلاب کے پانی میں بے خطر چلے گئے اور انہوں نے لانگ شوز بھی نہیں پہنے ہوئے تھے۔ یہ لانگ شو ز کہانی کیاہے ؟
ہمارے ہاں لانگ شوز والی دوانٹریاں بڑی مقبول ہوئیں۔ ایک بھارتی فلم ''شعلے‘‘ کے گبرسنگھ کی انٹری اور دوسری خادم اعلیٰ کی۔ یہ انٹری وہ اس وقت دیتے ہیں جب بپھرا ہوا سیلاب پنجاب کے سینکڑوں دیہاتوں ،انسانوں، گھروں، مویشیوں اور فصلوں کو اپنے ساتھ بہا لے جاتاہے۔گبر سنگھ کی وہ انٹری فلم ورلڈ میں ہمیشہ یاد گاررہے گی ۔ گبر سنگھ کے ماتحت ڈاکووں کی تین رکنی ٹیم بھتہ وصول کرنے کے لئے رام گڑھ پہنچتی ہے ۔ گبرسنگھ اپنے غنڈہ ٹیکس کی وصولی کو بالکل اسی سپرٹ سے جائز سمجھتا ہے جیسے ہمارے ہاں یتیم مسکین عوام سے پستول دکھا کر ٹیکس وصول کیاجارہاہے۔ جے (امیتابھ) اور ویرو (دھرمیندر) ان کی ٹھکائی کرکے انہیں بھگا دیتے ہیں۔ کیمرہ کٹ ہوتا ہے۔ دوسرے منظر میں کیمرہ لانگ شوز پہنے ہوئے گبر سنگھ کے قدموں سے اوپن ہوتا ہے۔گبر بے چین ہے کہ رام گڑھ میں وہ دو فوجی کون آگئے ہیںجنہوں نے اس کے ساتھی ڈاکوئوں کی دھلائی کرکے اس کی ''رٹ‘‘ کو چیلنج کیا ہے ۔گبر سنگھ کی آواز پستہ قد ٹیلوں سے ٹکراتی ہے... کتنے آدمی تھے ؟
اسلام آباد میں اکٹھے ہونے والے آدمیوں کی تعداد کے حوالے سے تضاد پایا جاتا ہے۔عمران اور قادری کے حوالے سے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے انسانوں کے سمندر کوحکومتی وزرا (ڈیک اورلئی) قراردیتے ہیں جو غلط ہے کیونکہ انسان سمندر اور ندی نالے نہیں ہوتے‘ اس لیے ان کا اوران کی رائے کا احترام کرنا چاہیے ۔ ایک ٹی وی جوڑی کا کہنا ہے کہ ویک اینڈ نائٹ (ہفتہ کی رات) عمران اور قادری کے جانثاروں کی مجموعی تعداد 25سے 30ہزار ہوجاتی ہے۔وزیر اعظم نواز شریف کہتے ہیں کہ وہ 18کروڑ عوام کے نمائندے ہیں‘ صرف 5ہزار افراد کے کہنے پر استعفیٰ کیوں دیں؟ ایک مرتبہ جنرل ریٹائرڈ مشرف نے لندن میں مجھے کہا تھا کہ نوازشریف سمیت دوسرے سیاسی رہنما ہمیشہ کہتے ہیں کہ وہ پورے پاکستان کے نمائندے ہیں جو غلط ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں جتنی مرتبہ بھی انتخابات ہوئے‘ ملک کی زیادہ سے زیادہ 55فیصد آبادی نے ووٹ کاسٹ کیے، باقی 45فیصد لوگ تو انتخابات میں ووٹ ہی کاسٹ نہیںکرتے تو یہ سارے پاکستان کے لیڈر کہاں سے بن گئے؟ جمہوری نظام کے لیے سوفیصد ووٹنگ تو دنیا میں کہیں بھی نہیں ہوتی۔ ماڈرن ورلڈ میں جمہوریت کے ''نانانانی‘‘ سمجھے جانے والے برطانیہ میں سکاٹ لینڈ کی آزادی کے لیے ہونے والے ریفرنڈم میں بھی مجموعی طور پر 85فیصد ووٹ کاسٹ ہوئے ہیں، جس میں سکاٹ لینڈ کے 55فیصد لوگوں نے کہاکہ وہ انگلینڈ کے ساتھ رہیں گے جبکہ 45فیصد نے علیحدگی کے لئے ووٹ کاسٹ کیا ہے‘ لیکن ریفرنڈم کوتسلیم کرتے ہوئے قرار دیا گیاہے کہ سکاٹ لینڈ،انگلینڈ سے علیحدہ نہیں ہوگا۔ انگلینڈ سمیت کہیں بھی یہ نہیں کہاجاتا کہ فلاں نصف اور فلاں ملک کے دوتہائی حصے کا وزیر اعظم ہے۔
جنرل پرویز مشرف کی سوچ ایک مائند سیٹ ہے‘ جس کے مطابق نوازشریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو جزوی طور پر پاکستان کی نمائندگی کرتے تھے‘ اس لیے انہیں پورے پاکستان کے لیڈر نہیں ماننا چاہیے تھا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگرعوام کے ووٹ حاصل کرنے والے رہنما حقیقی نمائندے نہیں تو مارشل لانافذکرنے والے بھی آئین توڑنے سے پہلے عوامی ریفرنڈم نہیں کراتے‘ جس سے ان کے پاس عوام پر حکمرانی کرنے کا اختیار اور لائسنس آ جاتا ہے۔ مارشل لائوں کے نتیجہ میں عوام کے لئے معین قریشی اور شوکت عزیز جیسے ٹیکنوکریٹس بمپر پرائز نکالے گئے۔ یہ ہمارے وہ ریڈی میڈ نمائندے تھے جنہیں فوجی حکومتوں نے پیرا شوٹوں کے ذریعے عوام پر گرایا اور پھر ایک مخصوص وقت کے بعدوہ اسلامی جمہوریہ پاکستان سے تشریف لے گئے ۔پیارے وطن کو اس حالت تک پہنچانے میں ٹیکنو کریٹس اپنا حصہ ڈال چکے ہیں، لہٰذا شیخ رشید، چوہدری برادران (پرویز، شجاعت) اوردیگر آمری سیانے اپنے یہ الف انار اور ب بکری والے مشورے اپنے پاس رکھیںاور پاکستان کو آگے بڑھنے دیں۔
ادھر عمران خان نے بجلی کے بل جلائے اور اِدھر حکومت نے بجلی کے نرخ بڑھائے۔اگست میں بھیجے گئے بجلی کے بل عوام کیلئے موت کے پروانے سے کم نہیں ہیں۔ شیخ رشید نے کہا ہے کہ بجلی کے بلوں
سے حکمران بلبلا اٹھیں گے‘ حکومت یہ سمجھ لے کہ اگر لوڈشیڈنگ اوربجلی کے بلوں پر وہ عوام کو ریلیف نہ دے سکی توپھر وہی ہوگا جو مغل اعظم نے انارکلی کے ساتھ کیا تھا لیکن اس بار مغل اعظم عوام اور انارکلی حکومت ہوگی‘ جسے دیوار میں چنوائے جانے کی سچوایشن کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔ یہ درباری سٹوریاں کیا ہوتی ہیں؟ سب پتہ ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ موصوف کبھی اسی دربار میں ملاں دوپیازہ کا کردار نبھارہے تھے۔ ہاف ٹائم کے بعد جب یہ جنرل پرویز مشرف کی فلم میں ''یس منسٹر‘‘ ہوگئے تو جمہوریت کی مغل اعظم میںپرویز رشید کو ان کا کردار سونپ دیا گیا ۔ براہ کرم'' کردار‘‘ سے مراد صرف منسٹری کا پورٹ فولیو ہی لیجئے گاکیونکہ پرویز رشید جمہوریت کے داعی ہیں اور شیخ رشیدآمریت کے دفاعی سمجھے جاتے ہیں۔
رحمان ملک جو تیزی کے ساتھ سیاسی بحران کے حل کے لئے متحرک ہیں‘ اپنی تیزیوں کی وجہ سے جہاز سے اتاردئیے گئے۔ انہوں نے ایک کچی پکی خوشخبری سنائی ہے کہ ''ہاتھی گزر گیاہے‘ پیچھے صرف دُم رہ گئی ہے‘‘۔ رحمان ملک سے ہاتھی کے متعلق پوچھنا چاہیے‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہاتھی کی کئی اقسام ہیں ۔ایک ہاتھی وہ ہوتا ہے جس کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ'' ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں‘‘۔دوسرا ہاتھی وہ ہوتا ہے جس کے لئے مشہور ہے کہ'' ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور‘‘۔اس کامطلب ہوتا ہے‘ کہا کچھ جائے کیا کچھ جائے۔ ہاتھیوں کی جملہ اقسام میں ''ہاتھی کا جگ ساتھی اور کیڑی پاہن پیڑی ‘‘ بھی محاورہ ہے جس کے معنی ہیں کہ طاقتور انسان کے سب ساتھی ہوتے ہیں اور کمزور
کے سب دشمن۔ علاوہ ازیں ''ہاتھی کی ٹکر ہاتھی ہی سنبھالے‘‘... ''ہاتھی سے گھنے کھانا‘‘... ''ہاتھی کا پاٹھا‘‘ اور ''ہاتھی پھرے گائوں گائوں‘ جس کاہاتھی اس کانائوں‘‘۔ زبان ومحاورہ کے لحاظ سے ہاتھیوں کی معروف اقسام ہیں۔ غرض ہاتھی زبان وبیان ، محاورہ، سیاق وسباق اور ماحول کے حوالے سے سب سے اہم قسم ہے۔
بعض حلقوں کی جانب سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ ہاتھی ان کی بتائی ہوئی کروٹ ہی بیٹھے گا ۔اونٹ کی جگہ ہاتھی کے استعمال پر معذرت خواہ ہوں مگر رعایت ِلفظی سے بڑھ کر سیاسی رعایت ِلفظی کی مہم کے تحت جانور بدل ہی جاتے ہیں۔ہاتھی کی تاریخی اہمیت کو ملحوظ خاطر رکھوں تو اسے جانور کہنے کو بھی دل نہیں چاہتا مگر اس بار امید کرتے ہیں کہ ہمارے ہاتھی ،پورس کے ہاتھی ثابت نہیں ہوں گے۔ تبدیلی، انقلا ب اور دھرنا سیاست میں امپائر سے مراد ( اوپر والے) سے لی جارہی ہے۔جنرل مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری سے جب پوچھا گیاکہ آپ نے کہاتھاکہ سکرپٹ لکھا جا چکا ہے‘ اگست میں نواز شریف کی حکومت نہیں ہوگی امپائر وقت مقررہ پر انگلی اٹھائے گا‘‘۔ سیاست میں تھرڈ امپائر کے نعرے لگانے والے اب سکرپٹ سازش کو جھٹلا کیوں رہے ہیں؟ قصوری صاحب نے سوال کے جواب میں یہ کہہ کرجان چھڑائی کہ سکرپٹ لکھنے والی ذات آسمان پر بیٹھی ہے۔ اس وقت عمران ایک سال جبکہ قادری دھرنے کے چہلم (دھرنے کے چالیس دن بعد ) حکومت جانے کی بات کررہے ہیں۔ سیاست اور اقتدار کے کھیل میں سکرپٹ کا رواج شاید ابھی ختم نہیں ہوا لیکن اتنا ضرور ہواہے کہ اجتماعی سیاسی شعور کے آگے ہتھیار ڈالنے کے عمل کو وقت کی ضرورت سمجھ لیاگیا ہے۔لانگ شوز برینڈ سیاست اور سکرپٹ والی میرا سلطان ڈرامہ سیریل کی اگلی اقساط میں کیا ہوگا‘ اس کے لئے انتظار کرنا ہوگا۔