"TSC" (space) message & send to 7575

Love and Hate

کبھی کبھی مجھے محسوس ہوتا ہے کہ بھارت اور پاکستان کا رشتہ نور جہاں اور لتا جیسا ہے۔ یہ رشتہ سمجھنے کے لئے پہلے پاکستان کی ملکہ ترنم اور بھارت کی میلوڈی کوئین کے مابین تعلق جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ میری خوش بختی رہی کہ مجھے نور جہاں کے علاوہ لتا منگیشکر سے ملاقاتوں کے مواقع بھی میسر آئے۔ نور جہاں جب تک زندہ رہیں‘ لتا انہیں بڑی بہن (دیدی)، گرو اور اپنا آئیڈیل قرار دیتی رہیں۔ ایک مرتبہ میں نے لتا جی سے سوال کیا کہ اگر آپ سے یہ پوچھا جائے کہ موسیقی کے جہان سے اپنی پسندیدہ صرف ایک آواز بتائیں تو کس کا نام لیں گی؟ لتا جی نے کہا: موسیقی کے جہان میں اتنے بڑے بڑے لوگ ہوئے ہیں‘ کسی ایک کا نام لینا بہت مشکل ہے۔ میں نے اصرار کیا تو لتا جی نے کہا: اگر مجھے صرف ایک نام لینا ہو تو پھر میں اپنی دیدی ملکہ ترنم نور جہاں کا نام لوں گی۔ لتا جی کہتی ہیں کہ وہ نور جہاں کے آشیرواد (دعا) سے لتا منگیشکر بنی ہیں‘ لیکن دونوں کے رشتے کو سمجھنے کے لئے آپ کو وہ واقعہ بھی سننا پڑے گا جو کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں پیش آیا تھا۔ ٹورنٹو میں نور جہاں اپنے بیٹے اکبر رضوی المعروف اکو میاں کے ساتھ اُس ہوٹل میں گئیں جہاں لتا قیام کئے ہوئے تھیں۔ نور جہاں کے پروموٹر خان کھوکھر بھی ان کے ساتھ تھے۔ قارئین! لتا اور نور جہاں کی کہانی میں ٹورنٹو والا واقعہ ترتیب کے ساتھ پڑھیں تو آپ کو پاکستان اور بھارت کی رام کہانی سمجھنے میں آسانی ہو گی۔
میں نے لتا منگیشکر کا پہلا انٹرویو ٹیلی فون پر کیا تھا‘ جبکہ اس کے بعد ممبئی میں ان سے بالمشافہ ملاقات کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ 1997ء میں میاں محمد نواز شریف وزیر اعظم منتخب ہوئے تو انہوں نے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کو تیز کرنے کے لئے ایک بیان دیا‘ جس میں انہوں نے کہا: ''میرا دل چاہتا ہے برصغیر کی عظیم مغنیہ لتا منگیشکر کو لاہور آنے کی دعوت دوں اور وہ یہاں اپنی ُسریلی آواز کے سربکھیریںتاکہ دونوں ملکوں میں بھائی چارے کی فضا قائم ہو سکے‘‘۔ وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے لتا منگیشکر کو پاکستان (لاہور) آنے کی دعوت دیے جانے پر ان کا ردعمل جاننے کے لئے میں نے ممبئی ٹیلی فون کیا۔ مجھے یاد ہے کہ لتا جی نے شکوہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں ایک دوسرے سے علیحدہ ہوئے 50 سال ہو گئے مگر پاکستان کی سرکار تو ایک طرف نجی طور پر بھی کسی نے مجھے دعوت نہیں دی۔ اس کے برعکس بھارت میں پاکستان کے عظیم فنکاروں‘ ملکہ ترنم نور جہاں، مہدی حسن، ریشماں، غلام علی اور استاد نصرت فتح علی خاں کو سرکاری اور غیرسرکاری اعزازات سے نوازا گیا۔ لتا جی نے کہا کہ 1982ء میں جب بھارتی فلم انڈسٹری نے اپنی گولڈن جوبلی منائی تو دیدی (نورجہاں) کو نہ صرف فلم انڈسٹری نے دعوت دی بلکہ بھارت سرکار کی طرف سے بھی درخواست کی گئی۔ دیدی کی مہر بانی کہ وہ ہم سب کی دعوت پر انڈیا آئیں اور ہمارے دلوں میں جو نور جہاں کی یادوں کے دیپ جل رہے ہیں‘ ان کی روشنی کو تیز کر گئیں۔
82ء میں جب نور جہاں ممبئی گئیں‘ تو ان کی ملاقات اپنے دیرینہ ساتھیوں سے ہوئی‘ جن میں موسیقار نوشاد، اوم پرکاش، پران، دیو آنند، اشوک کمار، دلیپ کمار اور لتا منگیشکر سمیت بہت سے دوسرے بھی شامل تھے۔ نور جہاں سرکاری پروٹوکول کے ساتھ دہلی گئیں‘ جہاں ان کی ملاقات بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے کرائی گئی۔ اندرا گاندھی سے نور جہاں کی ملاقات کی روداد بھارتی اور پاکستانی اخبارات میں شائع ہوئی تھی‘ جس میں دونوں کے درمیان دلچسپ گفتگو کئی دنوں تک موضوع بحث رہی تھی۔ ملکہ ترنم نور جہاں کے دورہ بھارت سے دونوں ملکوں کے سیاسی، خارجی، تجارتی اور معاشی تعلقات میں تو کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی لیکن پاکستانی فلموں کا بجٹ اچانک بہت بڑھ گیا تھا۔ ہوا یوں تھا کہ بھارتی دورے کے دوران نور جہاں نے لتا سے دریافت کیا کہ وہ فلم کے لئے ایک گیت گانے کا معاوضہ کیا وصول کرتی ہیں جس پر لتا نے بڑی عاجزی سے بتایا کہ ''25ہزار روپے‘‘۔ چند دن بعد نور جہاں لاہور واپس آئیں تو انہوں نے ایک گیت کا معاوضہ مبلغ 25 ہزار روپے کر دیا۔ اس سے قبل وہ فلم کے 7 گانے ریکارڈ کرانے کا معاوضہ 30 سے 35 ہزار روپے وصول کیا کرتی تھیں‘ جو 5 ہزار روپے فی گیت سے بھی کم بنتا تھا۔
پاکستانی پروڈیوسرز نے اچانک فلم کا بجٹ اس قدر بڑھ جانے کے خلاف علامتی دھرنے بھی دیے لیکن وہ نور جہاں کے معاوضے میں کمی نہ کرا پائے اور ملکہ ترنم ''استعفیٰ‘‘ دیے بغیر اس وقت تک گاتی رہیں‘ جب تک ان کی صحت ٹھیک رہی۔ پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کے پیچھے بھی بھارت کی ''مہربانیوں‘‘ کا ہاتھ ہے۔ 1974ء تک بھارت خفیہ طور پر ایٹمی قوت بن چکا تھا۔ اس کے جواب میں اسلامی جمہوریہ کے وزیر اعظم بھٹو نے بھی ڈاکٹر عبدالقدیر کو پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا خفیہ ٹاسک دے دیا۔ بہت سال تک دونوں ملکوں نے اپنی ایٹمی صلاحیت کو زیر زمین رکھا‘ لیکن11 مئی 98ء میں بھارت نے ایٹمی دھماکے کئے تو 28 مئی کو پاکستان نے بھی چاغی کے مقام میں دھماکے کر دیے۔ پاکستان کے دفاعی اخراجات کا دائرہ بھارت کے عسکری عزائم کو بھانپتے ہوئے پھیلتا اور سکڑتا ہے۔ نور جہاں بھی اپنے معاشی دائرے اپنی بھارتی ہم منصب لتا کی معاشی صلاحیت کے برابر لانے کی غرض سے پھیلاتی رہیں۔
لتا منگیشکر بتاتی ہیں کہ ممبئی میں ایک فلم ''بڑی ماں‘‘ کی شوٹنگز کے دوران انہیں نور جہاں کے قریب ہونے کا موقع ملا۔ وہ کئی کئی پہر نور جہاں کو دیکھا کرتیں اور دل ہی دل میں سوچا کرتیں کہ ''اوپر والے نے دیدی کو کس قدر نعمتوں سے نوازا ہے‘‘۔ لتا نے متعدد مرتبہ یہ کہا کہ ان کی استاد، گرو اور آئیڈیل ملکہ ترنم نور جہاں ہیں اور وہ نور جہاں کی دعا سے گاتی ہیں۔ ان سب باتوں کے باوجود نور جہاں اور لتا کا رشتہ سمجھنے کیلئے آپ وہ حقیقت بھی جان لیں جس کی جانب میری توجہ میرے مہربان بزرگ اور مرحوم اداکار البیلا نے مبذول کرائی تھی۔ ایک مرتبہ میں البیلا مرحوم کے ساتھ ملکہ ترنم نور جہاں کی گائی فیض صاحب کی یہ نظم سن رہا تھا ''مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘‘۔ متذکرہ نظم رشید عطرے نے اس طرح کمپوز کی ہے کہ چند مصرعے نورجہاں کو ہارمونیم کی پہلی سپتک کے 
انتہائی نچلے سُروں میں ادا کرنے پڑے‘ جو گانے والوں کے لئے مشکل ہوتے ہیں، وہ سطریں یہ ہیں :
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم 
ریشم و اطلس و کمخواب میں بُنوائے ہوئے
نور جہاں کی یہ ریکارڈنگ کسی میوزک کنسرٹ کی تھی‘ جس میں نور جہاں درج بالا اشعار گاتے ہوئے کہہ رہی تھیں ''موسیقی میں یہ بڑی اہم بات ہے کہ اونچے اور نیچے سُروں میں گاتے ہوئے دونوں صورتوں میں آپ کا سُر پکا لگنا چاہیے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ جب آپ اونچے سُروں میں گائیں تو سُر میں رہیں لیکن جب نیچے سُروں میں گائیں تو سُر کا وزن اور معیار بدل جائے‘‘۔ اداکار البیلانے مجھ سے پوچھا کہ آپ سمجھے کہ نور جہاں یہ بات کسے سنا رہی ہیں؟ میں نے دلچسپی سے سوال کیا: آپ بتائیں نور جہاں یہ بات کس کے بارے میں کہہ رہی ہیں؟ البیلا نے کسی قسم کی تفصیل بیان کئے بغیر بتایا کہ وہ یہ بات لتا کے بارے میں کہہ رہی ہیں۔ آخر میں ٹورنٹو میں پیش آنے والا واقعہ بھی سُن لیں جہاں نورجہاں اپنے بیٹے اکو میاں اور پروموٹر خان کھوکھر کے ساتھ اس ہوٹل میں گئیں جہاں لتا قیام کئے ہوئے تھیں۔ نور جہاں نے لتا سے کہا کہ وہ ٹورنٹو میں ہونے والے ''ملکہ ترنم نور جہاں شو‘‘ میں آئیں اور اس عقیدت کا اظہار کریں جو وہ ان کے حوالے سے میڈیا میں ہمیشہ کرتی ہیں۔ لتا نے یہ سنتے ہی نور جہاں کے قدموں کو چھوتے ہوئے انتہائی عاجزی اور ادب سے کہا کہ ان کیلئے یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ اوورسیز مارکیٹ میں ان کا ایگری منٹ انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ نور جہاں اور لتا کے رشتے کو ہم کیا نام دیں؟ اس نسبت سے پاکستان اور بھارت کے رشتے کو کیا نام دیا جا سکتا ہے؟ شاید Love and Hate?

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں