"TSC" (space) message & send to 7575

ٹریلر سنسنی خیز اور فلم ماٹھی

آج میں لتا منگیشکر کی آواز میں گایا ہوا فلم ''ارپن‘‘ کا گیت سن رہا تھا جس کی استھائی کچھ یوں ہے ''پردیس جا کے پردیسیا، بھول نہ جانا پیا‘‘۔ یہ گیت سنتے ہوئے مجھے انقلابی تحریکوں کے وہ رہنما یاد آئے جو اپنے کارکنوں کو ساحلوں اور کناروں پر پہنچانے کی بجائے بیچ منجدھار چھوڑ کر پردیس چلے جاتے ہیں۔ گیت کا انترہ تحریک کے کارکنوں پر صادق آتا ہے کہ ''اک تیری خوشی کے کارن، لاکھ سہے دکھ ہم نے او ساجن، ہنس کے جدائی کا زہر پیا‘‘۔ عشق، رومان، پیار‘ محبت اور تقدیر بدل دینے کے معاملات ادھورے چھوڑ جانے والوں کو ملکہ ترنم نور جہاں نے ''جھوٹا‘‘ قرار دیتے ہوئے ان کا پول یوں کھولا تھا کہ 
کوئی نواں لارا لا کے مینوں رول جا 
جھوٹھیا وے اک جھوٹ ہور بول جا 
ملکہ ترنم کے گائے اس اعلیٰ پنجابی گیت کا ممکنہ اردو ترجمہ یوں کیا جا سکتا ہے: کوئی نیا بہانہ بنا کر مجھے خوار کر جائو، جھوٹ بولنے والے ایک جھوٹ اور بول جائو۔ 
طاہرالقادری صاحب امریکہ اور کینیڈا کے دورے پر تو چلے گئے ہیں لیکن جاتے جاتے کئی تلخ و شیریں یادیں، کچھ ابہام اور چند ہزار کارکن چھوڑ گئے ہیں۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ قادری صاحب امریکہ،کینیڈا سمیت یورپ کے چند ممالک کا دورہ کریں گے۔ خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف بھی ان دنوں علاج معالجے کے لئے لندن میں ہیں۔ یہ محض اتفاق ہے یا بلاک بسٹر فلم ''لندن پلان‘‘ کے سیکوئل کی تیاری۔ قادری صاحب کا اگلا قدم کیا ہو گا یہ ابھی تک کسی سیاسی فالنامے میں نہیں بتایا گیا؛ البتہ جب جب بھی کپتان اپنے انقلابی جیون ساتھی قادری صاحب کو یاد کر تے ہوں گے‘ بیک گراونڈ میں یہ گیت ضرور گونجتا ہو گا: 'تیرا جانا دل کے ارمانوں کا لُٹ جانا‘‘۔ چند روز پہلے تک پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف کو ''کزن پارٹیز‘‘ کہا جاتا تھا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ یہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کی طاقت ہیں‘ لیکن خدا جانے ایک دم ایسا کیا ہو گیا کہ کزن پارٹیز میں سے''شریکے‘‘ کی بُو آنے لگ گئی۔ ابھی چند روز پہلے ماحول کچھ یوں تھا ''جنم جنم کا ساتھ ہے ہمارا تمہارا‘‘ جبکہ آج کل صورت حال کچھ اس طرح ہے ''ہم آپ کے ہیں کون؟‘‘۔
شیخ الاسلام جب دھرنا دیے ہوئے تھے اور ان کے انقلابی خطابات فضائوں میں سراسیمگی پھیلائے ہوئے تھے‘ ہارون الرشید صاحب نے یقین کے ساتھ کہا تھا کہ ''قادری صاحب چلے جائیں گے‘‘۔ میں نے وجہ پوچھی تو انہوں نے ایک سخت جملہ ادا کیا‘ جسے من و عن نقل نہیںکر سکتا۔ اس کا لب لباب یہ تھا کہ اول قادری صاحب اپنی سوہل ( نازک) طبیعت کے باعث مقدمات کا سامنا نہیں کر سکتے۔ دوم یہ کہ وہ جو کہتے ہیں کرتے نہیں۔
برصغیر میں کی جانے والی شاعری اور فلمی گانوں کا قارئین اور سامعین کی حقیقی زندگی سے کسی نہ کسی حوالے سے تعلق ضرور ہوتا ہے۔ اکثر قاری یا سامع کو ایک لمحے کے لئے یوں محسوس ہوتا ہے‘ جیسے یہ شعر یا گانا بالخصوص اسی کے لئے تخلیق ہوا ہے لیکن آج کل ایسا لگتا ہے کہ ہر وہ شعر اور گانا جس میں ''جانے والے‘‘ کا ذکر ہوا ہے، وہ ہمارے ان قائدین کے لئے کہا گیا جو سیاسی میدان چھوڑ کر پردیس چلے جاتے ہیں۔ شاعر خالد شریف کے ایک شہرہ آفاق شعر‘ جو قبروں کی زینت بنا‘ کو اگر تھوڑی ترمیم کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کی ہیئت کچھ یوں ہو گی: 
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ ُرت ہی بدل گئی
اک شخص ساری قوم کو حیران کر گیا
جانے والے کے لئے ایک اور شعر جو ذہن کے افق پر بار بار ابھر رہا ہے‘ یہ ہے: 
جانے والے کو نہ روکو کہ بھرم رہ جائے
تم پکارو بھی تو کب اس کو ٹھہر جانا ہے 
جانے والوں کے لئے ان گنت گیت لکھے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر انسانوں کی زندگی میں کوئی ایسا ضرور ہوتا ہے جو انہیں چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ پیار کرنے والے اپنے اس محبوب، پردیسی اور مسافر کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ فلم میکروں نے اس سچوایشن کو سینکڑوں بار کیش کرایا ہے اور شاید اس وقت تک کیش کراتے رہیں گے جب تک چھوڑ کے جانے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ چھوڑ جانے والوں کے ذکر خیر پر مبنی چند ایک مقبول گیتوں کی استھائیاں یوں بھی ہیں ''او ُدور کے مسافر، ہم کو بھی ساتھ لے لے رے، ہم رہ گئے اکیلے‘‘ ''جا رے، جا رے اڑ جا رے پنچھی، بہاروں کے دیس جا رے، یہاں کیا ہے میرے پیارے، کہ اجڑ گئی بگیا میرے من کی‘‘۔ 
پردیسی کا کریکٹر برصغیر کی فلموں میں بہت پرانا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے کہ ایک سال میں ہٹ ہونے والے گانوں میں ایک آدھ گانا وہ ہوتا تھا جس میں ''پردیسی‘‘ یا ''جانے والے‘‘ کا ذکر ہوتا تھا۔ اس حوالے سے بے شمار لازوال گیت تخلیق کئے گئے‘ جو آج بھی سنے اور گنگنائے جاتے ہیں۔ ان میں محمد رفیع کے گائے اس گیت کو ان محبان کی زندگی کا منشور اور آئین قرار دیا جا سکتا ہے‘ جن کا پردیسی انہیں تڑپنے کے لئے پیچھے چھوڑ گیا تھا: 
پردیسیوں سے نہ اکھیاں ملانا 
پردیسیوں کو ہے اک دن جانا
یاد کرنے والے کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتی ہوئی کچھ مزید استھائیاں یوں ہیں ''بیدردی بالما تجھ کو میرا من یاد کرتا ہے‘‘ ''نام لے لے کے تیرا ہم تو جئے جائیں گے‘‘ ''او جانے والے رے ٹھہرو ذرا رک جاؤ‘‘ ''جانے والی چیز کا غم کیا کریں‘‘ ''جا وے جا جھوٹھیا‘‘۔ جانے والے کو ملکہ ترنم نور جہاں نے فلم ''دلہن ایک رات کی‘‘ میں اپنی مترنم آواز میں یوں خدا حافظ کہا تھا: 
او جانے والے میں تیرے قربان خدا حافظ
او میرے حسیں خوابوں کے مہمان خدا حافظ 
دھرنے اور انقلاب کے فلیش بیک پر نگاہ ڈالیں تو سینکڑوں للکاریں اور ہزاروں الٹی میٹم کانوں میں گونجتے ہیں‘ جن میں حکومت، نظام اور عوام کو میسر جمہوریت کو نام نہاد قرار دے کر لپیٹ دینے کی بات کی گئی۔ دھرنے کے دوران قادری صاحب نے حکومت کو کئی الٹی میٹم دیے، ڈیڈ لائنز دیں‘ فیصلہ کن غسل ہوا، کفن پہنے گئے، قبریں کھودی گئیں اور آخری حربے کے طور پر سیاست میں آ گئے اور آصف زرداری صاحب کے اس قول کو سچ ثابت کر دکھایا کہ ''جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘۔ ایک وقت تھا‘ جب قادری صاحب نے اعلان کیا تھا کہ ''جو بھی انقلاب لائے بغیر واپس آئے اسے شہید کر دو‘‘ اور اب ان کا کہنا ہے کہ دھرنے کا مقصد پورا ہو گیا ہے۔ شاید قادری صاحب یہ سوچتے ہوں کہ ''اس تہی دامنی کے عالم میں، جو ملا ہے وہی بہت کچھ ہے‘‘۔ دھرنا ختم ہوتے ہی دو چار شہروں میں جلسے کئے اور قادری صاحب بیرون ملک روانہ ہو گئے۔ مذکورہ سچوایشن پر مرحومہ پروین شاکر کے شعر ملاحظہ کیجئے‘ انگوٹھی میں نگینے کی طرح فٹ بیٹھتے ہیں: 
وہ جب سے شہر خرابات کو روانہ ہوا 
براہِ راست ملاقات کو زمانہ ہوا 
وہ شہر چھوڑ کے جانا تو کب کا چاہتا تھا 
یہ نوکری کا بلاوا تو اک بہانہ ہوا 
شب غم گزار کر جانے اور پیچھے ہار جانے والوں کے لیے فیض صاحب نے کہا تھا: 
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے 
دھرنے اور انقلاب کے حوالے سے بیگم نوازش علی خان کا تبصرہ بھی سن لیں۔ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ دھرنا شاہ رخ خان کی حالیہ فلم ''ہیپی نیو ایئر‘‘ جیسا ثابت ہوا‘ یعنی ٹریلر سنسنی خیز اور فلم ماٹھی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں