"TSC" (space) message & send to 7575

فلم اور ’’کمپنی کی مشہوری ‘‘ …(حصہ دوم )

گزشتہ روزشائع ہونے والے کالم '' فلم اور کمپنی کی مشہوری ‘‘ میں بیان کررہاتھاکہ ہمارے ہاں کون سی جمہوری اور آمری ''فلمیں‘‘ بنائی جاتی رہیں۔ ''دنیا نیوز‘‘ میں کام کرنے والے قدرے جونیئرز اینکرز ساتھیوں نے مجھ سے پوچھاکہ یہ ''کمپنی کی مشہوری ‘‘ کیاہوتی ہے؟میں نے انہیں بتایاکہ پرانے وقتوں میں چھوٹے شہروں اور قصبوں میں سگریٹ، چائے، صابن، نیل،لیکو،پالش اورکیڑے مار ادویات سمیت دیگر اشیائے ضرورت فروخت کرنے والی کمپنیاں اپنی پروڈکٹس متعارف کرانے اور صارفین کی توجہ حاصل کرنے کے لئے یہ طریقہ کار اپناتی تھیںکہ وہ صرف'' کمپنی کی مشہوری‘‘ کے لئے مذکورہ پروڈکٹ سستے داموں فروخت کررہے ہیں‘ وگرنہ اس قیمت فروخت سے تو ان کی لاگت زیادہ ہے۔ شیخ رشید چونکہ ایک ایسے لیڈر ہیں جنہیں عوامی مسائل کے ساتھ ان کی خوبیوں اور خامیوںکا بھی ادراک ہے اس لیے وہ یہ طریقہ کار اپناتے ہیں۔ ''کمپنی کی مشہوری ‘‘ ایڈورٹائزنگ ورلڈ کی ایک تکنیکی اصطلاح ہے لیکن شیخ رشید نے اسے اس کثرت سے استعمال کیاہے کہ یہ قومی سیاست اور اس کے روز مرہ محاورہ کی ایک مقبول ٹرم بن چکی ہے۔ ''کمپنی ‘‘ کے معاملات میں شیخ صاحب کا ذکرِخیر آہی جاتا ہے۔ وہ خود بھی یہ تاثر دے رہے ہوتے ہیںکہ بعض حلقے انہیں اپنا ''ذاتی شیخ ‘‘ سمجھتے ہیں۔ ملکہ ترنم نے اس مقام کی نشاندہی اپنی مترنم آواز میں یوں کی تھی کہ جب کسی کابھی نام لیںتو لب پہ اپنے ''بندے ‘‘ کا نام آجایاکرتاہے ؎
خدا کرے کہ محبت میں وہ مقام آئے 
کسی کا نام لوں، لب پہ تمہارا نام آئے
پاکستان میں فلموں کی مشہوری کا رجحان 70ء اور 80ء کی دہائیوں میں عروج پر تھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان میں لگ بھگ سالانہ ایک سینکڑہ فلمیں بنائی جارہی تھیں۔مشرقی پاکستان جب ہمارا حصہ تھا تو ایک سال میں 120فلمیں بھی بنائی جاتی تھیں جو ایک ریکارڈ ہے ۔ہمارے ہاں فلم کی مشہوری اورتعارفی پروگرام کا رواج ریڈیو سیلون سے مستعار لیا گیا تھا‘ جہاں مشہور براڈ کاسٹر امین سیانی اپنے منفرد اورمُدھر لہجے میں بھارتی فلموں کی مشہوری کیاکرتے تھے۔پاکستانی فلموں کی مشہوری کا رواج ریڈیو لاہور سے میاں وامق، اطہر مانی، عرفان کھوسٹ ،نازش کاشمیری، بدیع الزماں ،حسن جلیل،نسرین محمود،شوقیہ تھانوی، تسکین حیدر ، تاج اور راشد محمود وغیرہ نے ڈالا تھا۔ یہی کام طلعت حسین کراچی ریڈیو سٹیشن پر کررہے تھے۔ جنگجو ہیرولالے سدھیر کی فلم ''بہرام‘‘ کی ریڈیو پبلسٹی مجھے آج بھی یاد ہے جس میں عرفان کھوسٹ اپنی کھرج دار اور گرج دار آواز میں کہتے ہیں ''باریاں بوہے بند کر لو بہرام آگیاجے‘‘(کھڑکیاں دروازے بند کرلیں بہرام آگیاہے ) ۔دلچسپ امر یہ ہے کہ دھواں دار مشہوری کے باوجود فلم ''بہرام‘‘ پہلے شو میں ہی پٹ گئی ۔تب فلم بینوں نے کرسیاں توڑتے ہوئے کہا ''باریاں بوہے کھول دئیو بہرام چلاگیاجے ‘‘(کھڑکیاں دروازے کھول دیں بہرام چلاگیاہے )۔ فلموں اور ان کی مشہوری کے کاروبار میں ایسا بھی ہوتا ہے، دیکھیں 30نومبر کی فلم کا کیابنتاہے ،وہ بہرام ثابت ہوتی ہے یامولاجٹ؟ 
فلم ہویاسیاست ''کمپنی کی مشہوری‘‘ کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھاجاتاہے کہ کوئی ایسا ڈائیلاگ مارکیٹ کیاجائے جو ہر کسی کی زبان پہ چڑھ جائے۔ فلم ''دبنگ‘‘ میں سوناکشی کا جملہ یاد کیجئے ''تھپڑ سے نہیں‘ پیار سے ڈر لگتاہے‘‘، ''اوم شانتی اوم‘‘ میں کنگ خان کا ادا کیاڈائیلاگ اس کی فلم کمپنی کا سلوگن بن چکاہے کہ ''پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست‘‘۔ ''مولاجٹ‘‘ کے لئے سلطان راہی مرحوم کا ادا کیا ہوا وہ شہرہ آفاق ڈائیلاگ ''مولے نوں مولیٰ نہ مارے تے مولانئیں مردا‘‘( مولے کو مولیٰ نہ مارے تو مولانہیں مرتا)ہماری سماجی اورسیاسی زندگی میں محاورے کی حیثیت اختیار کرچکاہے۔ فلموں کی طرح امور سیاست اور ریاست میں بھی خوش آہنگ اوردلفریب نعرے لگائے جاتے ہیں۔
سیاسی نعرے اور فلمی ڈائیلاگ میں کیا فرق ہوتا ہے‘ اس کا تجزیہ کرنے سے ماضی کے سیاسی باکس آفس ریکارڈ پر نظر ڈال لیتے ہیں ۔پاکستان کی سیاسی فلم کے پہلے مناظر یاد کیجئے۔ ان میں برصغیر میں مسلمانوں کی آزاد ریاست کانعرہ لگایاگیاتھا۔آزاد ریاست میںعوام کو مذہبی ،معاشرتی، سیاسی اورمعاشی آزادی دینے کا وعدہ کیاگیاتھا۔ آج 67سال گزر جانے کے بعد بھی معاشی آسودگی، روزگار، انصاف، تعلیم، علاج معالجہ اور زندگی سے جُڑی کوئی بنیادی سہولت فراہم نہیں کی جاسکی۔قائد اعظم کے انتقال اور لیاقت علی خان کے قتل کے بعد زندگی آگے بڑھی۔فیلڈ مارشل ایوب خان، جنرل آغامحمد یحییٰ خان، جنرل محمد ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف براہ راست 35سال سے زائد عرصہ اقتدار پر قابض رہے۔ ان ادوار میںبالترتیب ''صنعتی انقلاب‘‘ ''بنگالیوں، باغیوں اور ہندوئوں کو کچل دو‘‘ ''نفاذ اسلام اورجہاد‘‘ کے نعرے لگا کر عوام پر حکومت کی گئی جبکہ جنرل مشرف کے دورکو ''لبرل ، روشن خیال اور دہشت گردی کا قلع قمع‘‘ کا نام دیاگیا۔ ہر فوجی حکمران اصلاح اور احتسا ب کرنے آیا لیکن جب گیاتو کبھی مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوا اورکبھی دہشت گردی ہمارا مقدر بنی۔ بھٹو صاحب نے ''روٹی کپڑا اورمکان ‘‘ کا نعرہ لگایا۔ وہ ساڑھے چار سال تک برسر اقتدار رہے اور اس عرصہ میں انہوں نے آئین سازی مکمل کی اور ایٹم بم بناکر ناقابل تسخیر ہونے کے خواب دیکھے، تھرڈ ورلڈ اسلامک بلاک بنانے کی عظیم حکمت عملی کا آغاز کیا۔امریکہ اور عالمی طاقتیں ایٹمی پروگرام اور تھرڈ ورلڈ بلاک کے آئیڈیا سے شدید ناراض ہوئیں جس کے نتیجہ میں بھٹو کا عدالتی قتل کردیاگیا ۔بھٹو کے بعد ان کی بیٹی بے نظیر ''کمپنی ‘‘ کے متعار ف کرائے کلاکاروں سے اقتدار کی جنگ لڑتے ہوئے زندگی کی بازی ہارگئیں اور ان کے قتل کی قبیح واردات دہشت گردی کے وسیع رجسٹر میں درج کردی گئی۔ 
اس وقت ہمارے ہاں جن سیاسی لیڈروں کی سٹارویلیو ہے‘ ان میں وزیر اعظم نوازشریف کے فوراََ بعد عمران خان کانام آتا ہے۔نوازشریف اور عمران خان میں نمبر ون کون ہے‘ اس بات پر شدید اختلاف بھی پایاجاتاہے۔شوبزمیں فنکاروں اور کلاکاروں کے حفظ ِمراتب کو سٹار،سپر سٹار اورمیگا سٹارکی اصطلاحات سے جانچا جاتاہے۔ پاکستان کی فلم انڈسٹری چونکہ بحران کاشکار ہے‘ اس لیے یہاں سٹارڈم بھی ناپید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنے سٹارز اور ان کی ''کمپنی کی مشہوری ‘‘ بھی بالی وڈ سٹائل میں کرنا پڑتی ہے۔فلم ٹریڈمیں کسی سپر سٹار یا میگاسٹار کی مقبولیت کا اندازہ اس کی فلم کی ونڈو کولیکشن یا باکس آفس رزلٹ سے لگایا جاتا ہے۔ کنگ خان کی حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ' ہیپی نیو ایئر‘کو ئی چمتکار نہیں دکھاسکی ۔بالی وڈ میں اب عامر خان کی نئی فلم ''PK‘‘ کا انتظار کیاجارہاہے ''کمپنی ‘‘ اس کی مشہوری ہلکے پھلکے ،دھیمے اور پڑھے لکھے انداز میںکررہی ہے۔
جب تک مشرقی پاکستان ہمارا حصہ تھا‘ ہمارے ہاں سماجی، اصلاحی اوررومانوی موضوعات پر فلمیں بنائی جاتی تھیںلیکن جب مشرقی اورمغربی پاکستان علیحدہ ہوئے‘ ہمارے ہاں ماردھاڑ، جلائوگھیرائو، قتل و غارت گری ،نفرت اور انتقام جیسے موضوعات پر فلمیں بنائی گئیں۔اس کی نفسیاتی ،سماجی ،سیاسی اورکاروباری وجوہ کا جائزہ پھر کبھی کسی اورنشست پر ڈال دیتے ہیں۔اس وقت کے سیاستدانوں کے ٹون ٹیمپو( لب ولہجہ اورردم ) کا جائزہ لیں تو وہ مولاجٹ میں متعارف کرائے گئے انتقامی اورغیر شائستہ لہجے سے مشابہ ہے۔سلطان راہی مرحوم اس لب و لہجے کے بانی مانے جاتے ہیں۔وہ ہر لفظ کے ساتھ ''اوئے ‘‘ نتھی کیاکرتے تھے ۔ ''اوئے‘‘ کا اردو ترجمہ ''ارے ‘‘ کیاجاسکتاہے لیکن ''ارے‘ ‘ اس قدر '' استفہامیہ اور انتقامیہ ‘‘ نہیں ہوسکتا جس قدر ''اوئے‘‘ ہوتا ہے۔سلطان راہی ماں سے مخاطب ہوتے تو کہتے ''اوئے ماں! ایہہ کی کہہ دِتا ای‘‘ (ارے ماں! یہ کیاکہہ دیا)۔ محبوبہ سے محبت کرتے تو ان کو لہجہ یوں ہوتا''اوئے بلو ! توکنی سوہنی ایں‘ ‘ (ارے بلو! تم کتنی خوبصورت ہو)۔ دشمن کے تو وہ پھٹے چک دیا کرتے تھے ''اوئے بدبختا ! ملکاں دے تے پوترے مارے سن تے تیرے دوترے ماردیاں گا‘‘ ( ارے بد بخت ! ملکوںکے تو پوتے مارے تھے تمہارے دو ہتے ماردوں گا)۔ 
بدقسمتی سے ہمارے قومی ہیرو اورسائیڈہیرو ایک دوسرے کی ''اوئے توئے ‘‘ کررہے ہیں۔جیساکہ تاریخی طور پر بیان کیا گیا کہ استحصال ،لسانیت ، جبر، سیاسی گھٹن، نفرت اورانتقام نے قومی ''سرکٹ ‘‘ کے سائز کو محدود کیاتھا جس سے فلم انڈسٹری اور قوم زوال کا شکار ہوئیں ۔سیاسی سٹارز ،سپر سٹارز اور میگا سٹارز سے استدعا ہے کہ وہ اپنی اپنی ''کمپنی کی مشہوری‘‘ ترک کریں۔ ''وژن 2020ء‘‘ ''تبدیلی‘‘ اور ''انقلاب‘‘ کے نئے ڈائیلاگز کے ساتھ ساتھ اتحاد،تنظیم اور یقین محکم کے سچے نعرے کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے صدق دل سے کوشاں ہوں۔ اسی سنگ میل پر گامزن رہ کر ہی منزل پائی جاسکتی ہے۔ (ختم) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں