"TSC" (space) message & send to 7575

سائبیریا کے پرندے اور راجہ گدھ

عمران خان کے سیاسی استغاثہ سے پہلے ساغر صدیقی کا ادبی استغاثہ پڑھ لیں۔ دوریش منش شاعر نے کہا تھا:
استغاثہ ہے راہ و منزل کا
راہزن رہبری کے مجرم ہیں
عمران خان نے کہا ہے ''ہمیں جمہوریت کے ساتھ آمر بھی جعلی ملے‘ کوئی اچھا ڈکٹیٹر ہی مل جاتا تو ملک آگے چلا جاتا‘‘۔ کپتان کے اس تاریخی استغاثے کو جھٹلایا نہیں جا سکتا‘ چاہے اس مقدمے کے لئے کالے کو سفید اور جھوٹ کو سچ ثابت کر دینے والا مہنگے سے مہنگا وکیل صفائی ہی کیوں نہ کر لیا جائے۔ جمہوریت کے ساتھ آمریت اور آمروں کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا تو رسوائی ہو گی کیونکہ مقدمہ تو سچ پر مبنی ہے ع 
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی 
ہمارے محب ڈکٹیٹر وطن عزیز کی نصف سے زیادہ عمر عزیز تک جمہوریہ کے سیاہ و سفید کے مالک رہے‘ لیکن جب وہ اقتدار سے رخصت ہوئے تو ملک کے حالات پہلے سے بھی زیادہ دگرگوں ہوتے رہے۔ ڈکٹیٹر ترکے میں جمہوری لیڈرشپ چھوڑتے رہے‘ جو آگے چل کر ملت کے مقدر کا ستارہ بنتی رہی۔ کپتان کے سیاسی خیالات کو تاریخی ترتیب کے ساتھ لکھا اور پڑھا جائے تو اس سے مراد ہے کہ چار عدد ڈکٹیٹرز میں کوئی بھی ایسا نہ تھا جو اصلی ڈکٹیٹر ہو۔ عمران خان کا مقدمہ یہ ہے کہ ہمارے آمروں کو جمہوری بننے کا شوق رہا اور ہمارے جمہوری لیڈر جب جب اقتدار میں آتے رہے تو ان کی سیاسی جنس تبدیل ہوتی رہی۔ مراد یہ ہے کہ وہ ڈکٹیٹر بن جاتے رہے۔ جمہوری لیڈروں کی آمرانہ عادات و خصائل کی مثال ہے کہ بلدیاتی انتخابات خیبر پختونخوا میں مئی، پنجاب میں رواں سال نومبر جبکہ سندھ میں اگلے سال یعنی مارچ 2016ء میںکرانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ سب بھی میڈیا کے پریشر اور اسٹیبلشمنٹ کے حکم پر ہوا وگرنہ ہمارے سیاسی دیوتا تو جمہوریت کے خزانوں پر پھَن پھیلائے بیٹھے ہیں۔
ہمارے سقراط ثانی بعض اینکر پرسنز آئے روز انکشافات کرتے ہیں۔ ان میں جو جملہ جرائم سامنے لائے جاتے ہیں وہ سب حکمرانوں، سیاستدانوں اور معاشرے کے دیگر ''چٹ کپڑئی معززین‘‘ مراد وائٹ کالر الیٹ سے متعلق ہوتے ہیں۔ ایک دیسی ساخت کے جیمز بھانڈ کہہ رہے تھے کہ پنجاب میں طاقت کا ارتکاز ختم نہیں ہو رہا اور چپڑاسی تک کی تعیناتی ایک اعلیٰ دستخط مبارک سے ہو پاتی ہے۔ اس نوع کے نعرۂ حق میں تخصیص کی جاتی ہے۔ ہمارے ان رابن ہڈ ٹائپ کے سچے اور کھرے اینکر پرسنز کے سم کارڈ میں یہ آپشن موجودہ ہے کہ لائیو ٹاک شوز میں کن جماعتوں کو رگڑنا ہے اور کن کی طرف ہتھ ہولا رکھنا ہے۔
جعلی آمروں اور نقلی جمہوریت کی بات ہو رہی تھی۔ میرے فیورٹ شیخ رشید ٹاک شوز میں اکثر یہ انکشاف فرماتے رہتے ہیں کہ ہمارے سبھی جمہوری لیڈر فوجی نرسریوں میں پید ا ہوئے۔ دائی مائوں سے پیٹ نہیں چھپایا جا سکتا‘ اس لئے شیخ صاحب جانتے ہیں کہ کون عسکری نرسریوں میں پیدا ہوا اور کس کی پرورش و پرداخت کیسے ہوئی؟ جنرل غلام جیلانی نے جنہیں تخلیق کیا، جنرل اختر عبدالرحمان نے جنہیں آگے بڑھایا، جنرل حمید گل نے جنہیں راستہ دکھایا، جنرل اسد درانی نے جنہیں اقتدار کے سنگھاسن تک پہنچایا اور جنرل جاوید ناصر اقتدار میں جن کے مشیر ہوئے۔ شیخ صاحب کی نسبت دائیں بازو کے دانشور اور طبع زاد ادیب شورش کاشمیری سے رہی ہے۔ اس نسبت کا فیض ہے کہ ان کا جملہ کاٹ دار ہوتا ہے۔ یہ الگ بات کہ ان کی سیاست بھی وطن عزیز کے لئے کاٹ دار ہی ثابت ہوئی ہے۔ ان کا سیاسی جنم بھی جنرل محمد ضیاالحق کے نام نہاد اسلامی دور میں ہوا۔ یہ وہی دور تھا جس میں امریکی سپانسرڈ جہاد قوم کے مقدر میں لکھا گیا۔ یہ جنرل ضیا کا اتنا بڑا کارنامہ تھا‘ جس کی سزا ہم اور ہماری آنے والی نسلیں بھگتیں گی۔ شیخ رشید 1984ء میں بلدیاتی کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔ جنرل ضیاالحق کے دور میں کرائے گئے بلدیاتی الیکشن پاکستان کی مین سٹریم سیاست کے لئے انٹری ٹیسٹ ثابت ہوئے۔ جس نے بھی یہ امتحان پاس کر لیا‘ پھر وہ عوامی جمہوری نمائندگی سے دستبردار نہ ہوا ؎
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی، جس کو سبق یاد ہوا
شیخ رشید صاحب ہر روز ٹاک شوز میں نون لیگ کی حکومت کو فلاپ کرکے لال حویلی لوٹتے ہیں۔ اگلے دن وہ یہ نیک کام دوبارہ کرتے ہیں۔ ایک ٹاک شو میں فرما رہے تھے ''سرمایہ دار تو ایک طرف ہمارے ہاں تو سائبیریا کے پرندوں نے بھی آنا چھوڑ دیا ہے‘‘۔ لفظی اور معنوی اعتبار سے شیخ رشید کا یہ جملہ شکیب جلالی اور مجید امجد کے اشعار سے بھی زیادہ متشدد اور پُراثر لگتا ہے‘ لیکن سیاست کے طالب علم جانتے ہیں کہ ماضی قریب میں شیخ رشید پیپلز پارٹی کے صدر آصف علی زرداری سے ملاقاتیں کرنے ایوان صدر جاتے رہے جبکہ نواز شریف سے تو ان کا عشق لیلیٰ مجنوں سے بھی آگے والی فلم تھا۔ پیپلز پارٹی کی عظیم اور محب وطن لیڈرشپ کو شیخ صاحب ''سکیورٹی رسک‘‘ قرار دیتے رہے جبکہ نواز شریف کو وہ عظیم قائد مانتے تھے۔ وقت نے ثابت کیا کہ پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ‘ جس میں بھٹو اور بے نظیر بھٹو شامل تھیں، محب وطن تھی اور دونوں لیڈر خوشحال، ترقی یافتہ اور پُرامن پاکستان کی سیاست کر رہے تھے جبکہ پیپلز پارٹی کو سکیورٹی رسک قرار دینے والی طاقتوں نے اپنی جاہلانہ ڈاکٹرائن سے ملک کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ شیخ رشید اس ڈاکٹرائن کے رضاکارانہ برانڈ ایمبیسیڈر رہے‘ جس نے پاکستان کی سالمیت اور معیشت کو تباہ کر دیا۔
یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ بندہء صحافی کبھی کبھار اگر پیپلز پارٹی کو ایک بااصول سیاسی جماعت لکھے تو اس سے مراد بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی ہے۔ زرداری صاحب والی پیپلز پارٹی دوسری جماعتوں سے ہرگز مختلف نہیں ہے۔ دوسری اور ضروری وضاحت یہ بھی ہے کہ شیخ رشید صاحب کی سیاست پر تنقید کا مطلب ہرگز یہ نہ سمجھا جائے کہ نون لیگ نے اس ملک میں اصولوں کی سیاست کی پاسداری کی ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جنرل ضیا اور محمد نواز شریف کے ادوار سے پہلے پاکستان کی سیاست میں کرپشن کا رواج ہی نہیں ہوا کرتا تھا۔ سیاست میں مال بنانے کا آئیڈیا، فیشن اور میراتھن ریس کا فروغ 80ء کی دہائی میں ہوا تھا۔ اس سے قبل ہمارے معاشرے میں آٹے میں نمک کے برابر کرپشن ہوتی تھی‘ پھر آٹا غائب ہوتا رہا اور عوامی حقوق سے نمک حرامی کا رواج عام ہوا۔ گذشتہ دنوں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی وزارت خزانہ کے توسط سے یہ خوشخبری سنائی گئی تھی کہ آئی ایم ایف عوام پر نئے ٹیکس لاگو نہ کرنے پر راضی ہو گیا ہے۔ آئی ایم ایف آسان شرائط پر حکومت کو قرضہ فراہم کرے گا‘ جس سے عوام پر بوجھ نہیں پڑے گا‘ لیکن یہ حکومتی تسلی جھوٹ ثابت ہوئی۔ پاکستان سے متعلقہ اس عالمی 
مالیاتی ادارے کے اعلیٰ افسر جیفری فرینکس نے ایسا سچ بولا ہے‘ جس سے اس ملک کے غریب، مڈل کلاسیے حتیٰ کہ کھاتے پیتے لوگوں کی بھی راتوں کی نیندیں اڑ گئی ہیں۔ کوئی مائی کا لال اور قارون کا رشتہ دار ہوگا‘ جو بیس بائیس گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کے بعد بھی ہزاروں روپوں کے بجلی اور سوئی گیس کے بل جمع کرا پائے گا۔ اس امتحان میں سرخرو ہونے کے لئے اسے بھتہ مافیا یا پھر کسی انڈر ورلڈ تنظیم کو جوائن کرنا پڑے گا۔
وزیر خزانہ نے حکومت کو درپیش مسائل کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان اور آئی ڈی پیز (مقامی بے گھر افراد) کی بحالی پر ایک سو بلین سے زیادہ رقم صرف کرنا بجٹ پر بہت بڑا بوجھ ہے۔ پاکستان کی وزارت خزانہ اور آئی ایم ایف کے افسران کے مابین آئندہ قرضے حاصل کرنے کے لئے ملاقات دبئی کے مہنگے ہوٹل میں ہوئی۔ ہم بادشاہ لوگ ہیں۔ مزید ادھار مانگنے کیلئے پہلے سے مانگے گئے ادھار سے شاہانہ انداز میں انویسٹ منٹ کرتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے افسران ادھار دینے کے لئے پاکستان بھی آ سکتے تھے لیکن سکیورٹی خدشات کے باعث انہوں نے اپنا دفتر دبئی میں لگایا۔ اب دیکھا جائے تو کیا شیخ رشید غلط کہتے ہیں کہ ''سرمایہ دار تو ایک طرف ہمارے ہاں تو سائبیریا کے پرندوں نے بھی آنا چھوڑ دیا ہے‘‘۔ اب سوال یہ ہے سائبیریا کے پرندوں نے تو ہمارے ہاں آنا چھوڑ دیا ہے‘ مگر سیاست کا راجہ گدھ یہاں سے ہجرت کیوں نہیں کرتا؟ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ راجہ گدھ صرف مخصوص علاقوں میں ہی اڑتا اور بیٹھتا ہے۔ شیخ رشید صاحب نے یہ بھی کہا کہ حکمرانوں کو عوام کے دکھ درد سے کوئی دلچسپی نہیں‘ یہ صرف دیہاڑیاں لگا رہے ہیں، عوام اللہ کے بعد آرمی چیف کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ شیخ صاحب عمران خان کے سیاسی پارٹنر ہیں، کپتان کو ان سے پوچھنا چاہیے کہ وہ اصلی ڈکٹیٹرشپ کی مارکیٹنگ کیوں کر رہے ہیں؟ اگر ایسا کرنا ضروری ہے تو پھر جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ، جنرل ضیا اور جنرل مشرف کو بھی ''اللہ لوک‘‘ قرار دیا جاوے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں