"TSC" (space) message & send to 7575

’میرا سلطان‘ کے دیس میں

13 فروری کی صبح ہمارا جہاز سمندری لہروں کو چھوتے ہوئے استنبول کے اتاترک ایئرپورٹ پر اُترا۔ میں نے جہاز کی کھڑکی سے جھانکا تو دیکھا کہ سمندری لہروں سے اٹھنے والا جوار بھاٹا اور بارش کی رم جھم آپس میں گلے مل رہے تھے۔ اِدھر سے اُدھر جھومتے بادلوں کے آنچل کو لہراتے ہوئے جہاز چند ساعتوں میں بھیگے ہوئے رن وے پر اُتر کر پارکنگ کے جانب دوڑ رہا تھا۔ رن وے کے دائیں بائیں سینکڑوں جہاز اڑان کے لئے تیار کھڑے تھے۔ درجنوں دوسرے جہاز بھی باری باری اُتر رہے تھے۔ 13 فروری کی صبح لاہور کا درجہ حرارت سولہ سینٹی گریڈ تھا۔ ساڑھے چھ گھنٹے بعد استنبول پہنچے تو وہاں ٹمپریچر منفی تھا۔ ترکی میں ہمارا استقبال اگرچہ یخ بستہ ہوائوں نے کیا‘ لیکن اسلامی بھائی چارے اور دوستی کے رشتے نے دلوں کو گرما بھی رکھا تھا۔
تین رکنی صحافتی وفد میں میرے علاوہ پاکستانی صحافت کے 67 سالہ ''اینگری ینگ مین‘‘ اینکر پرسن و سینئر ایڈیٹر سلیم بخاری اور ہماری صحافی بھابی سیدہ ہما بخاری‘ شامل تھے۔ سلیم بخاری صاحب کی مدیرانہ محبت اور بھابی سے میری دیورانہ عقیدت کا احوال ان سفری کالموں میں ترتیب کے ساتھ پڑھیے گا۔ اس سے قبل آپ کو یہ بتانا ضروری ہے کہ ترکی میں ہم ''رومی فورم‘‘ کے مہمان تھے جس کے چیئرمین برادر مسعود ہمیں لاہور سے اپنی معیت میں استبول لے گئے تھے۔ اس چار روزہ دورے میں جہاں بہت کچھ سیکھنے اور دیکھنے کو ملا‘ وہاں برادر مسعود جیسے کومیٹڈ انسان سے تفصیلی تبادلہ خیال کا موقع بھی میسر آیا‘ جو اس مادی دور میں بھی انتہائی مخلص اور اپنی نظریاتی اساس کے حوالے سے ایک پُرعزم شخص ہے۔ ہم جس ویگن میں سوار تھے وہ سمندر کے کناروں کے ساتھ رواں دواں تیز ٹریفک کے ساتھ فراٹے بھر رہی تھی۔ برادر اسلامی ملک ترکی ہر قسم کی ''غیراسلامی ترقی‘‘ سے مزین دکھائی دیا۔ غیر اسلامی ترقی سے مراد وہ جدید انفراسٹرکچر ہے جو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے کاسموپولیٹن شہروں کے لئے لازم سمجھا جاتا ہے اور مسلمان ممالک کی اکثریت جس سے محروم ہے۔ اگر کہیں ہے بھی تو یہ انفراسٹرکچر انہیں ''کفار‘‘ سے مستعار لینا پڑا ہے۔ دو کروڑ آبادی پر مشتمل یہ شہر انتہائی متحرک اور صاف شفاف دکھائی دیا۔ سڑکوں، اوورہیڈ برجز‘ انڈر پاسز اور سمندر کے ذریعے ٹریفک رواں دواں تھی۔ استنبول میں پبلک ٹرانسپورٹ کے طور پر میٹرو بس، ٹرین، ٹرام اور فیری (چھوٹا سمندری جہاز) کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ جنگلے کے بغیر میٹرو بسیں دوڑتی دکھائی دیں تو ہمیں اپنے وہ حکمران یاد آ گئے‘ جن کا طرز زندگی ڈرامہ سیریل ''میرا سلطان‘‘ سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔
ترکی کے دورے میں ہم نے جانا کہ پاکستان میں حال ہی میں پیش کیے گئے شہرہ آفاق ڈرامے ''میرا سلطان‘‘ میں سلطنت عثمانیہ کے عظیم الشان بادشاہ سلطان سلیمان کے کردار کو مسخ کرکے پیش کیا گیا ہے۔ سلطان سلیمان اول‘ جسے تاریخ Suleiman The Magnificent کے نام سے یاد کرتی ہے‘ اپنے 46 سالہ دور میں 44 سال تک محل سے باہر رہا۔ سلطان سلیمان کو جب سلطان بنایا گیا تو سلطنت عثمانیہ کی وسعت پچاس ہزار مربع میل تھی۔ اپنے دور میں اس نے سلطنت کو ایک لاکھ پچاس ہزار مربع میل تک پھیلا دیا۔ ایک ایسا بادشاہ جو سالہا سال میدان جنگ میں گھوڑے کی پیٹھ سے اترا نہ ہو، زرق برق کپڑے پہن کر ملکائوں اور کنیزوں کے ساتھ وقت کیسے گزار پایا ہو گا؟
14 فروری کی صبح ہم جہاز کے ذریعے KONYA (قونیہ) گئے۔ یہ شہر شاہ شمس تبریز ؒ اور مولانا روم ؒ سے موسوم ہے۔ شاہ شمس تبریز ؒ سے منسوب بعض نشانیاں دنیا کے مختلف ممالک میں پائی جاتی ہیں‘ جن میں عراق، شام، بھارت، پاکستان اور ترکی شامل ہیں۔ ایک تحقیق کے بعد یونیسکو نے اعلان کیا ہے کہ شاہ شمس تبریز ؒ کا مزار قونیہ میں ہی واقع ہے۔ مولانا روم کا مزار اسی مقام پر ہے‘ جہاں ان کا مدرسہ تھا اور جہاں وہ اپنے طالب علموں یا مریدین کو روحانیت کے درس سے منور کیا کرتے تھے۔ مزار پر کچھ تبرکات رکھے گئے ہیں‘ جن میں حضرت محمدﷺ کا موئے مبارک بھی ہے۔
قونیہ اور استنبول میں جن تبرکات کی زیارت ہوئی‘ ان میں حضرت ابراہیم ؑکی ٹوپی، حضرت یوسفؑ کی پگڑی، حضرت محمدﷺ کے شہید دندان مبارک، حضرت ابوبکر صدیقؓ کی تلواریں، حضرت عمر ؓ کی تلواریں، حضرت علیؓ کی تلواریں، حضرت جعفر طیارؓ کی تلواریں، حضرت فاطمہ زہراؓکا جبہ، اور حضرت امام حسینؓ کا جبہ سمیت دیگر اشیائے پاک شامل تھیں۔ حضرت محمد مصطفیﷺ کے اس قدم مبارک کے نشان کی بھی زیارت ہوئی جب انہیں معراج کے لئے آسمانوں کے اوپر مہمان بنایا گیا اور رب کائنات ان کا میزبان بنا تھا۔ یہ تبرکات استنبول کے TOPKAPI SARAYI میوزیم میں رکھے گئے ہیں۔ اسی میوزیم میں سلطنت عثمانیہ کے سلاطین کے دور کی اشیاء کی نمائش کی گئی ہے۔ یہاں وہ تمام اشیاء دیکھی جا سکتی ہیں‘ جو ترکی کے متنازع ڈرامہ ''میرا سلطان‘‘ میں سلطان سلیمان اور ان کی تمام ملکائوں نے زیب ِتن کر رکھی ہیں۔ ہیرے جواہرات سے مزین بادشاہوں اور ان کی ملکائوں کے زرق برق ملبوسات دکھاتے ہوئے برادر مسعود ہمیں بتاتے رہے کہ یہ سب قیمتی اشیاء سلطنت عثمانیہ کے سلاطین کو دوسرے ممالک کے بادشاہ تحائف کی شکل میں دیتے تھے‘ ورنہ بذات خود وہ سادہ پوش، سادہ دل اور خدا سے ڈرنے والے لوگ تھے۔
ترکی کا شمار ترقی یافتہ اقوام میں ہوتا ہے۔ وہاں عام آدمی کی حالت ایک عام پاکستان سے بہت بہتر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ترکی کا ایک عام شہری سال بھر میں لگ بھگ دس ہزار امریکی ڈالر کماتا ہے۔ یہ رقم ہماری کرنسی کے مطابق 10 لاکھ روپے سے زیادہ بنتی ہے۔ مزدوروں سے وابستہ عالمی قوانین کے مطابق ترکی میں ایک مزدور کی سالانہ انکم 20,772 امریکی ڈالر ہونی چاہیے۔ پاکستانی کرنسی کے مطابق یہ رقم 20 لاکھ 97 ہزار 9 سو 72 روپے بنتی ہے۔ ترکی کا شمار اگرچہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے لیکن وہاں سب اچھا نہیں۔ ترکی میں ہمیں جہاں بہت کچھ سیکھنے کے مواقع میسر آئے‘ وہاں ہماری کئی خوش فہمیاں اور غلط فہمیاں بھی دور ہوئیں۔ سب سے پہلی غلطی جو میڈیا میں بار بار دہرائی جاتی ہے یہ ہے کہ ترکی کے صدر کا نام طیب اردگان ہے۔ ان کا اصل نام طیب اردواں ہے۔ دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ طیب اردواں آج کے اتاترک ہیں۔ ترکی کے دورے میں ان دانشوروں، صحافیوں، اساتذہ اور طالب علموں سے ملاقاتیں بھی ہوئیں‘ جن کے نزدیک طیب اردواں کا کردار بدل چکا ہے، اب وہ ایک عرصہ سے روایتی حکمران بن چکے ہیں‘ جن کے
دامن پر کرپشن کے گہرے داغ ہیں۔ معلوم ہوا کہ طیب اردواں کا بیٹا اور داماد ایک مہینے میں جو ٹیکس چرا رہے ہیں‘ اس کی مالیت اربوں روپیہ بنتی ہے۔ اس موقع پر ہمیں یاد آیا کہ برادر اسلامی ممالک میں یہ بیٹے اور داماد ہر کہیں موجود ہیں‘ جو صرف ایک ماہ میں اربوں روپیہ کمانے کی سائنس کے ماہر ہیں۔ ان بیٹوں اور دامادوں کے نام‘ جو اپنی زندگیاں اس سنہرے سائنسی اصول کے مطابق گزارتے ہیں کہ ؎
میں چھوٹا سا اک لڑکا ہوں
پر کام کروں گا بڑے بڑے
استنبول میں ہم روزنامہ ''زمان‘‘ کے دفتر گئے‘ جس کی ایک دن کی اشاعت 10 لاکھ سے زائد ہے۔ وہاں ہماری ملاقات ڈپٹی ایڈیٹر مصطفی سے ہوئی۔ ایڈیٹر سے ملاقات اس لیے نہ ہو پائی کہ انہیں حکومت نے جیل بھیج رکھا ہے۔ مصطفی نے بتایاکہ آزادیٔ صحافت کے عالمی قوانین کے مطابق ترکی کا شمار دنیا کے ان 180 ممالک میں ہوتا ہے‘ جہاں میڈیا اور اس سے وابستہ افراد کو اپنے فرائض کی ادائی کے لئے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ترکی کا شمار ان ممالک کی فہرست میں 149واں ہے۔ مصطفی کی عمر لگ بھگ چالیس ہو گی۔ انہیں اس پیشہ سے وابستہ ہوئے 18 سال ہو چکے ہیں۔ شکل و صورت اور گفتگو سے وہ ایک کہنہ مشق صحافی دکھائی دیے۔ انہوں نے بتایا کہ طیب اردواں ایک عرصہ سے ڈکٹیٹر کی طرح ترکی پر حکومت کر رہے ہیں۔ طیب اردواں اور ان کے خاندان کے مختلف افراد پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں، ہم صحافی جب انہیں منظر عام پر لانے کی کوشش کرتے ہیں‘ تو گرفتار کرکے جعلی مقدموں میں جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ ہم نے سوال کیا کہ طیب اردواں کی حکومت اور پاکستان کے حکمرانوں کی دوستی کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟ سوال کے جواب میں صحافی نے ترکی کا ایک محاورہ بولا جس کا اردو ترجمہ کچھ یوں تھا کہ ''مایا کو ملے مایا، کر کر لمبے ہاتھ‘‘ ۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں