"TSC" (space) message & send to 7575

عوام کا مقدر لوہا اور حکمرانوں کی چاندی

کسی نے کہا تھا ''محبت اور جنگ میں سب جائز ہے‘‘۔ محبت جیسا لطیف جذبہ تو ہمارے ہاں مفقود ہو گیا؛ البتہ جنگ کا دور دورہ ہے۔ واضح رہے کہ فی الحال ہم دہشت گردی کی جنگ پر تبرا نہیں کر رہے، ابھی صرف اس جنگ کا ذکر ہو رہا ہے جس کی وجہ سے سیاست میں غدر مچا ہوا ہے۔ اس بار سینیٹ کے ووٹ کا ریٹ آسمان سے باتیں کر رہا ہے۔ پرائم ٹائم پر ٹاک شوز میں انکشافات کرنے والے بعض اینکر پرسنز کے مطابق یہ ریٹ 2 کروڑ روپے سے 10 کروڑ روپے تک پہنچ چکا ہے۔ سینیٹ کے انتخابات کی وجہ سے گھمسان کی سیاست ہو رہی ہے اور یہ قرار پایا ہے کہ ''محبت اور سیاست میں سب جائز ہے‘‘۔
وزیر اعظم سمیت ایمانداری کے اصولوں پر قائم ہونے والی ہماری حکومت ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لئے متحرک ہو چکی ہے۔ وزیر اعظم اس سلسلے کو روکنے کے لئے مختلف سیاسی رہنمائوں سے ملاقات کر رہے ہیں۔ دوسری طرف سیاست کی منڈی میں طلب اور رسد یعنی ( ڈیمانڈ اینڈ سپلائی) کے سنہری اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دل اور مونہہ کھول کر اپنے ضمیر اور قوم کی امانت کے دام لگائے جا رہے ہیں۔ اس سچوایشن پر مجھے بھارتی فلم امرائو جان ادا میں اداکارہ ریکھا پر فلمایا وہ گیت یاد آ رہا ہے‘ جس میں وہ اپنے ہاں آئے ''شائقین موسیقی‘‘ کے دلوں کو لبھانے کیلئے یہ غزل پیش کرتی ہے:
دل چیز کیا ہے آپ میری جان لیجئے
بس ایک بار میرا کہا مان لیجئے
امرائو جان میں ریکھا کے آئے شائقین موسیقی اور مقامی شائقین میں فرق یہ ہے کہ فریق اول شام غزل کے اختتام پر کچھ (انعام و اکرام) دے کر لوٹتے ہیں جبکہ فریق دوم سیاسی سمع خراشی کے بعد اپنا کھا کر اور اہل خانہ کے لئے Take away کرا لیتے ہیں۔
اسحاق ڈار اور جہانگیر ترین کو اکٹھے دیکھ کر ایسے لگا کہ دوسری جنگ عظیم کے حریفوں میں شامل جرمنی اور برطانیہ کے درمیاں صلح کی کوشش ہو رہی ہو۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف کی ٹیم میں اسحاق ڈار کی اہمیت ویسی ہے‘ جیسی سابق صدر آصف زرداری کی ٹیم میں رحمان ملک کی ہوا کرتی تھی۔ ملک صاحب نے قومی سیاست میں 360 ڈگری کا یُوٹرن ایجاد کیا تھا۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کو چوہدری برادران کے ڈیرے اور الطاف بھائی کے ہاں لندن لے گئے۔ اس روٹ پر چلتے ہوئے انہوں نے زرداری حکومت کے ہر وزیر اعظم کو نائن زیرو کی یاترا کرائی۔ غالب کا ایک شعر جو اس نوع کی سیاست کے گرد حاشیہ کھینچتا ہے کچھ یوں ہے:
دل پھر طُوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے
ذکر خیر تو میاں نواز شریف، ان کی حکومت اور اسحاق ڈار صاحب کا ہو رہا تھا‘ پیپلز پارٹی، رحمان ملک اور زرداری صاحب کا ذکر 360 ڈگری کے یُوٹرن سے آ گیا جسے افہام و تفہیم کا نام دیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ اس ملک میں ویسا ہی ہوا ہے‘ جیسے تاریخ میں سومنات کے مندر سے ہوتا رہا۔ اس پارٹی کی رام کہانی کی ورق گردانی کریں تو ماضی کے معروف فلم میکر شباب کیرانوی کی ''نیک پروین‘‘ بھی گنہگار لگتی ہے۔ اس کے مقابل نون لیگ سے تعلق رکھنے والے ایماندار اور بااصول ہیروز، سائیڈ ہیروز اور عوامی اداکاروں کا کُھرا اسی پروڈکشن ہائوس سے جا ملتا ہے‘ جو ہمارے ہاں ہارس ٹریڈنگ کے مینوفیکچرر اور ہول سیل ڈیلر ہیں۔ پاکستان میں ہارس ٹریڈنگ کا کالا کاروبار فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے دور میں متعارف ہوا۔ 1962-64ء میں ایوب خان نے بابائے قوم حضرت قائداعظمؒ کی حقیقی بہن محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف اس سائنس کو پہلی بار پریکٹس کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عوام کو براہ راست ووٹ کاسٹ کرنے کا حق حاصل نہیں تھا۔ بلدیاتی انتخابات میں کامیاب کرائے گئے ممبران کے ووٹوں کے ذریعے عوامی نمائندے منتخب کئے جاتے تھے۔ سستے زمانوں میں ایم پی اے کے ووٹ کا ریٹ 5 ہزار اور ایم این اے کے لئے ووٹ دینے پر مبلغ 7 ہزار روپے رشوت ادا کی گئی۔ 'ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘ کے مصداق فیلڈ مارشل کے عسکری اور جمہوری لواحقین‘ جن میں جنرل محمد ضیاالحق، میاں محمد نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف سمیت دیگر شامل رہے، کی شبانہ روز محنتوں سے یہ ایک کارپوریٹ انڈسٹری کا روپ دھار گیا۔ عمران خان نے انکشاف کیا ہے کہ انہیں شوکت خانم کینسر ہسپتال کے لئے 16کروڑ روپے کے فنڈز دینے کے عوض سینیٹ کی ایک نشست کی ڈیمانڈ کی گئی ہے۔ پانچ ہزار سے شروع ہونے والے اس کالے کاروبار میں کس قدر ''برکت‘‘ پڑ چکی ہے۔
ہارس ٹریڈنگ کو کارپوریٹ انڈسٹری بنانے والے ہی اب اس کی روک تھام میں مصروف ہیں۔ سیاسی وفاداریاں خریدنے کی بکر منڈی چھانگا مانگا میں بھی لگائی گئی تھی۔ 1988ء میں چھانگا مانگا اور بعد ازاں کوہ مری میں ہارس ٹریڈنگ فیسٹیول منعقد کرائے گئے۔ آئی جے آئیاں کیسے بنائی گئیں اور اس پریکٹس سے قوم کی کیا خدمت کی گئی‘ کس سے ڈھکا چھپا ہے؟ میں اس وقت حیران ہوتا ہوں جب اینکر پرسنز اور تجزیہ کاروں کے گیٹ اپ میں جیرے بلیڈ اور شیدے پستول ہوائی فائرنگ کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ چوروں کا نام تو لیتے ہیں لیکن چور کی ماں کا ذکر نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ جمہوریت بانجھ ہے‘ جو ڈلیور نہیں کر پا رہی۔ آرڈر پر تیار کئے گئے ان سقراطوں اور ارسطوئوں سے کوئی پوچھے‘ جمہوری قائدین کے روپ میں متعارف کرائے گئے جیرے بلیڈوں اور شیدے پستولوں کو کیا قائدین سمجھ لینا چاہیے؟ مادر ملت کے خلاف دھاندلی اور ہارس ٹریڈنگ کرکے انہیں سیاسی موت مارا گیا جبکہ ذوالفقار علی بھٹو جیسے ذہین اور محب وطن لیڈر کا عدالتی قتل کیا گیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی عوامی لیڈر کا سرعام قتل کرکے دہشت گردی کے کھاتے میں درج کر دیا گیا۔ اس کے بعد قوم کے پاس جو چوائس رہ جاتی ہے اس سے مصر کا یہ سیاسی بازار سجا دیا گیا ہے۔
ہماری بدقسمتی رہی ہے کہ پی سی بی کے چیئرمین سے لے کر نگران حکومتوں اور عدل مہیا کرنے والے چیف صاحبان کے عہدوں کے لئے چلائی جانے والی تحریکوں تک‘ سب پر بھاری انویسٹمنٹ کی گئی۔ ہماری سیاسی تحریکیں جعلی، ہمارے لانگ مارچ کاروباری، ہمارے دھرنے دو نمبر، ہماری ریلیاں منافع بخش، ہمارے سیاسی رہنمائوں کے وعدے جھوٹے، ہماری اُمیدیں محرومیاں اور ہماری خوشیاں انتہائی وقتی ہوتی ہیں۔ یکم مارچ سے تمام پٹرولیم مصنوعات دوبارہ مہنگی ہونے کا اندیشہ ہے‘ حالانکہ عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ وزیر اعظم کے معاشی مشیروں کو عوامی دکھ درد اور اشکوںکا اندازہ نہیں ہے‘ اسی لئے تو وہ ایسے اقدامات سے حکومت کی بنیادوں میں طوفان کے بیج بو رہے ہیں۔
غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیۂ طوفاں کئے ہوئے
قوم کو جھوٹی تسلیوں اور وعدوں سے بہلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ نیپرا کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ''قوم کو آئندہ پانچ سال بھی لوڈ شیڈنگ سے نجات نہیں ملے گی‘‘۔ ایسا اس لیے ہو گا کہ گزشتہ تھوڑے عرصہ میں تین مختلف زیر تعمیر پاور پروجیکٹس بند ہو گئے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ آسمانی بجلی سے ختم نہیں ہو گی، اس کے خاتمے کیلئے بجلی بنانا ہو گی۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں کک بیکس کے بغیر قومی خدمت سرانجام دینے کا رواج نہیں۔ ہم طویل عرصہ تک دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کے سٹریٹجک پارٹنر رہے ہیں، چین سے ہماری دوستی ہمالیہ سے بھی بلند ہے، اگر ہم تھوڑی سی بھی سنجیدگی اور دور اندیشی سے کام لیتے تو یہ سپر طاقتیں ہمارے اندھیروں اور لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کر سکتی تھیں لیکن ہمارے محبان کو امرائو جان ادائوں اور ثریا بھوپالیوں کی طرح نذرانے اور ویلیں (نقد انعام) لینے کی عادت پڑ چکی ہے۔ حال ہی میں برادر اسلامی ملک ترکی سے لوٹا ہوں۔ وہاں کے عوام لوڈ شیڈنگ سے ناواقف ہیں۔ جدید اور ترقی یافتہ دنیا میں تو لوڈشیڈنگ کا تصور ہی نہیں ہے۔ پاکستان میں بھی ہمارے بچپن میں لوڈشیڈنگ نہیں ہوا کرتی تھی۔ یہ عذاب ہمیں جوانی میں لاحق ہوا تھا۔ اب لگتا ہے شباب تو ختم ہو گیا لیکن یہ عذاب جاری ہے، منیر نیازی نے شباب اور عذاب کے متعلق کہا تھا:
کتاب ِعمر کا اک اور باب ختم ہوا
شباب ختم ہوا‘ اک عذاب ختم ہوا
جھوٹی امیدوں اور جعلی تسلیوں سے ہمارے یہ عذاب ختم نہیں ہوں گے۔ خادم اعلیٰ شہباز شریف مائیک گراتے ہوئے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا اعلان کیا کرتے تھے۔ چھوٹے میاں صاحب بالترتیب چھ ماہ، سال، ڈیڑھ سال اور دو سال میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا عندیہ دیا کرتے تھے لیکن عملی طور پر کچھ نہ کر سکے۔ چنیوٹ سے برآمد ہونے والی معدنیات کے ذخائر کے متعلق ماہرین نے کہا ہے کہ ان سے قومی خوشحالی کی توقع کرنا فضول ہے۔ یہاں سونے اور تانبے کی بجائے صرف لوہا ہے اور اسے نکالنے کے لئے بھی سالہا سال درکار ہوں گے۔ یہ ایک ایسا پروجیکٹ ہے کہ قوم مستقبل کے لیے کمیٹی ڈال کر بھول جائے۔ حافظ حسین احمد نے چنیوٹ سے برآمد ہونے والی معدنیات سے متعلق تبصرہ کیا ہے کہ چنیوٹ سے حکمرانوں کی پسندیدہ دھات نکل آئی ہے، یہ دھات قوم کیلئے تو لوہا ہی ثابت ہو گی جبکہ حکمرانوں کی چاندی ہو جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں