"TSC" (space) message & send to 7575

فیصلہ

قومی سیاست اور اقتدارکے کھیل میں''شمشیر وسناں اور طائوس ورباب‘‘ کی ترتیب بدلتی رہتی ہے۔ اس بار کراچی میں نیرو نے چین کی بانسری نہیں بجائی، گورنر عشرت العباد نے گٹار بجایا ہی تھاکہ رینجرز نے نائن زیرو سے مبینہ طور پر نیٹو اسلحہ برآمد کرلیا۔ نیٹو اور متحدہ کی جانب سے تردید یں آچکیں۔ نیٹو نے کہاکہ ہم اپنے اسلحہ پرنگاہ رکھتے ہیں، یہ غیر کے قبضے اور استعمال میں نہیں جاسکتا جبکہ ایم کیوایم کے رہنمائوں نے کہاکہ اسلحہ لائسنسی ہے۔ متحدہ کے کئی ایک رہنمائوں نے نائن زیرو سے اسلحہ برآمد ہونے کی بابت یہ بیان دیا کہ گزشتہ برسوں میں ہمارے کارکنوں اوررہنمائوں کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی تو ہم نے اپنی سکیورٹی کے لیے لائسنسی اسلحہ حاصل کیا۔ان کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ریاستی ادارے جب جان ومال کے تحفظ کی ذمہ داری ادا نہیں کرپائے تو ہم نے اپنی حفاظت کا ذمہ خود اٹھایا۔ ایم کیوایم کئی دہائیوں سے سندھ کے شہری علاقے بالخصوص کراچی کی سب سے طاقتور سیاسی جماعت ہے۔
گزشتہ 40 برسوںمیںاس نے کئی آپریشن جھیلے لیکن ایسا پہلی بار ہوا کہ ریاستی ادارے کے ساتھ ساتھ اسے میڈیا میں بھی بہت بڑے آپریشن کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ متحدہ ایسی سیاسی جماعت ہے جس کے سربراہ الطاف حسین اپنی لانگ ڈسٹنس ٹیلی فون کال میں غزل ،گیت اور ٹھمریاں سنا دیا کرتے ہیں۔ گورنر عشرت کا ویڈیوکلپ دیکھیں تو وہ گٹار میں اُس بھارتی گیت کی دُھن بجاتے دکھائی دیتے ہیں جو آج کی جوان نسل کے لیے محبت کا ترانہ بن کر مقبول ہوچکا ہے۔ اس گیت کی استھائی ہے''میری عاشقی تم ہو‘‘۔ الطاف بھائی کے ایک ویڈیو کلپ کا تذکرہ عمران خان بہت کرتے ہیں جس میں رحمان ملک پیپلز پارٹی کے ششماہی وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کومتحدہ کے سربراہ سے آشیرباد دلوانے نائن زیرو لے گئے تھے۔اس موقع پر الطاف بھائی نے پیپلز پارٹی کے اس وقت کے نووارد راجہ وزیر اعظم کویہ گیت سنا کر اپنی خوش دلی کا اظہا رکیا تھا کہ ''راجہ کی آئے گی بارات ، رنگیلی ہوگی رات ، مگن میں ناچوںگی‘‘۔
متحدہ کے رہنما عامرخان کو جب انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیاتو انہوں نے جج سے کہا :'' میں ایک سیاسی جماعت کا رہنما ہوں، مجھے آنکھوں پر پٹی اور ہاتھوں میںہتھکڑیاں لگا کر یوں پیش کیاگیا جیسے میں عادی مجرم ہوں‘‘۔ فاضل جج نے اس پرکہا: ''سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹوکو بھی عدالت میں ہتھکڑیاں لگا کر پیش کیاگیاتھا‘‘۔ کتابوں ،کالموں اور ٹاک شوز میں یہ قراردینا کہ قانون سب کے لیے برابر ہوتا ہے ،کس قدر دلآویز بھاشن ہے، لیکن عملی طور پر ہمارے ہاں اس تصورکی نفی کی جاتی رہی ہے۔ تاریخی اور معروضی حالات کاجائزہ لیں تو قانون کی پاسداری اور عملداری کے لیے کسی خاص وقت ، ماہ وسال اور موزوں موسم کا انتظار تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔ تاریخ میں ایسے مواقع قطار در قطار سرجھکائے کھڑے ہیں کہ جب انصاف ہونا چاہیے تھا، نہ ہوسکا۔ ذوالفقار علی بھٹو عوام کے ہر دلعزیز لیڈر اور منتخب وزیر اعظم تھے، انہیں قتل کے ایک مقدمے میں پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔ بھٹو صاحب کی بے گناہی وقت نے ثابت کردی مگر سازش کے تحت عوامی رہنما کا قتل قوم پر بھاری پڑا جس کی قیمت آج تک ہماری کئی نسلیں ادا کرچکی ہیں، مگر بلیدان کا سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے غیرمنصفانہ دور نے ہماری تہذیبی ،مذہبی ،ثقافتی اور معاشرتی روایات کو برباد کرکے رکھ دیا۔ ہم اپنے ہر سیاسی دکھ اور ہر معاشرتی مصیبت پر اپنے ان ''محبان وطن‘‘ کی برانڈ سٹیمپ دیکھ سکتے ہیں۔
نائن زیرو پر رینجرزکے چھاپے کے بعد میڈیا میں بریکنگ نیوز،ٹاک شوز، تبصروں اور تجزیوںکا طوفان آ گیا۔ مین سٹریم میڈیا کا رویہ متحدہ کے حوالے سے خاصا محتاط رہا جبکہ بعض نیوز چینلز نے ایم کیوایم کو ٹارگٹ بنائے رکھا۔ متحدہ کے نمائندگان نے صبروتحمل اور نپے تلے انداز میں اپنا موقف پیش کیا۔ الطاف حسین،ذوالفقار مرزا اور عمران خان کے انٹرویوز میڈیا میں دیکھیں اور سنیں توکراچی کے لوگوں پر ترس آتاہے۔کراچی کو کبھی عروس البلاد ( شہروں کی دلہن ) اور روشنیوں کا شہرکہاجاتا تھا، یہ پاکستان کا لندن ، پیرس اور نیویارک تھا،اس میں بسنے والوں میں بھائی چارہ تھا، سب لوگ آپس میں امن وامان کے ساتھ رہتے تھے، لیکن حصول ِاقتدار، سیاسی مفادات اور ایک دوسرے پر غلبہ پانے کی اندھی خواہشات نے اس شہرکی زندگی میں زہر بھر دیا۔کراچی کے باسی طویل عرصہ سے فرازکے ''شہرِآشوب‘‘ جیسے کسی شہر میں لاوارث لاشوں کی طرح رہ رہے ہیں:
سارا شہر ہے مردہ خانہ
کون اس بھید کو جانے گا
ہم سارے لاوارث لاشیں
کون ہمیں پہچانے گا
کراچی کو دیکھیں تو ظلم کی ہزارداستان بھی اس شہرکی کہانی کے سامنے چھوٹی اورجھوٹی معلوم ہوتی ہے۔ کئی دہائیوں سے یہاں قتل وغارت گری معمول بن گیا ہے۔اس شہر نے ایسے نحس دن بھی دیکھے کہ صبح سے شام تک 54 شہریوں کوسرعام قتل کردیاگیااور رات کو اسلام آباد میںمُکّالہراتے ہوئے کہا گیاکہ ''عوامی طاقت کے سامنے آنے والوں کو کچل دیاجائے گا‘‘۔ 12مئی 2007ء کا دن یاد کیجئے جب بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن اس وقت کے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوھری کو سندھ ہائی کورٹ کے بار روم تک لے جانا چاہتے تھے۔افتخار محمد چودھری کو تحریک بحالی آزاد عدلیہ کے داعی وکلا سے خطاب کرنا تھا۔ معزول چیف جسٹس کو کئی گھنٹے کراچی ایئر پورٹ پر محبوس رکھا گیا جبکہ انہیں خوش آمدید کہنے والے سیاسی کارکنوں اور شہریوں کو بھیڑ بکریوںکی طرح کاٹ پھینکا گیا۔ قتل کیے جانے والے 54 مقتولین میں پی پی پی، پی ٹی آئی،اے این پی،جماعت اسلامی اور متحدہ کے کارکنوں کے علاوہ عام شہری بھی شامل تھے۔ اس سانحے کے کچھ عرصہ بعد معزول چیف جسٹس اپنے عہدے پر بحال ہوگئے۔
سوئوموٹو ایکشن لینا افتخار محمد چودھری کا معمول تھا۔انہوں نے عتیقہ اوڈھو سے وائن کی دوبوتلیں برآمد ہونے پر بھی سوئوموٹو ایکشن لیاتھا، لیکن آزاد عدلیہ کی بحالی کے لیے سڑکوں پر اپنی جانوں کا نذرانہ دینے والے 54 انسانوں کی ہلاکت کے سانحے کو اس قابل نہیں سمجھا کہ اس پر سوئوموٹوایکشن لیں ۔ مقتدر حلقوں اور عدل وانصاف کی دیویوں اور دیوتائوں کا یہی وتیرہ رہا ہے۔ فیض نے ان خاک نشینوں کے ناحق خون کامقدمہ یوں بیان کیاتھا:
نہ مدعی، نہ شہادت، حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا، رزقِ خاک ہوا
سب یہی کہہ رہے ہیں کہ قانون کی بالادستی قائم ہونی چاہیے، قانون سب کے لیے برابر ہوناچاہیے ۔متحدہ کے عامر خان ہوں یا پیپلز پارٹی کے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو، قانون سب کے لیے برابر ہوناچاہیے۔ سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو بھی عام شہریوں کی طرح اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کرنا چاہیے۔ اس وقت تک قانون کی بالادستی اور انصاف قائم نہیں ہوسکے گا جب تک ہم سب کو قانون کی ایک ہی لاٹھی سے نہیں ہانکیں گے۔ اس سوال کا جواب ملتا ہے یانہیں،ایک الگ حقیقت ہے، لیکن مقتدر حلقوں کے ایوانوں اورگنبدوں میں اس سوال کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ نائن زیرو کے بعد اب اگلا ٹارگٹ کیاہوگا؟ پاکستان میں ہیومن رائٹس کی سربراہ عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ جہاں ناجائز اسلحہ اورمفرور ہوں وہاں چھاپے پڑنے چاہئیں، مگر چھاپوں کے لیے مجسٹریٹ کا اجازت نامہ بھی ہوناچاہیے۔ دیکھا جائے تو عاصمہ جہانگیرکا بیان معمولی نوعیت کامعلوم ہوتاہے، لیکن قانون کی پاسداری اور اس پر عمل درآمدکا طریقہ کار یہی ہوناچاہیے۔ فرد واحد ہو یا کوئی مذہبی، لسانی اور سیاسی جماعت ، کسی کو شہزادہ شیخو اور انوکھا لاڈلا نہیں بننے دینا چاہیے۔افراسیاب خٹک اور رضاربانی سمیت دیگر سینیٹرزکو جب ڈی جی رینجرز جنرل رضوان اختر نے کراچی کے امن کے قاتلوں کے متعلق بریفنگ دی تھی تو ہمارے سیاسی رہنمائوں کو ناراض ہونے کے بجائے ان سے ٹھوس ثبوت مانگنے چاہیے تھے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ سیاسی مک مکاکرنے کے بجائے کراچی اور اس میں بسنے والوں کو ان کا سکھ ،چین اور سلامتی واپس کی جائے اور یہ فیصلہ بھی کیاجائے کہ آئندہ قانون کی پاسداری اور عملداری کے لیے کسی خاص وقت ، ماہ وسال اور موزوں موسم کا انتظار کیے بغیر اسے ہر موسم کا پھل پھول بنایا جائے گا۔اس طرح یہ گلاب ہرگھر کے آنگن میں بلاامتیاز کِھل سکے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں