ہمیں اِس بات کا ادراک کرنا ہے کہ کہیں ہمارا مجموعی فوکس دُھندلا تو نہیں ہوتا جا رہا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ایک ہی تجربہ اِ س اُمید کے ساتھ بار بار دہرائے جا رہے ہیں کہ نتائج مختلف اور ہماری منشاء کے مطابق ہوں گے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم کٹی پتنگ کی مانند بے رحم ہوا کے رحم و کرم پر ہیں۔ ہم شایدمنزل نا آشنا ہیں جو منزل آشناؤں کے ساتھ مقابل ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم اُن کو مات دے سکتے ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ترقی یافتہ اقوام فکروعمل سے لیس اور ہم فکرو عمل سے بے بہرہ!!
اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں اور بین الاقوامی سیاست یا قوموں کی سائنسی ، صنعتی اور معاشی ترقی کا عمیق جائزہ لیں تو ہمیں اِس نتیجے پر پہنچنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آ ئے گی کہ اِس جہانِ تگ ودو میں ہم اپنی ہمعصر قوموں سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ دنیا کے بیشتر مما لک جنہیں آزادی کی نعمت گز شتہ صدی کے وسط میں ملی‘ آج بڑی طاقتوں میں شمار ہوتے ہیںـــ۔ دوست ملک چین کی مثال قابلِ تقلید ہے۔ قوم متحرک ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ترقی کی منازل طے کر گئی۔ جرمنی اور جاپان پچھلی صدی کے وسط میں دوسری جنگِ عظیم کی ہولناک تباہی کا نشانہ بنے۔ برسوں مشرق و مغرب کے زیر تسلط رہے لیکن اِس کے باوجود وہ آج کی بڑی اقتصادی طاقتوں میں شمار ہوتے ہیں اور قوموں کی برادری میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔کیا کبھی ہم نے اِس بات پر غور کیا کہ وہ کیا وجوہ ہیں کہ قومیں محوِپرواز ہیں اور ہمارے لئے رینگنے کو بھی زمین تنگ! غور و فکر کا مقام ہے! سنجیدہ تجزیہ درکار ہے کہ دُنیا میں کامیاب قوموں کی اُونچی پرواز کے پیچھے کیا راز پنہاں ہیں اور ہماری سُست روی کے پیچھے کیا عوامل کار فرما ہیں۔
سڑسٹھ سال ہوتے ہیں جب پاکستان آزاد ریاست کے طور پر وجود میں آیا۔ آزادی کے وقت نئی ریاست کو مسائل کے انبار کا سامنا تھا۔ بھارت کے ساتھ جنگ کی صورت ِ حال، مہاجرین کی آباد کاری ،سیاسی عدم استحکام،نئی مملکت چلانے کودرکار انتظامی مشینری اور کسی بھی قسم کے انفراسٹرکچر کا فقدان جیسے مسائل کا سامنا تھا۔ عام طور پر کسی بھی نئی قائم ہونے والی ریاست کو‘ ایسے ہی ملتے جلتے مسائل کا سامناہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں مسا ئل رفتہ رفتہ اپنی ہیئت اور شکل بدلتے رہے اور ابھی تک کسی نہ کسی صورت میں ریاست کے عدم استحکام کی وجہ بنتے آ رہے ہیں۔ میرے نزدیک قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کی وفات پاکستان کا سب سے بڑا نقصان تھا۔ اگر کچھ عرصہ مزید حیات رہتے تو اُن کے وژن اور اخلاص سے پاکستان کی نظریاتی بنیاد اُستوار کرنے میں مدد ملتی۔ اُن کی بے وقت رحلت کا نقصان ہوا کہ ملک مختلف الخیال طبقات کی نظریاتی کنفیوژن کا شکار ہوتا رہا۔اور یہ عنصر آج تک مختلف مکاتبِ فکر کو تقسیم کئے ہو ئے ہے۔ ہماری قومی سُست روی کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے۔
ہم خود فریبی کا شکار لوگ ! خود کو دھوکا دینے کے ہنر میں طاق! ہم اپنی ذات کے حصار میں قید لوگ ، قومیت کے فروغ کے لئے بیسیوں سیمینار کروا سکتے ہیں۔کبھی بھی وقت کی پابندی نہ کرنے والا بھی وقت کی اہمیت پر گھنٹوں بلا توقف گفتگو کر سکتا ہے۔ بھوک اور ننگ
سے کوسوں دُور شخص بھی غریب کی زندگی میں انقلاب برپا کر دینے کے دعوے کر سکتا ہے ۔ہر کوئی ہر صورت میں جائزنا جائز طریقے سے دولت مند ہونا چاہ رہا ہے کہ یہی طاقت ور اور موثر ہونے کا نسخہ ہے۔ہم سیاست کو بڑے عہدوں پر فائز ہونا خیال کرتے ہیں۔ منصب کو مقتدر ہونے کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور سماجی خدمت کو ناموری جانتے ہیں۔ہم قانون کی بالا دستی کو نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں لیکن قانون گر خود پر لاگو ہو جائے تو اُسے ہتک ِ عزت تصورکرتے ہیں۔ ہم مناصب کے اہل نہ ہونے کے باوجود خود کو الگ نہیں کرتے اِس کی واضح مثال یہ ہے کہ آج تک منصب پر فائز کسی شخص کو استعفیٰ دینے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ریاست میں بڑے جرائم سے خلاصی آسان ہے اور چھوٹے جرائم میں سزا عام روایت‘ اِسی لئے آج تک کسی قومی ملزم کو سزا نہیں دی جا سکی۔خود کو مسٹر رائٹ سمجھنا اور دوسروں پر کیچڑ اُچھالنا ہمارا چلن ہے ۔ ہم میں سے بہت سوں کو ادراک ہے کہ اچھائی اور حُسنِ عمل کیا ہے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ وہ دوسرے شروع کریں۔ ہم خود کو درپیش تمام مسائل کو لسانی اور
گروہی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ آج تک ہم لسانی اور گروہی تعلق داریوں سے نکل نہیں پائے۔ ہم اسلام کو زندگی کا ضابطہ تصور کرتے ہیں لیکن اپنی زندگی کو کسی اسلامی ضابطے میں لانے کو تیار نہیں۔ اسلامی مملکت میں موجود تمام مکاتبِ فکر پر متفق ہیں کہ تفرقہ اسلامی دُنیا اور ہماری پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ ہے لیکن پھر بھی ہم اپنے فرقے کے پلیٹ فارم سے اِس ایشو کا سدِباب سوچتے ہیں۔
اِس بات کا ادراک کرنا ضروری ہے کہ ہماری بقا ء کا مرکز و محور کیا ہے؟ ہمیں پتہ ہونا چاہیے کہ ایک ہی تجربہ دُہرانے سے نتائج کبھی بھی مختلف نہیں آئیں گے۔ منزل آشنائی ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے اور ہمیںاپنی ترجیحات طے کرنے میںکوئی تامل نہیں ہونا چاہیے۔آج کے دور میں جب دُنیا آپ کی اُنگلی کی نوک پر ہے تو یہ جاننا دُشوار نہیں کہ ترقی یافتہ قومیں اپنے طرزِ عمل سے منزل پا لینے کی دُھن میںکیونکر مگن ہیں اور ہم کیوں محوِ تماشائے لب بام ابھی ! یہ بات بھی طے ہے کہ ترقی یافتہ اقوام کی طرح فکروعمل سے لیس ہو کر ہی ہم منزل حاصل کرنے کی پوزیشن میں آسکتے ہیں اور فکرو عمل سے بے بہرہ پن ہمیں بتدریج رُسوائی اورتباہی کی طرف لے جا سکتا ہے جو بہرحال ہم میںسے کسی کا بھی نہ تو خواب ہو سکتا ہے اورنہ ہی خواہش !