خدشات اور اُمیدوں پہ کھڑانیا پاکستان

وطن ِ عزیز میں2018ء کے عام انتخابات کے پُرامن انعقاد کے بعد ان دنوں عجب کشمکش کی صورت ِ حال ہے ۔گو کہ ان انتخابات کے بعد ملکی تاریخ میں جمہوریت کے حوالے سے اہم پیش رفت ہوئی‘ فیئرانتخابات منعقد ہوئے اور اُس کے نتیجے میں اقتدا ر کی پُر امن تبدیلی نظر آ رہی ہے۔
انتخابات سے قبل صاحبانِ رائے منقسم تھے اور شاید آ ج بھی منقسم نظر آتے ہیں۔انتخابات سے قبل بہت سے مفروضے میڈیا اور سوشل میڈیا پر عام تھے‘ جو وقت کے ساتھ ساتھ صرف اندازے اور سطحی نوعیت کے تجزیے ثابت ہوئے ۔ اب ایک لکیر ہے‘ جس کے ایک طرف کھڑے لوگ خدشات کی آڑ میں مایوسیوں کا پرچار کرتے ہیں اور دوسری طرف کچھ لوگ اُمید کی آڑ میں آنے والے اچھے وقت کی نوید سناتے ہیں۔جیسے ابھی تک کچھ لوگ ہیں‘ جو خدشات کی بنیاد پر آنے والے دنوں کا بھیانک نقشہ کھینچ رہے ہیں اور کچھ ہیں‘ جو اُبھرتے ہوئے سیاسی منظر نامے سے پُر اُمید ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آنے والا وقت مثبت تبدیلیا ں لئے ہوئے ہے۔
ایسے میں خدشات اور اُمیدوں کے پھسلن زدہ کناروں پر چلنے والے عام لوگ گومگو کی کیفیت میں ہیں۔ خدشات کیا تھے یا ابھی تک کیاہیں؟خدشات یہ کہ کیا ہونے جا رہا ہے؟کچھ صحیح نہیں ہونے جا رہا ؟یہ ملک کس سمت کو جا رہا ہے؟کون ہے‘ جس نے یہ سمت طے کرنی ہے یا کون سمت طے کرنے کا ذمہ دار ہے ؟ کیا ‘جو سمت طے کر رہا ہے‘ وہ سمت طے کرنے کا اہل بھی ہے یا نہیں؟ خدشات یہ کہ ادارے کیا کر رہے ہیں اور کیوں کر رہے ہیں؟ کیا ادارے آئینی حدود سے نکل کر کام کر رہے ہیں؟ خدشات یہ کہ کچھ جذباتی نوجوان کیسے حکمرانی جیسا سنجیدہ کام سر انجام دیں گے اور یہ ناتجربہ کار لوگ کیسے ملک کودرپیش سنگین مسائل سے نکال پائیں گے؟ انتخابات سے پہلے خدشات تھے کہ الیکشن کو ملتوی کرکے ماہرین کی ایسی حکومت لائی جائے گی‘ جو ملکی نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کرے گی اور پھر الیکشن کا انعقاد ہوگا۔ الیکشن سے چند دن پہلے تک یہ خدشات سنجیدگی سے زیربحث رہے کہ الیکشن نہیں ہوں گے اور نگران حکومت کی مدت میں دو سال تک توسیع کردی جائے گی؛ حالانکہ یہ بات سب کے علم میں تھی کہ آئین میں ایسا کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اس طرح کے انتظام کے لئے خصوصی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے‘ جو شایداتنی جلدی ممکن ہی نہ تھے۔ 
جارحانہ سوشل میڈیا کے اس دور میں خدشات بیانیہ کی شکل اختیار کرتے ہیں اور پھر سماجی رابطوں کے ذرائع پر عام ہو کر مایوسی کا سبب بنتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے طول و عرض میں‘ جہاں جہاں سوشل میڈیا کی رسائی ہے‘ وہاں مایوسی کا بیانیہ عام ہو جاتا ہے؛ چونکہ سوشل میڈیا پر منفی خبر اور منفی رجحان کی پذیرائی زیادہ ہے اور مثبت خبر کی اہمیت محض ایک خبر تک ہو تی ہے ‘اس لئے سوشل میڈیا پر مایوسی پھیلانے والوں کی مانگ زیادہ ہے اور چونکہ منفی رجحان کی مانگ زیادہ ہے‘ اس لیے اُمید اور تبدیلی کا بیانیہ اتنا مؤثر نہیں ہوتا‘ جتنا اُس کو ہونا چاہیے۔سوشل میڈیا پر تواتر سے حجت ‘ طنز اور بے جا منفی تنقید‘ اس قدر زیادہ ہے کہ کسی کی بھی فراست و رواداری وہاں ماند پڑ جاسکتی ہے۔ 
خدشات اور مایوسی کے سائے میں کچھ لوگ اُمید اور مثبت تبدیلی کا بیانیہ لے کر نکلتے ہیں۔ اُن کی رائے میںملک میں ا س وقت ایک گلا سڑا اسٹیٹس کو کا نظام موجود ہے ‘جو کئی دہائیوں سے پسے ہوئے طبقات کو کچھ نہ دے سکا ۔اس لئے نظام میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ یہ نظام عوامی اور عمومی منفعت کا نظام نہیں‘ کیونکہ اس نظام میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے۔ ا س نظام میں سماجی اور معاشرتی انصاف کا حصول ممکن ہی نہیں۔ اُمید اور تبدیلی کے حامی یہ سمجھتے ہیں کہ اسٹیٹس کو کے نظام کو بدلنا اشد ضروری ہے‘اگر آپ عام انتخابات2018ء کا بغور جائزہ لیں‘ تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ لوگوں نے عمومی طور پر اسٹیٹس کو کے خلاف ووٹ دی ہے اور اُمید اور مثبت تبدیلی کے بیانیہ کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کیاہے ۔ 
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انتخابات میں پاکستان تحریک ِانصاف نے پورے ملک کو سرپرائز کیا ؛ حالانکہ ایسا نہیں ہے‘ کیونکہ نتائج کم وبیش ایسے ہی آئے‘ جیسے متوقع تھے ۔ الیکشن سے قبل آنے والے تمام سروے اس بات کی نشان دہی کر چکے تھے کہ پاکستان تحریک ِانصاف بڑی جماعت کے طور پر اُبھرے گی۔پاکستان تحریکِ انصاف کی کامیابی کی وجہ یہ تھی کہ وہ بحیثیت ِجماعت تندہی اور مستقل مزاجی کے ساتھ کرپشن ‘ گورننس اور تبدیلی کے اپنے بیانیے پر قائم رہی ۔یہی وجہ ہے کہ انتخابات 2018ء کے حیران کُن نتائج کے بعد حکومت سازی کے لئے بڑی سیاسی جماعتیں کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں اور اُمید ہے کہ چند دنوں میں یہ مراحل طے ہو جائیں گے ‘ جس کے نتیجے میں جس جماعت کو جہاں عوامی تائید حاصل ہوئی‘ وہ وہاں پر حکمرانی کا حق رکھتے ہوئے حکومت بنائے گی۔
تاحال مایوسی اور اُمید کا پرچار کرنے والوں میں کشمکش جاری ہے ۔ ممکنہ وزیر اعظم عمران خان کی وکٹری سپیچ کے بعد تبدیلی کے بیانیہ کو تقویت ملی ‘مگر پھر بھی خدشات کا تذکرہ زیادہ ہیں اور اُمیدیں کم دکھائی دیتی ہیں۔پاکستان مشکل حالات سے گزر رہا ہے ۔ ہمیں باہمی تعاون‘ یک جہتی اور یگانگت کی ضرورت جتنی آج ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ہر حیثیت میں وطن ِ عزیز کے مفادات کو مقدم رکھیں۔مثبت تبدیلی اور اُمید کا بیانیہ‘ اگر ملک کے مفاد میں ہے‘ تو اُس کی تائید کریں اور اُس کو فروغ دیں اور اُس وقت تک حمایت کریں‘ جب تک وہ ملک کے وسیع مفاد میں ہو اور جب آپ کو احساس ہو کہ جس شخص یا جماعت کو آپ نے اپنے ملک کے مفادات کا محافظ بنایا ہے‘ وہ اپنے وعدوں کا پاس نہیں کر پائے‘ تو اُن کو بھی ایسے ہی مسترد کریں‘ جیسے آپ نے اس الیکشن میں کیا۔
رہی بات ‘مایوسی اور اُمید کی ‘تو بحیثیت مسلمان ہمیں ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ مایوسی گناہ ہے اور اُمید پہ دُنیا قائم ہے۔

تاحال مایوسی اور اُمید کا پرچار کرنے والوں میں کشمکش جاری ہے ۔ ممکنہ وزیر اعظم عمران خان کی وکٹری سپیچ کے بعد تبدیلی کے بیانیہ کو تقویت ملی ‘مگر پھر بھی خدشات کا تذکرہ زیادہ ہیں اور اُمیدیں کم دکھائی دیتی ہیں۔پاکستان مشکل حالات سے گزر رہا ہے ۔ ہمیں باہمی تعاون‘ یک جہتی اور یگانگت کی ضرورت جتنی آج ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ہر حیثیت میں وطن ِ عزیز کے مفادات کو مقدم رکھیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں