کشمیر اور بھارتی رویہ

کشمیر اور لائن آف کنٹرول پر پاک بھارت کشیدگی اور 2003ء کے فائر بندی انتظام یا مفاہمت کی سنگین خلاف ورزی جاری ہے۔ جس تواتر اور شدت کے ساتھ لائن آف کنٹرول کے اَطراف بسنے والے نہتے کشمیریوں کو بھارتی افواج کی جانب سے نشانہ بنایا جا رہا ہے اُسی تناسب سے علاقائی اور عالمی سطح پر بے حسی اور بے رُخی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ یوں تو بھارت نے 2003ء کی فائر بندی کے بعد بھی کشمیریوں کو مظالم کا نشانہ بنائے رکھا اور فائر بندی پر کبھی بھی اُس کی روح کے مطابق عمل نہ کیا لیکن 2014ء سے نریندر مودی کے بھارتی سرکار کی باگ ڈور سنبھالتے ہی مقبوضہ کشمیر میں بالخصوص اور لائن آف کنٹرول پر بالعموم اشتعال انگیزی میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا۔ فائر بندی کی خلاف ورزیوں میں زیادہ واقعات ایسے ہیں جو انسانی حقوق کی بھی سنگین خلاف ورزیا ں ہیں جن میںمریضوں کو لے جاتی ایمبولینسوں پر فائرنگ، مسافر بس پر راکٹ کا حملہ، گھروں میں کام کرتی عورتوں کو نشانہ بنانا، بچوں کے سکول پر فائرنگ اور بچوں کی سکول وین پر فائرنگ جیسے واقعات شامل ہیں۔ یہ تمام واقعات نہ صرف ملکی اور غیر ملکی میڈیا میں رپورٹ ہوئے بلکہ آزاد کشمیر میں موجود اقوامِ متحدہ کے تعینات مبصرین نے بھی اپنے طے شدہ مینڈیٹ کے مطابق لائن آف کنٹرول کے متعلقہ علاقوں میں جا کرتحقیقات کیں اور اِن واقعات اور خلاف ورزیوں پر اپنی رپورٹ اپنے متعلقہ ہیڈکوارٹرز کو بھجوائی۔ فائر بندی کی خلاف ورزیوںپر سفارتی روایات کے مطابق بھارتی سفارت خانہ کے ذمہ داران کو بھی طلب کر کے احتجاج کیا جاتا ہے اور انسانی جانوں کے ضیاع کی سخت مذمت بھی کی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود بھارتی اشتعال انگیزی اور لائن آف کنٹرول کے اَطراف بسنے والے کشمیریوں کے ظلم میں کمی ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ 
نومبر 2003ء کے فائر بندی انتظام کے پیچھے چند عوامل تھے۔ مقبوضہ کشمیر میں 1989ء میں شروع ہونے والی تحریک آزادی، متعدد بارپاکستان اور بھارت کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی، 1998ء کی کارگل کی جنگ، دسمبر 2001ء میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے جیسے واقعات کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان بد اعتمادی کی فضا انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ علاقائی اور عالمی طاقتوںکے ایما پر دونوں ملکوں نے فائربندی انتظام کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں بعدازاںمقبوضہ اور آزاد کشمیر کے درمیان محدود سطح پر تجارت بھی شروع ہوئی جو آج تک جاری ہے۔ پاکستان بھارت تعلقات اورمسئلہ کشمیر پر نظر رکھنے والے دانشورفائر بندی کو دو مختلف تناظر میں دیکھتے ہیں۔کچھ کا خیال ہے کہ فائر بندی انتظام ایک علامتی اقدام تھا اور اِس سے کسی بامقصد نتیجے کی توقع رکھنا زیادہ سے زیادہ خوشی فہمی ہوسکتی تھی۔ ایک طبقہ فکر کی رائے یہ تھی کہ فائر بندی سے بھارت اور پاکستان دونوں کی توقعات مختلف تھیں اور دونوں ممالک کا زاویہ بھی مختلف تھا۔ بھارت فائر بندی انتظام سے وقت حاصل کرنا چاہتا تھا تاکہ مقبوضہ کشمیرکے اندر شدت سے جاری تحریک آزادی سے نمٹ سکے اور اِس حکمت عملی کو کامیاب دیکھنے کے لئے بھارت مقبوضہ کشمیر اور لائن آف کنٹرول پر امن کا خواہاں تھا۔ بھارت کو وقت درکار تھا تا کہ کشمیر کے مسئلے کو مزید اُلجھایا جا سکے۔ دوسری طرف پاکستان کو یہ توقع تھی کہ اِس امن کی کوشش کے نتیجے میں بہت مثبت پیش رفت ممکن ہو گی اور مسئلہ کشمیر کے حتمی حل کی طرف بڑھا جا سکے گا۔ عالمی برادری دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان اس مسئلے کو خطے کے لئے انتہائی خطرناک خیال کر رہی تھی اور فائر بندی انتظام کی کامیابی کے لئے کوشاں تھی۔ لیکن سولہ سال گزرجانے کے باوجود مسئلہ کشمیر وہیں کھڑا ہے اور حل کی جانب کوئی پیش رفت نہ ہوسکی بلکہ کئی ایک حوالوں سے زیادہ پیچیدہ ہو گیا ہے۔ اور یوں 2003ء کا فائر بندی انتظام صرف ایک مفا ہمتی خیال ثابت ہوا جو زمینی حقائق سے کوسوں دور ہے۔
کشمیریوں کے دُکھوں اور تکلیفوں کی داستان جس کی کڑیاںپاکستان بننے سے بہت پہلے تک جا ملتی ہیںآج بھی زیادہ مختلف نہیں ہے۔ تقسیم کے بعد سے لے کر مسلسل کشمیری مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سکیورٹی فورسز کے ظلم اور استبداد کا سامنا کر رہے ہیں اور لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کا نشانہ بن رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر اور لائن آف کنٹرول پر بھارت کے مظالم اور جارحیت فائر بندی انتظام کے بعد بھی جاری رہی لیکن گزشتہ چند سالوں میں اِس میں شدت آئی ۔ مستند اندازے کے مطابق مقبوضہ جموںو کشمیر میں 1989ء سے تا حال نوے ہزار سے زائد کشمیری شہید کیے جا چکے ہیں اور حراستی ہلاکتیں سات ہزار کے قریب اِس کے علاوہ ہیں۔ ایک لاکھ بیالیس ہزار کے قریب لوگوں کو گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایاگیااور ایک لاکھ سے زائد مکانات اور دکانوں کو نذر آتش کیا گیا۔ بائیس ہزار خواتین بیوہ ہوئیں، ایک لاکھ سے زائد بچے یتیم ہوئے اور گیارہ ہزار خواتین عصمت دری کا نشانہ بنیں۔8جولائی 2016ء کو برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد بھارتی افواج کے مظالم میںشدت آئی اور اُس وقت سے لے کر اب تک ایک سو ستر کے قریب کشمیریوں کو شہید اور بیس ہزار کے قریب کو زخمی کیا جا چکا ہے۔ پیلٹ گن سے زخمیوں کی تعداد آٹھ ہزار کے قریب ہے اور اُن میں تین ہزار کے قریب ایسے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہیںجو بصارت سے کلی یا جزوی طور پر محروم ہو چکے ہیں۔ اِسی طرح لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت اور فائر بندی کی خلاف ورزی کے صرف 2017ء میں اٹھارہ سو سے زائد واقعات ہو چکے ہیں جن میں باون کشمیری شہید اور ایک سو پچھتر زخمی ہو چکے ہیں۔ مکانات فصلوں اور مویشیوں کا نقصان اِ س کے علاوہ ہے۔
عالمی اور علاقائی حالات کے تناظر میں پاکستان ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے لیکن پھربھی کشمیر کے حوالے سے بھی پیش رفت کے لئے کوشاں رہنے کی ضرورت ہے۔ کشمیر پر جارحانہ سفارت کاری وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ کشمیری قیادت نے گزشتہ سال دُنیا بھر کے مختلف ممالک میں کشمیر اور تحریک ِ آزادی کے حوالے سے دُنیا بھر کے راہ نماؤں اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کو کشمیر کے حالات سے روشناس کیا اُس کے مثبت اثرات سامنے آئے ۔ کشمیری قیادت چونکہ براہ راست اِس مسئلے میں مظالم سہنے والا فریق ہے اِس لئے اُن کی آواز میں اثر ہونا ایک قدرتی امر ہے اِس لئے یہ کاوش جاری رہنی چاہیے۔ بھارت کی جانب سے اِنسانی حقوق کی خلاف ورزی ایک اہم بیانیہ ہے جس کو دُنیا کے ہر کونے میں پہنچایا جائے اور کشمیر کے معاملے پر ہمدردوں اور دوستوں میں اضافہ کیا جائے اور یہ اضافہ عالمی رائے کو پاکستان اور کشمیر کے حق میں ڈھالنے میں مددگارثابت ہوگا۔ایک اہم پہلو یہ ہے کہ پاکستان کشمیر کو ایک بین الاقوامی مسئلہ سمجھتا ہے اور اقوام متحدہ کو بحیثیت ادارہ قانونی اور دُنیا کے ممالک کو اخلاقی فریق سمجھتا ہے۔ جب کہ بھارت کشمیر کو شملہ معاہدے کی رو سے دو طرفہ مسئلہ گردانتا ہے۔ 2003ء کا فائر بندی انتظام دو طرفہ مفاہمت کا غماز ہے جس کی بھارت خود مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اِس لئے اِس دلیل کو تقویت ملتی ہے کہ بھارت نہ تو بین الاقوامی ثالثی کو تسلیم کر تا ہے نہ ہی کسی دو طرفہ انتظام کا پاس رکھتا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ جارحانہ سفارت کاری کے ذریعے سے بھارت کے اِس رویے کو دُنیا کے سامنے رکھا جائے اور معاشی مفادات میں اَٹی دُنیا کے لئے بھی ایک کڑا امتحان ہے کہ وہ بھارت کی ننگی جارحیت اور انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیوں کو دیکھے یا پھر چار سو ملین کنزیومرز کی منڈی کو۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں