کورونا وائرس اور حکمتِ عملی

اگر اس وقت اقوامِ عالم کے اعصاب پر کوئی بہت بڑا خطرہ حاوی ہے تو وہ بلا شبہ کورونا وائرس ہے۔ کورونا وائرس کا اس قدر سُرعت سے پھیلاؤ بلاشبہ ایک اعصاب شکن واقعہ ہے۔دنیا کے ایک سو نوے سے زائد ممالک اس وقت کورونا وائرس کی زد میں ہیں اور اس عالمی وبا کے نتیجے میں مرنے والے افراد کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوتا جارہاہے۔ ایک عجیب نفسا نفسی کا عالم ہے ۔ بیشتر ممالک کو سمجھ نہیں آرہا کہ وہ اس وائرس سے اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کو کیسے حل کریں۔ وائرس کا روزانہ کی بنیاد پر پھیلاؤ لوگوں میں سراسیمگی اور خوف کا سبب بنتا جارہاہے۔ دنیا کی بڑی طاقتیں کورونا وائرس کے سامنے بے بس دکھائی دے رہی ہیں اور تاحال اس کے سدِ باب کا کوئی مناسب انتظام نہیں ہوسکا اور یہ وائرس انسانی جانیں نگلتا جا رہا ہے۔ ابتدائی تحقیق کے مطابق کورونا وائرس جانوروں اور انسانوں میں یکساں طور پر پھیل سکتا ہے اور سانس کی بیماری کے بعد شدید نمونیہ میں تبدیل ہو کر موت کا سبب بنتا ہے۔ اس وقت تک ساڑھے پانچ لاکھ کے قریب لوگ اس وباکا شکار ہو چکے ہیں اور چوبیس ہزار کے قریب اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں‘ جو کہ ایک بہت خطرناک صورتحال کی عکاسی ہے۔ کورونا وائرس کا ایک منفی اثر تو دنیا میں خوف وہراس ہے جبکہ دوسرا منفی اثر براہِ راست عالمی معیشت پر پڑا۔ دنیا پہلے ہی معاشی مسائل کا شکار تھی اور کورونا وائرس نے عالمی معیشت کا پہیہ ہی جام کر دیا۔ 
پاکستان میں وائرس کے پھیلاؤ پر مختلف طبقات میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں‘ لیکن غالب رائے یہ ہے کہ پاکستان میں یہ وائرس دوسرے ممالک سے آنے والے پاکستانیوں کی وطن واپسی پرہونے والی غفلت کی وجہ سے پھیلا۔ اب ایران سے آنے والے پاکستانیوں نے لاپروائی برتی یا برطانیہ اور یورپ سے آنے والے ہم وطن غفلت کے مرتکب ہوئے یا حکومت نے اس معاملے کو ابتدا ہی سے سنجیدہ نہیں لیا‘ اس پر بحث لا حاصل ہے اور محض لکیر پیٹنے کے مترادف ہے ‘میری نظر میں وائرس کیسے اور کیوں پھیلا سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ اس کو روکا کیسے جائے ؟ اب اس بات پر غورو خوض کی ضرورت ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ وائرس کا پھیلاؤ مستقبل قریب میں کیا رُخ اختیا ر کرتا ہے اور کس علاقے میں اس کے پھیلاؤ کے امکانات کیا ہیں اور وہاں پر حکومت کی طبی تیاریاں اور ممکنہ ردِعمل کیسے مؤثر بنایا جا سکتا ہے؟ یہ بھی ضروری ہے کہ دوسرے ملکوں کے کورونا وائرس کے سدِ باب کیلئے کئے گئے اقدامات کا بھی جائزہ لیا جائے۔ وائرس کی روک تھام کیلئے اگر ہم اٹلی اور چین کے ردِعمل کا تجزیہ کریں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ کہ وائرس سے نمٹنے کا ممکنہ غلط اور صحیح طریقہ کیا ہوسکتا ہے اور کیسے اس وبا کو پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے۔
پاکستان جیسے معاشی طور پر کمزور ملکوں کیلئے یہ امر پریشان کُن ہے کہ اٹلی جیسا ترقی یافتہ ملک‘ جہاں صحت کی جدید ترین سہولیات موجود ہیں وائرس کی روک تھام میں مکمل بے بس نظر آرہا ہے ۔ اٹلی بھی کورونا وائرس کے معاملے میں غفلت کا مرتکب ہوا اور سب سے پہلی غفلت ایک ہسپتال کی سطح پر ہوئی‘ جہاں ایک ممکنہ مریض کو صرف اس لئے سنجیدہ نہیں لیا گیا کہ اُس کا چین کے سفر کا کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔ مریض چھتیس گھنٹے کیلئے اہلِ خانہ اور متعدد لوگوں سے میل جول کرتا رہا اور ملنے والے بیشتر لوگوں میں کورونا وائرس کی منتقلی کا سبب بنتا رہا۔ اس غفلت کی وجہ سے شروع ہونے والی کہانی ختم ہونے کو نہیں آرہی اور ا س وقت اٹلی کورونا وائرس سے ہونے والے جانی نقصان اُٹھانے والے ملکوں میں سرِ فہرست ہے۔اور اس وائرس سے اٹلی کو معاشی طور پر کیا نقصان ہوا اُس کے مکمل اعداد وشمار آنے باقی ہیں۔اٹلی میں ثقافتی اقدار اور میل جول کے رجحا نات ایسے ہیں کہ وہاں لاک ڈاؤن ممکن بنانا قریب قریب ناممکن تھا۔ جب تک اٹلی کی حکومت اور عوام کو احساس ہوا کہ وہ کن غیر معمولی حالات میں گھر چکے ہیں اُس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی اور اٹلی کو بھاری جانی نقصان ہو چکا تھا جو تاحال سنبھلنے کو نہیں آرہا۔ ابھی تک کے اعداد و شمار کے مطابق اٹلی میں وائرس سے متعلقہ اموات کی شرح پانچ فیصد ہے جبکہ دنیا کے دوسرے ممالک میں یہ شرح تین فیصد تک ہے۔ 
کورونا وائرس کو صحیح طریقے سے نمٹنے کی مثال چین کی ہے۔ دسمبر2019ء میں جب وسطی چین کے شہر ووہان میں کورونا وائرس پھیلنا شروع ہو ا تو چین نے اُس کو سدِباب کرنے اور اُس کو محدود کرنے کیلئے تمام ذرائع بروئے کا ر لانے کا فیصلہ کیا۔ووہان میں کورونا وائرس کا پھیلنا چین کیلئے سخت ترین امتحان تھا ۔ چین کی قیادت کو ادراک تھا کہ کورونا وائرس کے معاملے کو اگر اچھے طریقے سے حل نہ کیا گیاتوورلڈ آرڈر میں چین کی حیثیت کو ضرب لگ سکتی ہے۔اور مجموعی طور پر چین کی مسائل حل کرنے کی استعداد پر سوال اُٹھیں گے۔ یہ ایک غیر معمولی چیلنج کی صورتحال تھی جس کیلئے چین نے تیزی اور انتہائی مؤثر طریقے سے کام کیا۔ چین نے کورونا وائرس پر قابو پانے کیلئے نہایت کم وقت میں جو کیا وہ حیرت انگیز تھا اور دنیا نے ان کی تعریف کی۔چین نے کورونا وائرس کے متاثرین کیلئے بڑے پیمانے پر طبی سہولیات کی تشکیل دیا اور چند دنوں میں لگ بھگ دس ہزار بستروں پر ہسپتال قائم کئے۔ ووہان سے ملحقہ پانچ شہروں کی آبادی‘ جو بیس ملین کے قریب تھی‘ کو محدود کیا۔ مہلک وائرس کا پھیلاؤ قمری سال کی تقریبات کے ساتھ شروع ہوا جب لوگ بڑی تعداد میں تہواروں میں حصہ لینے کیلئے جمع ہو رہے تھے اور چین نے ایسے حالات میں تمام تقریبات پر سخت پابندی کو یقینی بنایا۔ عالمی ادارہ صحت نے واشگاف انداز میں چین کی حکمتِ عملی اور اقدامات کو سراہا۔ عالمی ادارہ صحت نے تسلیم کیا کہ چین نے اس وبا کے سدِ باب کیلئے جو اقدامات کئے وہ ایسی صورتحال سے نمٹنے کیلئے عالمی ادارہ صحت کی سفارشات اور بین الاقوامی معیارکے نہ صرف عین مطابق تھے بلکہ اُس سے کئی زیادہ مؤثر تھے۔ بیس ملین کی آبادی کو محدود کرنا حیرت انگیز اقدام تھا۔ دنیا بھر کے سیاسی رہنماؤں اور وبائی امراض کے ماہرین نے شروع سے ہی اس اعتماد کا اظہارکر دیا تھا کہ چین جلد ہی کورونا وائرس کے خلاف جنگ جیت جائے گا کیونکہ انہوں نے جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ بہت تیز‘ عملی اور مؤثر ہیں۔ چین کیلئے کورونا وائرس کے علاوہ شدید معاشی مشکلات کا سامنا بھی ہو ا کیونکہ وائرس کا پھیلاؤ معیشت اور سرمایہ کاری پر بُر ی طرح اثر انداز ہوا۔ چین نے اس مشکل گھڑی میں حالات کا مقابلہ حکمت ‘ طاقت اورتنظیم سے کیا اور ثابت کیا کہ وہ ایک عظیم قوم ہیں۔
پاکستان کیلئے اٹلی اور چین کی مثالوں میں سیکھنے کیلئے اہم نکتے ہیں۔ ہمیں اس بات کو بخوبی علم ہونا چاہیے کہ ہمیں اٹلی جیسی سُستی‘ غفلت اور بے احتیاطی کا مظاہرہ نہیں کرنا اور چین جیسی حکمت اور مستعدی سے کورونا جیسی وبا کو شکست دینی ہے۔ ہمیں یہ بات پلے باندھ لینی چاہیے کہ کسی بھی حکومت کے بس کی بات نہیں کہ وہ یک طرفہ حکومتی اقدامات سے اس وبائی مرض کو قابو کر لے۔ اگر یہ صرف حکومتوں کے بس میں ہوتا تو دنیا کے امیر ترین اور ترقی یافتہ ممالک اس وقت اس بے بسی اور لا چارگی کے عالم میں نہ ہوتے۔ہمیں یہ بات سمجھنی ہے کہ اس وبا کو ایک قوم کی حیثیت سے ہی شکست دی جا سکے گی اور حکمتِ عملی بھی وہی کامیاب ہوگی جس میں حکومت اور عوام ایک پیج پر ہوں گے۔ کورونا وائرس کو بحیثیت قوم یکسو ہو کر شکست دی جا سکتی ہے۔ اورجب کبھی وزیر اعظم عمران خان کہیں کہ' گھبرانا نہیں ہے‘ تو اُن پر یقین رکھیں اور اُن کا ساتھ دیں۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں