کشمیر کی جدوجہد یقینی طور پر ایک نہایت اہم دور میں داخل ہو گئی ہے ۔کشمیر سے متعلق ہماری تاریخ کچھ زیادہ شاندار نہیں کہ متعدد بار کشمیر کے مسئلے کو بین الاقوامی دباؤ کے نتیجے میں '' بیک بر نر‘ ‘ پہ رکھ چھوڑا گیا اور کشمیریوں کے لئے واحد اُمید سیاسی ‘ سفارتی اور اخلاقی ‘ مدد جیسا غیر موثر راستہ اختیار کیا۔ بد قسمتی سے جب ہم سیاسی ‘ سفارتی اور اخلاقی مدد کر رہے تھے‘ تو ہندوستان سیاسی ‘ سفارتی اور معاشی اقدامات کر رہا تھا‘ جس کے نتیجے میں کشمیر پر ہماری گرفت کمزور پڑ تی گئی اور بھارتی تسلط زور پکڑتا گیا۔ یہ بات سب جاتے ہیں کہ دوسری جنگ ِعظیم کے بعد سیاسی ‘ سفارتی اور اخلاقی مدد کی بدولت بین الاقوامی یا دو طرفہ جھگڑوں کا حل خال خال ملتا ہے اور مسائل زیادہ تر صرف وہاں حل کی جانب گئے ‘جہاں طاقت اور طاقت کا استعمال ایک اہم عنصر رہا یا بین الاقوامی طاقتوں کے مفادات براہ ِ راست متاثر ہو تے نظر آ رہے تھے۔
جموں و کشمیر ایک مرتبہ پھر بین الاقوامی خبروں میں ہے۔ہندوستان نے جیسا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت سے توقع کی جارہی تھی ‘ایک غیر آئینی اقدام کی بدولت یک طرفہ طور پر کشمیر سے متعلق آ ئینی شق کو منسوخ کر دیا اور جموںو کشمیر اور لداخ کو یونین کی ریاستیں قرار دے دیا۔ یہ اقدام پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے امریکی دورے کے موقع پر کی گئی‘ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کے بعد عمل میں آیا۔ امریکی صدر کی ثالثی کی پیشکش کے بعد بھارتی رویہ بہت جارحانہ ہو گیا اور بھارتی میڈیا خصوصی طور پراس پیشکش پر بہت سیخ پا دکھائی دیا ۔ اس معاملے پر بھارتی حکومت اور میڈیا کی پریشانی بجا تھی‘ کیونکہ امریکی صدر ٹرمپ کی پیشکش پر بھارتی موقف کو شدید دھچکا لگا کہ کشمیر کا مسئلہ دو طرفہ مسئلہ ہے ‘جو پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ مذاکرات سے حل ہو سکتا ہے اور تیسرے فریق کی مداخلت سے بھارتی موقف کو زک پہنچتا ہے۔ دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ امریکی صدر کی پیشکش اس بات کی غماز تھی کہ کشمیر ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے ۔
کشمیر پر بھارتی حکومت کے اس غیر آئینی حملے کے بعد صورت ِ حال مختلف ہو گئی۔ یہ سوال اُٹھا کہ اس بھارتی اقدام کی بین الاقوامی قانون کی نظر میں کیا حیثیت ہے ؟ کیا بھارت یک طرفہ طور پر ایسا کر سکتا تھا؟ پاکستان اور بھارت کے بین الاقوامی اور دو طرفہ معاہدوں کی حیثیت کیا رہ گئی؟ بھارتی اقدام کے پیش نظر مقبوضہ کشمیر کی صورت ِ حال بھی غیر یقینی ہے اور مقبوضہ کشمیر میں بھارت انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو رہا ہے ۔ تمام ذرائع ابلاغ پر مکمل پابندی ہے ۔ تمام وادی کرفیو کی زد میں ہے اور ہندوستان کی فوج نہتے کشمیریوں کو نشانہ بنا رہی ہے اور آئینی شق370 کو منسوخ کر نے پر سراپا احتجاج کشمیریوں کی آواز کو بندوق کے زور پر دبانے کی کوشش ہو رہی ہے ۔
پاکستان ‘جو اس معاملے میںبراہ راست فریق ہے ‘کو اب ایکٹ کر نا ہے کہ پاکستان کے پاس آخری آپشن کے علاوہ بھی بہت سے آپشن ہیں۔ بین الاقوامی ادارے ‘ بین الاقوامی برادری اور مسلم اُمہ بھی فریق ہیں ۔ بین الاقوامی اداروں کی بساط میں شاید نہیں کہ وہ انٹر نیشنل آرڈر کے خد وخال کے ساتھ چھیڑ خانی کر سکیں اور بین الاقوامی برادری اور مسلم اُمہ کو بلا شبہ اپنے مفادات عزیز تر ہیں ‘اِس لئے اُن سے جس حمایت اور تائید کی توقع کی جا رہی ہے‘ وہ شاید ان حالات میںنظر نہیں آئی اور شاید ممکن بھی نہ تھی۔
اگر گزشتہ سات دہائیوں میں پیدا ہونے والے بین الاقوامی اور علاقائی ایشوز کا جائزہ لیا جائے‘ تویہ بات طے دکھائی دیتی ہے کہ دُنیا کے ممالک مظلوم اقوام اور طبقات کے ساتھ صرف علامتی طور پر کھڑے ہوتے ہیں ۔ کوئی کسی کی جنگ نہیں لڑتا اور بڑی طاقتیں اپنے مفادات کے تحفظ کے علاوہ کسی بھی پرائے جھگڑے میں نہیں اُلجھتیں ۔ بین الاقوامی اداروں کے قیام کا مقصد انصاف اور اُن کا فوکس انسانیت کی فلاح ہو تا ہے‘ لیکن حقیقت میں وہ بڑی طاقتوں کی سیاسی اور معاشی حیثیت کے سامنے بے بس ہوتے ہیں۔ بد قسمتی سے بین الاقوامی تعلقات کی دُنیا میںاصل محرک طاقت اور پھر بین الاقوامی اور علاقائی طاقتوں کے مفادات ہوتے ہیں۔ اگر آپ طاقت ور ہیں تو conflict کی اخلاقیات بھی آپ طے کریں گے اور آپ کے مفادات منسلک ہیں ‘تو آپ کے لئے اخلاقیات کے کوئی معنی نہیں ہوتے ہیں۔
کشمیر کے معاملے پر بھی حالات زیادہ مختلف نہیں ہیں ۔ کشمیر میں گزشتہ سات دہائیوں سے ظلم و بربریت کا دور ہے اور دُنیا محض مذمتی بیانات سے آگے نہ بڑھ سکی ہے۔ بھارت؛ چونکہ کہ ایک بڑا ملک اور ایک بڑی منڈی ہے ۔اس لئے دُنیا کے بیشتر ممالک کے مفادات بھارت سے جُڑے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی جانب سے بین الاقوامی قانون کی صریحاً خلاف ورزی بھی دُنیا کی نظروں سے اوجھل ہے۔ پندرہ ملین کشمیری اس وقت اپنے گھروں میں محصور ہیں اور کسی کو انسانی حقوق کا ایشو دکھائی نہیںدے رہا ۔ اقوامِ متحدہ کے ممبر ممالک یا تو خاموش ہیں یا دبے الفاظ میں مذمت کر رہے ہیں۔
بہت سے سیاسی ‘سفارتی اور اخلاقی اقدامات کے ساتھ ساتھ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم دُنیا میں طاقت کی رائج تھیوری کو سمجھیں۔اگر‘ آپ طاقت کی پوزیشن پہ نہیں کھڑے تو کوئی بھی سیاسی ‘ سفارتی اور اخلاقی ضرب کاری نہیں ہوگی؛ چونکہ طاقت کی کوئی اخلاقیات نہیں ہوتی ‘اس لئے طاقت روایتی ہے یا غیر روایتی اِس سے متعلق سوال بے معنی ہوگا۔ فوج کی جنگی استعداد کی بات کرنے و الوںسے گزارش ہے کہ جنگی استعداد فوج کی نہیں ‘بلکہ قوم کی ہوا کرتی ہے اور قوم کی استعداد کا تعلق گولہ بارود سے نہیں‘ بلکہ قومی حمیت سے ہوتا ہے۔
آپ ایک امن پسند ملک ہیں ‘تو امن کے لئے ایک ہزار آپشنز استعمال کریں‘ لیکن آخری آپشن ضرور رکھیں کہ لوگوں کو آپ کا آخری آپشن آپ کی طرف متوجہ کرے گا۔ جب تک آپ کسی کے کمفرٹ زون کو ڈسٹرب نہیں کرتے ‘ آپ اُس سے رعایت کی توقع نہیں کر سکتے اور یہی طاقت کی حقیقت ہے۔
جیسا کہ آغاز میں عرض کر چکا کہ کشمیر کی جدوجہد ایک نہایت اہم دور میں داخل ہو گئی ہے ‘ لہٰذاپاکستان کو اپنا اہم کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
کشمیر پر بھارتی حکومت کے غیر آئینی حملے کے بعد صورت ِ حال مختلف ہو گئی۔ یہ سوال اُٹھا کہ اس بھارتی اقدام کی بین الاقوامی قانون کی نظر میں کیا حیثیت ہے ؟ کیا بھارت یک طرفہ طور پر ایسا کر سکتا تھا؟ پاکستان اور بھارت کے بین الاقوامی اور دو طرفہ معاہدوں کی حیثیت کیا رہ گئی؟ الغرض کشمیر کی جدوجہد یقینی طور پر ایک نہایت اہم دور میں داخل ہو گئی ہے۔