حقیقت پسندی اور خواب

کیا تحریک ِ انصاف میں ٹکٹوں کی تقسیم اور زلفی بخاری جیسے واقعات نے تبدیلی کے دیرینہ دعوے پر سوالیہ نشان ‘داغ دیا ہے؟ کیاخوا بوں پر سوال اُٹھنا شروع گئے ہیں اور تعبیریں خدشات کے نرغے میںآچکی ہیں ؟ کیا خیالی‘ مگر مثالی عمارت کی ایک ایک اینٹ اپنے ہاتھوں سے رکھنے والوں کی اُمیدیں خاک میں ملتی دکھائی دے رہی ہیں؟ کیااپنی جیب سے پارٹی پرچم خرید کر جلسہ گاہوں میں تقسیم کرنے والے پُر ملال دکھائی دیتے ہیں؟ کیادو دہائیوں سے زائد تبدیلی کے تعاقب میں بھاگنے والے لوگ مایوسی کا شکار ہو گئے ہیں؟ کیااپنے رہنما کی ایک جھلک دیکھنے اور اُس کی باتو ں کی سچائی پر ایمان کی حد تک یقین رکھنے والے نوجوانوں کا جنون ماند پڑ تا دکھائی دے رہا ہے؟
کئی دہائیوں تک نااہل اور ناعاقبت اندیش سیاسی اشرافیہ کے ظلم وستم کا شکار رہنے والی قوم نے کرکٹ ہیرو کے ساتھ خوابوں اور اُمیدوں کا رومانس شروع کیا‘ تو اُس سے ایسی توقعات وابستہ کر لیں کہ جیسے وہی ہے‘ جو اُن کی ڈوبتی کشتی کو کنارے تک لے جانے کا سامان کر سکتا ہے۔ عمران خان ایک بہادر اور کھرے انسان کے طور پر پاکستانی سیاست میں اُبھرے اور بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ صیح معنوں میں حقیقی جدوجہد کر کے اس مقام تک پہنچے ہیں‘ جہاں وہ آج پُر اعتماد اور پُر اُمید کھڑے ہیں۔ عمران خان کے بیانیہ میں پُر کشش لفاظی کے علاوہ کمال بے ساختگی تھی ‘جو سُننے اور دیکھنے والوں کو متاثر کرتی یہی وجہ ہے کہ عمران خان سے مطلق اختلاف رکھنے والے لوگ بھی اُن کے بیانیہ کی جزئیات سے متفق دکھائی دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر 'ہم پاکستان کو جناح اور اقبالؔ کا پاکستان بنائیں گے‘ ۔ 'ہم وہ سسٹم لے کر آئیں گے ‘جس میں غریب کو وہی مواقع حاصل ہوں گے ‘جو اشرافیہ کو حاصل ہیں‘۔ ' ہم حکومت میں آئے‘ تو کسان کا بیٹا بھی ''کوالٹی ایجوکیشن ‘‘ حاصل کرے گا‘۔ ' ہم انصاف کا ایسا نظام لائیں گے‘ جو سب کے لئے یکساں ہو ‘ اور سب سے اہم ' ہماری جنگ ''سٹیٹس کو‘‘ کے خلاف ہے‘ جو ملک کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے‘۔ اس بیانیہ کے ساتھ عمران خان اینٹی سٹیٹس کو لیڈر کے طور اُبھرے۔ عمران خان نے 'سٹیٹس کو‘ کی نمائندہ قوتوں کو نشانے پر رکھا اور' سٹیٹس کو‘ کی وضاحت یوں ہونے لگی کہ یہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پنپنیوالی ایک خاص طرز کی مقتدر اشرافیہ ہے‘ جس کے خصائل میں کرپشن ‘ اقرباء پروری ‘ نااہلی‘ بد یانتی اور وی آئی پی کلچر جیسی برائیاں شامل ہیں اوراس عزم کا اعادہ ہوتا رہا کہ جب تک 'سٹیٹس کو‘ قوتوں کو اُن کی تمام برائیوں کے ساتھ ختم نہ کیا جائے‘ اُس وقت تک نئے پاکستان کا خواب اُدھورا رہے گا۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ملک بھر سے تحریکِ انصاف میں اقتدار کے حصول کے لئے شامل ہونے والے موقع پرستوں کو ٹکٹیں جاری کرنا اور زلفی بخاری کے واقعہ نے عمران خان کو اُنہیں عام لوگوں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے ‘جن کو ملامت کر کے وہ منفرد لیڈر کے طور پر اُبھرے تھے ۔ اب تک ان دونوں واقعات کے حق اور مخالفت میں دونوں اطراف سے وزنی دلائل دئیے جاچکے ہیں اور تحریک ِ انصاف کی جانب سے یہ کہا جا چکا کہ ٹکٹوں کی تقسیم حقیقت پسندانہ اور میرٹ پر مبنی ہے۔ حقیقت پسندی کی تاویل یہ ہے کہ تبدیلی کے لئے انتخابات میں کامیابی ضروری ہے اور اُس کے لئے اقتدار کے ایوانوں میں عددی برتری بہت ضروری ہے۔ اور میرٹ یہ ہے کہ کہ جس اُمیدوار کو ٹکٹ جاری کیا جائے ‘اُس کے بارے میں یہ دیکھا جائے‘ وہ کس حد تک الیکشن کی سائنس کو سمجھتا ہے ا ور کہاں تک الیکشن جیتنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔زلفی بخاری کے معاملے میں بھی تحریکِ انصاف کا موقف واضح ہے۔ عمرہ کے لئے استعمال ہونے والا خصوصی طیارہ چارٹرڈ ضرور تھا مگر ٹیکس دہندگان پر بوجھ نہیں تھا۔ تین گھنٹے تک زلفی بخاری کی کلیرنس کے لئے انتظارکرنا بھی کوئی ایسا اچھوتا واقعہ نہیں تھا‘ جسے خواہ مخواہ اُچھالا جاتا اوروہ بھی ایسی صورت میں جب عمران خان نے ذاتی طور پر کسی سے رابطہ کرکے زلفی بخاری کے لئے سہولت نہیں مانگی۔
خوابوں کی دنیا میں رہنے والوں کے ذہن میں دو سوال اُٹھتے ہیں۔ آپ کی حقیقت پسندی کی بدولت نظریاتی کارکن دُور دُور تک نظر نہیں آتے اور انتخابی عمل سے یکسرالگ ہو گئے ہیں۔ کیا ٹکٹوں کی ایسی تقسیم سے تحریک ِ انصاف کی نظریاتی اساس کو زک نہیں پہنچا؟ کیا چارٹرڈ طیارے میں سفر کرنا بھلے وہ ٹیکس دہندگان پر بوجھ نہ بھی ہو اور کسی ایسے شخص کے لئے تین گھنٹے انتظار کرنا بھلے وہ کسی معمولی الزام میں معتوب ہو‘ تحریک ِ انصاف کے ' سب کے لئے ایک پاکستان‘ او ر ' غریب اور امیر کا ایک پاکستان‘ جیسے بیانیے سے میل کھاتا ہے؟
شاید یہ بحث جاری رہے گی۔ سوشل میڈیا پر عمران مخالف لابی اور عمران کے حمایتی گروہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے اپنی صلاحیتیں بروئے کا ر لاتے رہیں گے‘ لیکن ملک کے طول و عرض میں پھیلے تحریکِ انصاف کے ترجمانوں کے دلائل سے زیادہ ضروری وہ لوگ ہیں‘ جنہوں نے برسوں آنکھوں میں تبدیلی کے خواب پالے ہیں۔ جنہوں نے ایک نئے پاکستان کا خواب دیکھا اور اپنے لیڈر کے ہمراہ جدوجہد کی اور اس امر سے بے خبر رہے کہ منزلوں کے آس پاس کہیں نظریاتی اساس حقیقت پسندی کی بھینٹ بھی چڑھ سکتی ہے۔
تحریک ِ انصاف کی لیڈرشپ کو اپنی اداؤں پر غور کرنا ہوگا اور خوابوں اور تعبیروں کے حوالے سے اپنے عمل کا باریک بینی سے تجزیہ کرنا ہو گا۔دیکھنا ہو گا کہ کہیں آپ کے قول وفعل میں تضاد تو نہیں در آیا؟ جو آ پ کے بیانیے کو بُری طرح متا ثر کر رہا ہے۔آپ کو سوچنا ہو گا کہ آپ کا طرزِعمل ماضی کے حکمرانوں سے مختلف ہے اور اگر ہے‘ توکیسے ہے۔ عمران خان کا سعودی عرب سفر اور زلفی بخاری کا واقعہ ‘ عام سے واقعات ہو سکتے ہیں اور اس ضمن میں بہت سی تاویلیں بھی پیش کی جا سکتی ہیں‘ لیکن کیا یہ واقعات 'سب کا ایک پاکستان ‘ جیسے بیانیہ کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں۔ عمران خان حکمران اشرافیہ میں کئی حوالوں سے بہتر اخلاقی پوزیشن پر رہے ‘اسی لئے وہ گزشتہ حکومت کی بد عنوانیوں پر تنقید کرتے رہے۔ عمران خان نے گورننس کے بلند معیا ر کا پرچار کیا ہے اوراب لوگ اُن کو بھی اُسی معیار پر رکھ کر پرکھیں گے۔
جہاں تک دو دہائیوں سے دیکھے جانے والے خوابوں کا تعلق ہے‘ تو عرض ہے کہ آپ کو ہر صورت محتاط رہنا ہو گا کہ یہ نیا پاکستان ہے‘ جس کا خاکہ آپ نے پیش کیا ہے ۔ لوگ آپ کی حقیقت پسندی پر قائل ہوں یا نہ ہوں ‘لیکن اپنے خوابوں سے متعلق بہت حساس ہوچکے ہیں۔

 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں