ماہ ِجولائی دو حوالوں کی بدولت اہمیت اختیا ر کر گیا ہے ؛روس میں انعقاد پذیر2018ء فیفا ورلڈ کپ اور پاکستان میں پارلیمانی انتخابات!
جس طرح دُنیا میں فٹ بال کا شور و غوغہ ہے اور دُنیا بھر میںپھیلے کھیل کے شائقین ‘ہر ایک میچ پر نظریں گاڑے ہوئے ہیں‘ ایسے ہی پاکستان میں الیکشن کے بخار نے سب کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
اس بار فیفا ورلڈ کپ میں دُنیا بھر کے فٹ بال شائقین کے لئے فٹ بال کے مقابلوں میں جا بجا سرپرائزز تھے ۔ بہت سی ایسی ٹیمیں‘ جو فٹ بال کا فاتح بننے کا خواب دیکھ رہی تھیں‘ وہ مقابلوں سے ایسے باہر ہو گئیں ہیں‘ جیسے مکھن سے بال نکل جاتا ہے یا نکال دیا جاتا ہے۔ بہت سے شہسوار میدان میں منہ کے بل گرتے دکھائی دئیے اور بہت سے نامی گرامی کھلاڑی اپنی اپنی ٹیموں کے لئے ایسا کھیل پیش نہ کرسکے‘ جس کے لئے اُن کے ساتھ اُمیدیں وابستہ تھیں۔ اور کچھ عام سے کھلاڑی غیر متوقع طور پر اُبھر کر سامنے آئے اور اپنی ٹیموں کے لئے فتح کا سبب بنے ۔
چونکہ فٹ بال زبان ِ زد عام ہے‘ ا س لئے سوشل میڈیا پرکھیل کے ماضی کے حوالے سے دلچسپ واقعات بھی تصاویر اور ویڈیو کلپس کی صورت میں شیئر ہو رہے ہیں۔ مجھے چند دِن قبل سوشل میڈیا پر مختصر دورانیے کی ایک ویڈیو ملی ‘جس میں2003 ء میں ایران اور ڈنمارک کے مابین کھیلے جانے والا فٹ بال کا ایک میچ دکھایا جا رہا ہے۔اس میچ کے دوران پنڈال میں بیٹھے شائقین میں سے کسی من چلے نے سیٹی بجائی تو ایرانی کھلاڑی نے یہ سمجھا کہ یہ آدھاو قت گزر جانے کے بعد ہونے والے وقفے کی سیٹی ہے۔ اسی اُلجھن میں ایرانی کھلاڑی نے فٹ بال ہاتھ میں اُٹھا لیا۔ یوں فٹ بال کے قواعد کی رو سے فاؤل سرزد ہوا‘ جس کی وجہ سے مخالف ٹیم کو پینالٹی کک مل گئی۔ گو قواعد کے مطابق ریفری کا فیصلہ ٹھیک تھا ‘لیکن پھر بھی مخالف ٹیم کے کوچ نے اپنے کھلاڑی میدان سے باہر بلوایا اور کچھ ہدایات دیں۔ اورپھر ہزاروں کے مجمعے نے دیکھا کہ مخالف ٹیم نے ریفری کے حکم پر عمل تو کیا‘ لیکن فیئر پلے کے اُصول کے تحت گیند کو گول پوسٹ سے باہر پھینک دیا۔ فیئر پلے کے اس شاندار مظاہرے پر میدان میں موجود شائقین کی ڈنمارک کی ٹیم کو د اد دی‘ جو دیکھنے کے قابل تھی۔
بعد ازاں ڈنمارک کی ٹیم یہ میچ ہار گئی‘ لیکن فیئر پلے کی قابلِ تقلید مثال چھوڑ گئی۔ میں نے متعدد بار اُس ویڈیو کلپ کو دیکھا۔ کوچ اور کھلاڑیوں کی باڈی لینگویج کا بغور جائزہ لیا۔ جتنی بار میں نے کلپ کو دیکھا‘ مجھے ڈنمارک کی ٹیم میںرواداری ‘ اقدار ‘ خوبصورتی اور فتح کے اوصاف نظر آئے ‘جو صرف کھیل تک محدود نہیں تھے‘ بلکہ اُن کی سوچ اور قومی کردار کے غماز بھی تھے۔
پاکستان میں الیکشن بھی فیفا ورلڈ کپ سے مختلف نہیں کہ دُنیا بھر کے سیاسی شائقین کی نظریں پاکستان پر مرکوز ہیں‘ لیکن سوشل میڈیا پر تواتر کے ساتھ جاری ہونے والی تصاویر اور ویڈیوز میں ابھی تک سیاسی فیئر پلے کی کوئی ویڈ یو جاری نہ ہو سکی۔ پاکستان میں الیکشن کی تیاریاں زور وشور سے جاری ہیں اور گھمسان کارن دکھائی دیتا ہے۔ الیکشن سے قبل بہت سی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔ بہت سے سیاسی رہنما اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اپنی راہیں بدل چکے ہیں۔ بہت سے رہنما ؤں کو بوجوہ نااہلی کا سامنا ہے۔
میڈیا کی وجہ سے عوام پہلے سے زیادہ آگاہ ہیں‘ جس کی وجہ سے سیاسی جماعتیں بھی متحرک دکھائی دیتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں میڈیا اور سوشل میڈیا کو بھر پور انداز میں استعمال کر رہی ہیں کہ دوسری جماعتوں کو نیچا دکھانے اور اپنی جماعت کی مثبت پروجیکشن کا یہی مؤثر ذریعہ ہے۔ ہر ایک جماعت اس تگ ودو میں ہے کہ عوام کو باور کروایا جائے کہ صرف وہ جماعت ایسی ہے ‘جن پر نہ صرف اعتماد کیا جا سکتا ہے‘ بلکہ پاکستان کے جملہ مسائل کا حل بھی صر ف اُن کے پاس ہے۔ برسوں اقتدار میں رہنے والے اب سنجیدہ ہیں اور دعوے دار ہیں کہ اب کی بار اقتدار ملے گا‘ تو وہ ترجیحات پہلے سے بہتر طے کریں گے۔ نئے آنے والے کہہ رہے ہیں کہ اُن پر بھروسہ کیا جائے کہ پاکستان کو درست سمت میں لے جانے کے لئے اُن کے سوا چارہ نہیں۔
الغرض اس ساری تگ ودو میں سوشل میڈیاکا اندھا دھند اور قد رے بے دردی سے استعمال ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا ایک دوسرے پر سنگین الزام تراشی اور بہتان بازی کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ اکثر اوقات یہ ہوتا ہے کہ کسی سیاسی شخصیت پر بے بنیاد الزام دھر دیا جاتا ہے اور پھر تقلید میں سوچے سمجھے بغیر تین چار دِن تک بے معنی گفتگو اور لغویات کا تبادلہ جاری رہتا ہے ۔ پھر اچانک یہ خبر آتی ہے یا الزام کی زد میں آیا مجبور و لاچار شخص خود بتاتا ہے کہ یہ الزام بے بنیاد ہے اور اس کا حقیقت سے دُور دُور تک تعلق نہیں‘ تو یوں اُس معاملے پر قدرے ٹھہراؤ آ جاتا ہے‘ لیکن پھر شام کو یا اگلی صبح ایک نئے الزام کے ساتھ ایک عزم کے ساتھ یہ ساری مشق شروع کی جاتی ہے اورسیاسی خشوع وخضوع کے ساتھ دھرائی جاتی ہے اوریوں ایک چکر ہے جو کہ روز و شب جاری ہے۔
سوشل میڈیا پرجس سیاسی گروہ کی موجودگی دوسرے سے زیادہ ہو گی‘ تو اکثریتی گروہ زیادہ مؤثر انداز میں مہم چلانے کی پوزیشن میں ہوگا۔ مجموعی طور پر یہ رویہ معاشرے میں عمومی مایو سی اور ٹکراؤ کا رجحان پیدا کررہا ہے‘ جو ہرگز ہرگزخوش آئند نہیں ہے۔
آپ یقینا میرے ساتھ اتفاق کریں گے کہ یہ فیئر پلے کے منافی ہے کہ اخلاق سے گر ی بہتان تراشی اور بے بنیاد الزامات کی آڑ میں اپنے مقابل کو صرف اس بنیاد پر نشانہ بنایا جائے کہ وہ آپ کی طرح ایک ایسے عہدے اور پوزیشن کے لئے تگ ودو کر رہا ہے‘ جس کے لئے آپ بھی جدو جہد کر رہے ہیں۔ یہ فیئر پلے نہیں ہے کہ آپ دوسرے پر بہتان اور الزام کی بنیا د پر اپنے لئے راستے ہموار کریں۔ یہ فیئر پلے نہیں کہ آپ صرف دوسروں کے بارے میں پھیلائی من گھڑت کہانیوں پر پر اپنی نام نہاد اخلاقی عمارت کی بنیاد رکھیں۔ سیاسی رہنماؤں کے علاوہ یہ سوشل میڈیا پرفعال پڑھے لکھے افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سیاسی وابستگی سے بالا تر ہو کر فیئر پلے جیسی اقدار کو فروغ دیں ۔
یہ فیئر پلے نہیں ہے کہ آپ دوسرے پر بہتان اور الزام کی بنیا د پر اپنے لئے راستے ہموار کریں۔ یہ فیئر پلے نہیں کہ آپ صرف دوسروں کے بارے میں پھیلائی من گھڑت کہانیوں پر پر اپنی نام نہاد اخلاقی عمارت کی بنیاد رکھیں۔ سیاسی رہنماؤں کے علاوہ یہ سوشل میڈیا پرفعال پڑھے لکھے افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سیاسی وابستگی سے بالا تر ہو کر فیئر پلے جیسی اقدار کو فروغ دیں ۔