بلوچستان میں امید کا طلوع ہوتا سورج

میں بلوچستان میں چند دِن قیام کے بعد واپس لوٹا ہوں اور میرے پاس وطنِ عزیز میں یاس اور نااُمیدی بیچنے والو ں کے لئے اچھی خبر نہیں ہے۔ برسوں سے روزانہ کی بنیاد پر پاکستانی عوام کو مایوس کُن تجزیوں اور تبصروں سے نوازا جاتا رہا۔ یہ تبصرے سُن کر یوں لگتا کہ جیسے دُنیا کا ہر کام ممکن ہے مگر بلوچستان میں امن کا قیام اب ہرگز ممکن نہیں۔ تاثر یہ قائم ہوتا ہے کہ بلوچستان مٹھی میں ریت کی مانند ہے اور تیزی سے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ جن لوگوں کا روزگار مایوسی، نااُمیدی اور نفرتوں کا پرچار ہے‘ وہ ہر چند یہ تاثر دینے میں کامیاب ہوتے دکھائی دیتے کہ بلوچ علیحدگی پسند تحریک اپنے اہداف کے قریب ہے اور پاکستانیت شاید اپنی شام کی طرف گامزن! دُشمن کے لب و لہجے میں گفتگو کرنے والے لوگوں کے لئے بُری خبر ہے کہ بلوچستان تیزی سے قومی دھارے میں شامل ہو رہا ہے۔ نفرت محبت میں تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور نااُمیدی اور مایوسی کے گہرے بادل چھٹتے دِکھائی دے رہے ہیں۔ میں کوئٹہ سے بہت خوبصورت یادیں لے کر لوٹا ہوں اور اسلام آباد میں بوجھل قدموں گھوم پھر رہا ہوں۔ اپنے بلوچ بھائیوں کی مہمان نوازی، خلوص اور محبت کا سحرہے کہ ابھی تک طاری ہے۔ 
بوجوہ میں نے اِس سال آزادی کا جشن بلوچستان میں منایا۔ میری طرح دوسرے احباب کو بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ اِس طرح کا جوش وولولہ دیکھنے کو ملے گا۔ میری رائے ہے‘ اور جن احباب نے یہ جشنِ آزادی کوئٹہ میں منایا وہ مجھ سے اتفاق کریں گے‘ کہ حالات یکسر بدل چکے ہیں یا یوں کہہ لیجیے کہ اگر چہ سب کچھ یکسر نہیں بدلا لیکن بہت کچھ تیزی سے بدل رہا ہے۔ جہاں کچھ عرصہ قبل تک کسی سکول یا کالج میں قومی ترانہ ایک خوف کی علامت تھا اور قومی پرچم لہرانا خطرات سے دوچار کر دیتا تھا‘ وہاں ہر سمت سبز ہلالی پرچم دکھائی دے رہے تھے۔ ہر عمر کے لوگوں کا آزادی کے جشن میں جوش و خروش دیدنی تھا۔ ہر چہرہ روشن اور تابناک دکھائی دے رہا تھا۔ ہر ہاتھ میں پرچم، ہر کار، ٹرک، رکشہ اور سائیکل پر پرچم، ہر گھر ہر منڈیر پر پرچم۔ دُور دُور تک سبز ہلالی پرچموں کی فصلیں لہلہاتی نظر آ رہی تھیں۔ ذمہ داری کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ 14 اگست کو جتنے سبز ہلالی پرچم کوئٹہ میں دکھائی دے رہے تھے وہ پاکستان کے کسی بھی بڑے شہر سے کئی گنا زیادہ تھے۔ یہ جوش‘ یہ ولولہ‘ یہ جشن یہ روشن چہرے لوگوں کی پاکستان سے محبت کے غماز تھے اور اہم بات کہ محبت اُمید پہ منتج ہو تی ہے۔ 
یوم ِ آزادی کی تقریب میں ایک خصوصی حصہ باغیوں کے ہتھیار ڈالنے کی کارروائی تھی۔ یہ اپنی نوعیت کی ایک منفرد تقریب تھی‘ جس میں باغی ہتھیا ر پھینک کر پاکستانی پرچم اُٹھا رہے تھے اور وفاقِ پاکستان کے ساتھ وفاداری کا عہد کر رہے تھے۔ یہ لمحہ جہاں وفاقِ پاکستان کے ساتھ وفا کے بندھن میں بندھنے والوں کے لئے اور پاکستان کے امن کے لئے ایک اہم لمحہ تھا‘ وہاںتقسیم کے اِس پار کھڑے محبِ وطن بلوچوں کے لئے بھی ایک مشکل لمحہ تھا جو برسوں سے اِنھی باغیوں کے ہاتھوں مشکلات اُٹھا رہے تھے۔ میر سرفراز بُگٹی اور اُن جیسے پاکستانیت کا پرچار کرنے بہادر بلوچوں کے لئے کڑا وقت کہ باغیوں اور دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جانے والے پیاروں کے لاشے اُٹھانے اور بدلے کی آگ میں جلنے کے باوجود عام معافی کے ریاستی حکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا۔ بدلہ بلوچ روایت اور معافی ریاستِ پاکستان کا فیصلہ! میر سرفراز بگٹی اور اُن جیسے دوسرے بلوچوں کی فیاضی اور دریا دِلی کو سلام!
بلوچستان میں نظر آنے والی سول ملٹری ہم آہنگی دونوں اطراف کی لیڈرشپ کے اخلاص اور دوراندیشی کی مظہر ہے اور یہ ہم آہنگی جنرل ناصر جنجوعہ کی ملک کے طول وعرض سے آئے دانشوروں ، ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں کو دی گئی بریفنگ میں بھی عیاں تھی۔بریفنگ میں واضح کیا گیا کہ بلوچستان میں کئے گئے اقدامات میں سیاسی اور عسکری قیادت ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی روش پر ہے اور معاملات کو سُلجھانے کے لئے معاملہ فہمی اور باہم مشاورت کی پالیسی پر عمل پیرا۔ بلوچستان میں جاری سیاسی اور عسکری حکمتِ عملی میں دو نکات بہت اہم ہیں۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ 'سب نیشنل ازم‘ کا ازالہ ' نیشنل ازم ‘ ہے۔ یعنی 'نیشنل ازم‘ جب کمزور پڑے گا تو 'سب نیشنل ازم‘ تقویت حاصل کرے گا۔ قوم پرستی کو روکنے کے لئے وطن پرستی کا پرچار ضروری ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ریاست میں لوگ بہت اہم ہوتے ہیں۔ ریاستی وسائل اگر ریاست میں بسنے والے لوگوں پر مرکوز کر دیے جائیں تو بہت مثبت اور دیرپا نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ریاستی وسائل کی منصفانہ تقسیم اور استعمال بہت ضروری ہے اور ایسا نہ کیا جا سکے تو ناانصافی جنم لیتی ہے‘ اور ناانصافی محرومی کو جنم دیتی ہے‘ اور محرومی منفی ردِعمل کو اور منفی ردِعمل ریاست میں بسنے والے لوگوں اور ریاستی اکائیوں میں فاصلوں کا سبب بنتی ہے۔ 
ریاست کے لئے دو اہم تجا ویز یہ ہیں کہ اِ س بات پر سوچ بچار کی جائے کہ اب تک حاصل کی جانے والی کامیابی پر کیسے ایک خوبصورت اور مضبوط عمارت کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے اور بہتر مستقبل کو محفوظ بنیادوں پر کیسے اُستوار کیا جا سکتا ہے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ اب تک حاصل کی جانے والی کامیابیوں کو جاری رکھا جائے اور اِس تسلسل کو یقینی بنایا جائے۔ دوسرا یہ کہ بہت سے معاملات پر بلوچوں کے جائز تحفظات ہیں اور اُن کا ازالہ بھی ازحد ضروری ہے۔ ریاست کے ساتھ محبت دلوں میں گھر تب کرے گی جب اُن کی پسماندگی دور ہو گی، اُن کے وسائل منصفانہ تقسیم ہوں گے اور اُن کے مسائل حل ہوں گے۔ باغیوں سے ہتھیار لے کر اُن کے ہاتھ میں پرچم تھما دینا کافی نہیں بلکہ اُن کا ہاتھ تھامنا پڑے گا اور اُن کا ہاتھ تھام کر اُنھیں وہاں تک لے کر جانا ہو گا جہاں علم و ہُنر، مواقع اور خوشحالی اُن کی منتظر ہو ۔ریاست میں بسنے والے لوگوں کا یہ حق ہے کہ اُن کے ساتھ ترقی اور جدیدیت کے ثمرات منصفانہ طور پر بانٹے جائیں۔ ایک بہت خوبصورت صبح کا آغاز دِکھائی دیتا ہے‘ لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں