تبدیلی کا دور دورہ ہے ۔شاید میرے کالم کا عنوان آج اتنا جاذب نظر نہ آرہا ہو جتنا چند ماہ قبل ہو سکتا تھا۔ لیکن پھر بھی مریم نواز کی سیاست زیرِ بحث لائی جا سکتی ہے کہ جس طرح سیاست میں کچھ بھی حرفِ آخر نہیں ہوتا‘ ایسے ہی سیاست کا میدان بھی تغیرات کی آماجگاہ ہوتا ہے اور وہاں کوئی بھی منظر نامہ آخری منظر نامہ نہیں ہوتا۔یہ سانپ سیڑھی کا کھیل کب کسی کو کہاں لے جائے اور کب کسی کو کہاں تک پستی میں لے آئے اور کب کھیل کیا شکل اختیار کر جائے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ سیاست کے کھیل میں حتمی صرف تغیر ہوتا ہے۔
میں مریم کی سیاست پہ بات کرنے سے پہلے اپنے ایک مفروضے کی تشریح کروں گا۔ اپنے محدود مشاہدے کی بنیاد پرمیں ایک مفروضے بلکہ ایک حقیقت پر یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیٹیا ں بیٹوں سے بڑا انعام ہوتی ہیں۔بیٹیاں اپنے والدین کے لئے عمومی طور پر نعمت‘ مشکل میں غمگسار‘ رویوں میںبے لوث اور ہمدردی میں سچی ہو تی ہیں اور مریم نواز میرے مفروضے اور ایک خوبصورت حقیقت کے حق میں تازہ ترین دلیل ہیں۔ آپ مریم نواز سے ایک سیاسی راہ نما کے طور پر لاکھ ا ختلاف رکھتے ہوں پھر بھی اِس بات کا کریڈٹ مریم کو دیاجانا چاہیے کہ وہ مشکل وقت میں‘ وجہ جو بھی تھی‘ اپنے باپ کے کندھے سے کندھا ملائے کھڑی رہیں اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی چلی گئیں ۔ مشکل وقت میں بیٹی باپ کے شانہ بشانہ ہے اور بیٹے بوجوہ نہیں ہیں ‘بالکل ایسے ہی جیسے تین دہائیاں قبل بے نظیر بھٹو اپنے والد کے ساتھ مشکل گھڑی میں کھڑی تھیں اور بیٹے بوجوہ نہیں تھے۔
پاکستان میں سیاست ممکنات کا کھیل سمجھا جاتا ہے کہ کارزارِ سیاست میں کسی وقت کہیں بھی کچھ بھی ممکن ہے ۔ سیاست ممکنات کا کھیل ایک دلچسپ توجیہ ہے‘ جس سے مراد یہ ہے کہ آپ میدان ِ سیاست میں کامیابی کے لئے کوئی بھی حربہ استعمال کر سکتے ہیں ۔ آپ کے لئے ہر طریقہ جائز طریقہ ہے اور آپ اخلاقی معیار بھی اپنی منشا کے مطابق طے کر سکتے ہیں‘ بشرطیکہ آپ اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب ہو سکتے ہوں۔سیاسی ممکنات کے اصول کے تحت یہ کہا جا سکتا ہے کہ ممکنات کے اِس کھیل میں مریم نواز کی سیاست پر توقف کا سمے ہے ‘یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ سیاسی ماحول کے لئے فی الوقت سازگار نہیں‘ لیکن یہ کہنا ہر گز درست نہیں کہ مریم نواز کی سیاست ختم ہو گئی ہے‘ بلکہ سیاسی تاریخ کا ادراک رکھنے اور ممکنات کے خدوخال سمجھنے والوں کے نزدیک مریم نواز کی سیاست ختم نہیں ہوئی بلکہ بہت سے حوالوں سے شروع ہوئی ہے۔
میں مریم نواز کی سیاسی تربیت اور ان کے طرزِ سیاست پر اپنی رائے رکھتا ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے تک میں سمجھتا تھا اور شاید اب بھی سمجھتا ہوں کہ مریم میں ایک لیڈر کا کرشمہ اورصلاحیت ہے اور ان کی مناسب راہ نمائی کی جائے تو وہ بلا شبہ مسلم لیگ (نواز) میں ایک متبادل قیادت کے طور پر آسکتی ہیں۔اور اگر تھوڑی سمجھ داری اور پیش بینی کا مظاہرہ کیا جاتا تو مریم کو پاناما اور کئی دوسرے مسائل سے دور رکھا جا سکتا تھااور مریم کے سیاسی مستقبل کو شروع ہونے سے پہلے ہی داغ دار ہونے سے بچایا جا سکتا تھا‘لیکن بد قسمتی سے حالات ٹکراؤ کی طرف چل پڑے۔ مریم کی سیاسی تربیت اور مشاورت کچھ ایسے کوتاہ بینوں کے ہاتھ میں چلی گئی جن کو مریم کی سیاست سے زیادہ اپنی انا کو تسکین پہچانی تھی اور اپنے سکور سیٹل کرنے تھے۔اور یوں مریم کی مشکلات میں اضافہ ہوا اوران کا سیاسی مستقبل تعطل اور بے یقینی کا شکار ہو گیا۔ مریم نواز کی سیاست اُس وقت شروع ہو ئی جب ان کی جماعت اور خصوصی طور پر ان کے والد سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف پاناما سکینڈل کی زد میں آگئے۔ پاناما سکینڈل کی وجہ سے شروع ہونے والی تفتیش ‘ عمران خان کی طوفانی اپوزیشن ‘ اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی اور ایک ایسا سیاسی بیانیہ جس میں مخاصمت سرِ فہرست تھی‘ مریم کی سیاست کا ابتدائیہ تھا ۔اِنھی مشکل حالات میں مریم نے نہ صرف اپنے والد کے ساتھ ان کی جدوجہد میں ان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا بلکہ سیاسی پنڈتوں کے مشورے پر انھوں نے اِس جدوجہد کو اپنی سیاست کا نقطہِ آغاز بنایا‘ لیکن اثاثہ جات کیس میں مریم نواز اپنے والد کے ہمراہ جیل چلی گئیں اور یوں مشکل حالات پیدا ہو گئے۔ مشکل حالات کی ایک خوبی یہ ہوتی ہے کہ ان میں مواقع بھی ہوتے ہیں۔ جس طرح اچھے وقت کا دورانیہ ہوتا ہے اسی طرح برے وقت کا بھی دورانیہ ہوتا ہے‘ لیکن مشکل وقت میں اپنے ماضی کے طرزِ عمل کا جائزہ لینا اور سبق سیکھنا بہت ضروری ہوتا ہے کہ دوبارہ وہ غلطیاں نہ دوہرائی جائیں ۔
سیاست کے طالب علم کی حیثیت سے میری رائے ہے کہ کوئی بھی شخص جو سیاست کو کیرئیر کے طور پر چُنتا ہے‘ اس کے لیے سب سے پہلے سیاست میں آنے کا اپنا مقصد واضح ہونا چاہیے۔ سیاست کسی اعلی مقصد کے لئے ہونی چاہیے اور جدوجہد میں مقصد واضح طور پر نظر آنا چاہیے۔ مریم کی سیاست میں نفرت اور ٹکراؤ بہت نمایاں رہا۔ مریم کے مشیروں نے ان کو یہ رائے نہ دی کہ سیاست کی بلند وبالا عمارت کی بنیاد نفرت پر نہ رکھیں ‘بھلے وہ چند افراد یا ادارے ہی کیوں نہ ہوں ‘ کیونکہ بنیاد نفرت ہو گی تو آپ اپنے مخالفین کی تعداد میں بلا جواز بے شمار اضافہ کر لیں گے۔ایسی مشاورت کو رد کر دینے کی ضرورت ہوتی ہے‘ جس میں نفرت اور کدورت کی تلقین غالب ہو اور عظیم مقاصد رکھنے والے لوگ کدورتیں نہیں پالتے۔ اصول کی بنیاد پر اختیار کیا گئے موقف اور ٹکراؤ میں فرق ہوتا ہے۔ اصول کی بنیاد آپ کی ذاتی اور پیشہ ورانہ ساکھ پر موقوف ہوتی ہے۔ اگر آپ اخلاقی اور سیاسی اعتبار سے ہائی پیڈسٹل پر کھڑے ہیں تو اصول آپ وضع کریں گے اور اگر آپ اخلاقی اور سیاسی اعتبار سے ہائی پیڈسٹل پر نہیں کھڑے تواصول آپ وضع نہیں کر سکتے‘ جس کا نتیجہ ٹکراؤ کی صورت میں نکلے گا۔ جو بہرحال کبھی بھی اچھا آپشن نہیں ہو سکتا۔
جہاں تک مستقبل میں مریم کی سیاست کا تعلق ہے تو جب وہ سیاست میں دوبارہ سیاسی طور پرفعال ہوں گی تو ان کو نئے پاکستان میں اپنے سیاسی زاویے اور حکمتِ عملی کو کلی طور پر بدلنا پڑے گا اورپہلے درجے کے خود ساختہ مشیر وں کے چناؤ میں دور اندیشی اورانتہائی احتیاط برتنی ہو گی ورنہ نتیجہ پہلے سے مختلف نہیں ہوگا۔
مشکل حالات کی ایک خوبی یہ ہوتی ہے کہ ان میں مواقع بھی ہوتے ہیں۔ جس طرح اچھے وقت کا دورانیہ ہوتا ہے اسی طرح برے وقت کا بھی دورانیہ ہوتا ہے‘ لیکن مشکل وقت میں اپنے ماضی کے طرزِ عمل کا جائزہ لینا اور سبق سیکھنا بہت ضروری ہوتا ہے کہ دوبارہ وہ غلطیاں نہ دوہرائی جائیں ۔