انسان کائنات میں ایک انتہائی ا ہم اکائی اور انسانیت ایک معتبر نظریہ ہے۔ اِس لئے انسان کو مرکز تصور مان کرکے ریاست اپنے فلاحی اور معاشرہ امن وآشتی کے اہداف حاصل کرسکتا ہے۔ گڈ گورننس اور قابلِ تقلید معاشرے کا نقطہ عروج انسان کی فلاح ہے۔ دُنیا کے تمام مذاہب، تمام تہذیبیں، تمام نظریے ، تمام علوم انسانیت کو ہی اجاگر کرتے ہیں۔ مذاہب ، تہذیبیں ،نظریے اور علوم انسان کی مرکزیت پر نہ صرف زور دیتے ہیں بلکہ اُن کا وجود بھی کسی نہ کسی طور انسان ہی سے جڑا دکھائی دیتا ہے۔ ریاست اور معاشرے کا کردار انسان کی بہتری کے لئے ہوگا تووہ ریاست فلاحی ریاست اور وہ معاشرہ انسان دوست معاشرہ کہلائے گا ورنہ ریاست بد امنی و بدحالی اور معاشرہ انتشار کا شکار رہے گا۔
ریاست اور معاشرے انسان کی ضروریات ، نظریات اور جذبات کے تناظر میں اپنے کردار کا تعین کرتے ہیں اِسی لئے نہ صرف وہ انسان کے مصائب اور مسائل کے حل کے ذمہ دار ہیں بلکہ انسان کی معاشرتی آ سودگی کے ضامن بھی ہیں۔ترقی یافتہ دُنیا جسے ہم عام طور پر مہذب دُنیا کہنے میں تامل برتتے ہیں۔ انسان centric ہے۔وہاں انسان کی ضروریات اور خواہشات کو دیکھ کر ریاست اور معاشرہ اپنا کردار وضع کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ترقی یافتہ دُنیا میں معذور افراد کو اُن کی جسمانی یا ذہنی معذوری کی وجہ سے خصوصی حیثیت حاصل ہوتی ہے ، اِس لئے ریاست اُس وقت تک کوئی شاپنگ مال، سکول، کالج یا ہسپتال کی عمارت کو قابلِ استعمال قرار نہیں دیتی جب تک معذور افراد کی ضرورت اور آسانی کے تمام انتظامات مکمل نہ ہوں۔ اِسی طرح معاشرہ بھی معذور افراد کی ذہنی اور جسمانی استعداد کی کمی کے باعث جگہ جگہ اُن کی مدد کرتا ہوا نظر آتا ہے۔معذور افراد کے لئے ریاست اپنا کردار ادا کرتی ہے اور معاشرہ اپنا کردار ادا کرتا ہے اور دونوں کے اِس مثبت کردار کی وجہ سے گو معذور افراد کے مصائب اور محرومیاں ختم نہیں ہوتیں لیکن بڑی حد تک کم ہوجاتی ہیں۔ترقی یافتہ دُنیا یہ نقطہ سمجھ چکی ہے کہ اگر ایک پُر امن اورفلاح کی بنیاد پر معاشرہ تشکیل دینا ہے تو انسان کی بنیادی ضروریات کو محور بنا یا جائے۔
دُنیا میں تحقیق اور سائنسی ترقی کے لئے کی جانے والی ساری جدو جہد کا مرکز انسان ہی دکھائی دیتا ہے۔ انسان کی سفری مشکلات کو دیکھتے ہوئے رفتہ رفتہ دُنیا کا بہترین ٹرانسپورٹ سسٹم بنایا جا چکا ہے ۔ انسان کی خوراک کی ضروریات کو مد ِ نظر رکھ کرزرعی پیداوار میں انقلاب آیا۔ طرح طرح کی پیچیدہ بیماریوں سے اُلجھتے اور سسکتے انسانوں کے لئے تشخیص اور علاج کے لئے کی جانے وا لی کوششوںکی بدولت طب کی دُنیا میں انقلاب برپا ہوا۔انسان کی عمومیCapacity اور محرومیوں کو سامنے رکھتے ہوئے کو دُنیا کے بہترین سوشل سسٹم وجود میں آچکے ہیں۔امریکہ اور مغرب میں انسان ہی سارے نظام کا مرکز و محور ہے جہاں روڈ اور ٹرانسپورٹ سسٹم سے لے کر ، صحت ، تعلیم ، سماجی نظام سب انسان کے مسائل اور ضرورتوں کا احاطہ کیے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ انسانی ضروریات کو اہمیت دیتے ہیں۔ نتیجے میںانسانوں کو بہتر سہولیات میسر آتی ہیں اور وہ اپنی توانائیاں ریاست کی بہتری کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح دونوں ایک دوسرے کے لئے فائدے کا باعث بنتے ہیں۔
انسانی فلاحی نظام کے ارتقاء کے بارے میں کچھ مغربی دانشوروں کا خیال ہے کہ اُنھوں نے سب سے پہلے معاشرے میں انسان کے مسائل کو فوکس کیا پھر انسانوںمیں کمزوروں کو identifyکیا اور اُسی تناسب اُن کے حقوق و فرائض کا تعین کیا۔ مثلاً بچے ‘بوڑھے اور عورتیں مردوں سے زیادہ حقوق کے حامل ہیںاِس لئے کہ وہ مردوں سے کمزور تصور ہوتے ہیں۔ جو طبقات معاشرتی اور سماجی انصاف کے سلسلے میں زیادہ vulnerable ہوتے ہیں‘ریاست اُنھیں تحفظ فراہم کرتی ہے۔ مظلوم کے ساتھ نہ صرف ریاست کھڑی ہو جاتی ہے بلکہ معاشرہ غیر سرکاری اور سماجی تنظیموں کی صورت میں اُس کے حق میں آواز بلند کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اور یہ خیال کوئی نیا اور اچھوتا ہر گز نہیں کہ اسلام نے بھی تعلیمات میں کمزوروں اور مظلوموں کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب دی ہے بلکہ اسلام نے انسان سے متعلق نہ صرف ریاستی ذمہ داری کا پیمانہ طے کردیا اور انسان کی عظمت کو بھی واضح بیان کر دیا۔ جب خلیفہ وقت فرماتے ہیں کہ اگر فرات کے کنارے کتا بھی مر جاتا ہے تو خدشہ ہے کہ مجھ سے پوچھا جائے گا تو دراصل یہ انسان کی اہمیت کا ثبوت ہے۔
انسان کی بنیادی ضرورتوں کا تعلق باعزت روزگار، صحت، تعلیم اور انصاف کی فراہمی سے ہیــ۔اگر بھوک اور افلاس کی ماری کوئی عورت اپنے بچوں کو دریا برد کرتی ہے اور خود بھی موت کو گلے لگا لیتی ہے ‘اگر کوئی بے بس اور لاچار عورت انصاف کی دہلیز پر انصاف ملنے سے پہلے ہی سنگسار کر دی جاتی ہے اور اگر غربت کی چکی میں پل پل پس کر زندگی کے دن پورے کرنے والا بوڑھا شخص تھر کی جھلستی ریت میں مشقت اِس اُمید پہ کرتا ہے کہ شاید کسی دِن وڈیرے سائیں کے گھر رہن رکھی اُس کی اکلوتی جوان بیٹی واپس آجائے گی تو یہ نہ صرف ریاستی ناکامی کا مسئلہ ہے بلکہ بہت حد تک معاشرتی بے حسی کی مثال بھی ہے۔
ریاست کے ذمہ داروں کو یہ سمجھنا ہے کہ انسان بے بس ہے ۔ وہ اپنی مجبوریوں، ضرورتوں، خواہشوں کے جال میں پھنسا ہے اور اُس سے نکلنے کی تگ ودو میں مصروف ہے۔اُس کو کسی نظام کی فکر سے زیادہ اپنی سانس کی ڈور قائم رکھنے کی فکرکھائے جا رہی ہے۔ وہ ایسے
نظام کا خواہاں ہیں جہاں اس کو بھوک ننگ اور سماجی ناانصافیوں جیسے مسائل کا سامنا نہ ہو۔ چین میں حکومتی سطح پر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ چین میں پچھلے دس سالوںمیں پانچ کروڑ لوگوں کو غربت کی لکیر سے اُوپر لے جایا جا چکا ہے ۔ اگر یہ دعویٰ درست ہے اور چین میں لوگوں کی بنیادی ضرورتیں پوری ہونا شروع ہو جاتی ہیں تو چین کے غیر جمہوری سوشلسٹ نظام کو چیلنج کرنے والوں کی تعداد میں نمایاں کمی آئے گی۔لوگوں کو اپنی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے والا نظام درکار ہوتا ہے او رشاید استحصالی چکی میں پستے پستے اُن کی زندگیوں میں ایک وقت ایسا آتا ہے جب وہ اِس بحث کو غیر ضروری سمجھتے ہیں کہ نظام کس نظریے کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ اگر انہیں بنیادی سہولیات میسر ہوں تو ان کا ذہن بھی مطمئن رہتا ہے۔وگرنہ انتشار کا شکار ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ معاشرے کے لئے مثبت کردار ادا نہیں کر سکتے۔
سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ انسان کے مسائل کے حل کے لئے ریاست اور معاشرہ دونوں ذمہ دار ہیں ۔ دُنیا میں جہاں جہاں انسان کی صعوبتوں میں نمایاں کمی آئی، جہاں جہاں سماجی انصاف کی جنگ لڑی گئی، جہاں جہاں حقوق کے حصول کی جدو جہد کی گئی ‘وہاں ریاست اور معاشرے نے اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اگر ایک بے بس و لاچار عورت اپنے بچوں کے ساتھ خودکشی جیسے عمل کی مرتکب ہو جاتی ہے ‘ ایک مجبور و بے بس عورت انصاف کی دہلیز پر انصاف طلب کرتی ہوئی کسی کے ذاتی عناد کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے اور سورج کی آگ میں جلتا بوڑھا مشقتی اپنی جوان بیٹی کا انتہائی بے بسی کے عالم میں کسی معجزے کی مانند انتظار کرتا ہے ...تو یہ طے ہوجاتا ہے کہ ریاست اور معاشرہ اپنے اپنے کردار میں ناکام ہو گئے۔ انسان کی فلاح کے لئے انسانوں پر مشتمل ریاستی مشینری کو فعال اورانسانوں سے تشکیل پانے والے معاشرے کو متحرک ہو نا ہو گا بصورت دیگر تینوں کے وجود کو خطرات اور خدشات لاحق رہیں گے۔