پیش بندی

دہشت گردی کی بیخ کنی کے لئے پاک فوج کا آپریشن ضربِ عضب جاری ہے اور سیاسی اور عسکری حلقے توقع کر رہے ہیں کہ یہ آپریشن جلد ہی اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے گا۔آپریشن کی مجموعی حکمتِ عملی اور اِس کے حوالے سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کو دو مختلف زاویوں سے دیکھا جا ئے تو میر ے خیال میں آپریشن کے ضمن میں دو سطح کی منصوبہ بندی درکار تھی ۔ایک آپریشن سے متعلق سیاسی اور حکومتی سطح کی حکمتِ عملی اور دوسرے عسکری حکمتِ عملی۔ فوج یا اُس کی حکمتِ عملی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی جزئیات میں ایک جز ہے کہ فوج کو قبائلی علاقوں میں موجود دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کرنے مشن سونپ دیا گیا ۔ مشن کی تکمیل کے لئے فوج میں پالیسی سازی اور فیصلہ سازی کا ایک مربوط نظام موجود ہے جہاں معروضی حالات اور دستیاب وسائل کی روشنی میں فیصلے کئے جاتے ہیں۔ اب پاک فوج اپنے مشن کی تکمیل کے لئے جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے پیش قدمی کر رہی ہے‘ لیکن اِس بات کا خیال رہے کہ عسکری محاذ پر فوجی کامیابی دہشت گردی کی جنگ میں حتمی کامیابی نہیں ہوگی‘ سیاسی قیادت کو آپریشن کے بعد کئی معاملات پر یک سُو ہو کر اِس جنگ کو انجام تک پہنچانا ہوگا۔ 
دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ نہ صرف بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر ایک اہم پیش رفت ہے بلکہ یہ ملکی سالمیت اور امن و امان کے لئے بھی ایک ناگزیر فیصلہ تھا جس پر تقریباً تمام سیاسی اور عسکری قیادت یک سُو ہے۔لیکن اِس طرح کے اہمیت کے حامل آپریشن سے قبل، آپریشن کے دوران اور آ پریشن کے بعدپیدا ہونے والی صورتِ حال پر مفصل سوچ بچار اور منصوبہ بندی کی ضرورت تھی جس کا فقدان دیکھنے میں آرہا ہے۔ تین مراحل میں تکمیل پانے والے آپریشن کے پہلے دو مراحل اور اُن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتِ حال سے حکومت اور فوج نمٹ رہی ہے‘ لیکن سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ نہ کرنے پر کچھ منفی نتائج سامنے آئے جو تشویش کا باعث بنے۔ مثال کے طور پر اگر پیش بندی کر لی جاتی تو آئی ڈی پیز کی فوری آباد کاری جیسے بحران کا سامنا نہ ہوتا اور بے گھر ہوجانے والے لوگوں کے لئے دو صوبائی حکومتیں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کرتیں اور شاید ماڈل ٹاؤن جیسا واقعہ بھی نہ ہوتا جِس کی وجہ سے حکومت کو آپریشن کے بعد حاصل ہونے والی سیاسی اور اخلاقی حمایت کھو دینے کا نقصان اُٹھانا پڑا۔
اب آپریشن جاری ہے اور فوج اپنے طے کئے گئے اہداف کو حاصل کر نے کے لئے مسلسل کامیابیاں حاصل کر رہی ہے۔ عسکری قیادت کو قومی اُمیدوں کا ادراک ہے اور وہ اِس کے لئے پُر عزم دکھائی دیتی ہے۔اِس وقت ضرورت اِس امر کی ہے کہ آپریشن کے بعد کی صورتِ حال اور حکمتِ عملی پر غورو خوض کیا جائے اور اِس سلسلے میں مکمل پیش بندی کی جائے۔میرے خیال میںآپریشن کے بعد تین بڑے چیلنجز کا سامنا ہو گا۔ اول‘ تقریباً دس لاکھ آئی ڈی پیز کی اپنے اپنے علاقوں میں پر امن واپسی اور آباد کاری۔ دوم‘ اِس امر کو یقینی بنانا کہ دہشت گرد دوبارہ اِن علاقوں میں منظم نہ ہو سکیں۔ سوم‘ نہ صرف آپریشن کے علاقہ میں بلکہ فاٹا میں مکمل حکومتی عمل داری کو یقینی بنانا آپریشن کے فوری بعد اہم چیلنجز ہوں گے جس کے لیے ابھی سے پالیسی تشکیل دی جانی چاہیے۔
فاٹا میں بعد از آپریشن حکومتی حکمتِ عملی کیا ہونی چاہیے‘ یہ بہت اہم سوال ہے۔ فاٹا میں مکمل حکومتی توجہ کی ضرورت ہوگی ورنہ جلد یا بدیر دہشت گرد منظم ہو سکتے ہیںاور اہم علاقے پھر دہشت گردوں کے زیرِ اثر آ جانے کا امکان رہے گا۔ آپریشن کے بعد فاٹا میں ترقی کے لیے ہنگامی حالت (Development Emergency) نافذ کر دی جائے اورجرمنی کے ترقیاتی ماڈل کو مثال بنایا جائے جہاں مغربی جرمنی نے دیوارِ برلن گرائے جانے کے بعد مشرقی جرمنی کو اپنی ترقی کی سطح پر لانے کے لئے اپنے ترقیاتی فنڈز اُس کو منتقل کردیے۔ اگر پاکستان کے تمام صوبے آئندہ دو سال کے اپنے ڈیویلپمنٹ فنڈ کا بیس فیصد فاٹا کی ترقی اور بحالی کے لئے مختص کردیں تو وہاں تیزی سے ترقیاتی کام مکمل کیے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح اگر ملک میں دو سال کے لئے میگا پراجیکٹس روک کر رقم فاٹا میں خرچ کر دی جائے تو اِس کے بھی مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔فاٹا میں ہر سطح پر سکول کالج اور یونیورسٹیز قائم کی جائیں کہ کیونکہ تعلیم کے فروغ سے ہی انتہا پسندانہ رویوں میں تبدیلی کا امکان ہے ۔ اِس وقت فاٹا میں پاک فوج کے تعاون سے سڑکوں کی تعمیر اور صحت کے حوالے سے بہت سے منصوبوں پر عمل ہو رہا ہے‘ ان کے لیے فنڈز میں اضافہ کیا جائے تا کہ انفراسٹرکچر کو بہتر بنایا جا سکے اور لوگوں کو صحت کی بنیادی سہولتیں بھی بہم پہنچائی جا سکیں ۔ فاٹا کو بتدریج بندوبستی علاقوں (Settled Areas) کی سطح پر لایا جائے اور اِس میںنہ صرف موجود رکاوٹوں کو دور کیا جائے بلکہ مناسب قانون سازی بھی کی جائے۔ موثر حکومتی عمل داری‘ مقامی حکومت کے نظام میں ہے‘ لہٰذا فاٹا میں مقامی سطح کی حکومتیں قائم کی جائیں جس میں پولیس، لوکل ایڈمنسٹریشن اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فعال بنایا جائے۔
بعد از آپریشن پیش بندی میں اِ س امر کو مدِنظر رکھا جائے کہ آپریشن کی وجہ سے دہشت گردوں کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا اور بہت حد تک اُن کی کمر ٹوٹ چکی لیکن اُن کی طرف سے بڑے پیمانے پر ردِعمل کو نظرانداز نہ کیا جائے۔ یہ بات بھی طے ہے کہ دہشت گردوں کی ایک کھیپ جو آپریشن کی زد میں نہ آسکی یا بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئی اُن میں دوبارہ منظم ہونے کی صلاحیت ہے۔ دہشت گرد دوبارہ منظم ہونے کی کوشش کریں گے اور تنظیم نو میں یہی علاقے پھر اُن کے لئے محفوظ مقامات ثابت ہو سکتے ہیں۔ فاٹا میں فوری اور موثر اقدامات ، ترقیاتی کام، مقامی حکومت اور فعال حکومتی ادارے دہشت گردوں کی تنظیم نو کے خلاف ڈھال بن سکیں گے اور دیرپا امن کی ضمانت ہوں گے۔ اگر وہاں مقامی حکومتی ادار ے دہشت گردی کے خلاف ڈھال نہ بن سکے تواب سے چند سال بعد ہم پھر اُن حالات کی طرف واپس جا سکتے ہیں جو ہم پچھلے کئی برسوں سے دیکھ رہے تھے۔ دانش مندی صرف پیش بندی میں ہے۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں