محاسبہ

گڈ گورننس جمہوریت کے حق میںاہم دلیل ہے اور احتساب گڈ گورننس کو یقینی بنانے کا عمل ہے۔ احتساب ،خود احتسابی اور محاسبہ گڈ گورننس اور جمہوریت کے نظریے کو دوام دیتے ہیں۔ جمہوریت، جمہور کو حق دیتی ہے کہ وہ اہل ِ اختیار سے سوال کر سکیں۔ محاسبہ اِس لئے ضروری ہے کہ یہ گڈ گورننس کا حسن ہے ۔ جمہوریت کسی خاص گروہ یا طبقے کے مفادات کا نہیں بلکہ جمہور کے اجتماعی مفادات کا نظریہ ہے۔ ماضی قریب میںمغربی جمہوریت کو اِس لئے فروغ ملا کہ وہ احتساب اور فلاح کے نظریے سے مشروط رہی۔ جمہوریت کا منطقی نتیجہ اگرجمہور کی فلاح نہ ہوتا تو کبھی بھی اِس نظام کو اِس قدر پذیرائی نہ ملتی۔ جمہوریت اور گڈ گورننس کے لئے کڑا احتساب اور مسلسل خود احتسابی ایسے ہی لازم ہیں جیسے کسی جاندار کا زندہ رہنے کے لئے سانس لینا ضروری ہے۔کسی بھی ترقی پذیر ملک میں اختیارات اور ذمہ داری کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔اختیار ذمہ داری کا متقاضی ہوتا ہے۔زیادہ اختیار ! زیادہ ذمہ داری! یہ یقینی بنانے کے لئے کہ اہل ِ اختیار اپنی ذمہ داریاں طے شدہ آئینی اور اخلاقی حدود میں رہ کر انجام دیں، احتساب کا غیر جانبدارانہ اور مُنصفانہ نظام وضع کیا جاتا ہے۔ محاسبے سے متعلق دوسرا پہلو خود احتسابی ہے۔ خود احتسابی اختیارات استعمال کرنے والے افرادمعاشرتی اور اخلاقی معیار کا ادراک کرتے ہوئے رضا کارانہ طور پر کرتے ہیں۔ ریاست احتساب کی عمل داری یقینی بنانے کے لئے قانون سازی کرتی ہے اور معاشرہ خود احتسابی کی روایت کو فروغ دینے میں مدد دیتا ہے۔ یوں احتساب اور خود احتسابی ایک دوسرے سے تقویت حاصل کر تے ہیں۔اگر کوئی ملک سیاسی، معاشرتی اور انتظامی بے راہ روی کاشکار ہو تو یہ سمجھنے میں دُشواری نہیں ہونی چاہیے کہ اُس ملک میں احتساب کے لئے کسی قسم کا انفراسٹرکچر موجود نہیں اور اگر موجود ہے تو وہ موثر نہیں ہے۔ خود احتسابی کے لئے کوئی اخلاقی پیمانہ وضع نہ کرنے والے معاشرے معاشرتی اور سماجی مسائل کا شکار رہتے ہیں۔
ہمارے ملک میں جمہوری نظام رائج ہے جس کو بہت سے معتبر سکالرز اسلامی نظام سے متصادم تصور کرتے ہیں لیکن بہت سے بنیادی سماجی اور معاشرتی معاملات میں ہم اسلام کے راہ نما اُصولوں سے راہ نمائی لیتے ہیں۔ خاص طور پر اسلام کے ابتدائی دور کی بہت سی قابل ِ تقلید مثالوں کو اپنے لئے رہنما تصور کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص وقت کے خلیفہ سے بھری محفل میں اُٹھ کر سوال کر سکتا ہے کہ آپ کی قمیص کے لئے زائد کپڑا کہاں سے آیا کہ مالِ غنیمت کے حصے سے آپ کی قمیص بننا ممکن نہیں تھا اور اُس کے جواب میں رُعب و دبدبے کے حامل خلیفہ کو وضاحت کرنا پڑتی ہے کہ اُنھوں نے زائد کپڑا کیوں اور کیسے حاصل کیا تو یہ احتساب کی بہت عمدہ مثال
ہے۔ اگر وقت کے خلیفہ نے اِس بات کا خدشہ ظاہر کیا کہ اگر فرات کے کنارے بکری کا بچہ بھی بھوک اور پیاس سے مر گیا تو اُن سے اِس بات پر سرزنش ہو سکتی ہے تو یہ خود احتسابی کی مثال ہے۔ اِسی طرح بہت سے تاریخی واقعات ثابت کرتے ہیں کہ مسلم تاریخ میں کئی اعلیٰ پائے کے حکمران گزرے ہیں جو خود کو قابلِ مواخذہ سمجھتے تھے اور ان کے ادوار میں احتساب کوبڑی اہمیت حاصل تھی۔
جمہوریت میں احتساب کا مقصد یہ ہے کہ اہلِ اختیار کے لئے کچھ اصول و ضوابط طے ہوں اور وہ اِس امرکا ادراک کریں کہ وہ اپنے اچھے یا برے کنٹرکٹ کے لئے جمہور کے نمائندہ اداروں کو جواب دہ ہیں۔احتساب کسی خاص گروہ یا طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لئے نہیں ہو تا بلکہ اِس کی زد میں تمام لوگ بلا تفریق آتے ہیں۔ جس طرح اختیارات کاضابطہ اخلاق ہوتا ہے ایسے ہی احتساب کا بھی ضابطہ اخلاق ہوتا ہے اِسی لئے جدید جمہوری ممالک نے پہلے اختیارات کا توازن یقینی بنایااور پھر احتساب کا نظام بھی جامع اور بلا تفریق وضع کیا تاکہ اختیارات سے تجاوز کی صورت میںقانون حرکت میں لایا جاسکے ۔جہاں تک خود احتسابی کا تعلق ہے خود احتسابی اہلِ اختیار کو اعلی اخلاقی منصب پر کھڑا کرتی ہے۔ خود احتسابی سے قوموں کا رویہ تشکیل پاتا ہے جو کہ معاشرت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اگر کسی مہذب معاشرے میں معاشرتی اور سماجی سطح پر نظم دکھائی دے تو سمجھ لیجئے کہ لوگ مسلسل خود احتسابی کے عمل سے گزر رہے ہیں ۔جہاں معاشرتی اور سماجی نا انصافی، قانون شکنی اور بد نظمی رائج اور قابلِ قبول رویہ ہو وہاں خود احتسابی کا فقدان بڑی وجہ ہو گا۔
مغربی جمہوری معاشروں میں محاسبے اورجواب دہی کا تصور عام ہے۔ محاسبہ اپنی ہیٔت اور زاویے کے اعتبا ر سے جمہوریت کو مضبوط کرتا ہے۔ جمہوریت میں ذمہ دار حاکم خود کو جواب دہ اور قابلِ محاسبہ سمجھتے ہیں اور لوگ بھی حکمرانوں کے محاسبے کو اپنا حق سمجھتے ہیں ۔ مجھے واشنگٹن ڈی سی میں ایک امریکی نے بتایا کہ اس نے الیکشن کے دوران اپنی پارٹی کے ایک مشہور اُمیدوارکواس لئے ووٹ نہیں دیا کہ اُس کو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر دو مرتبہ سزا ہو چکی تھی ۔ صرف دو مرتبہ تیز رفتاری پر سزا ہونے پر اُس شخص کا خیال تھا کہ متعلقہ اُمیدوار ایک ذمہ دار شہری نہیں ہے اِس لئے اُس کو منتخب نہیں ہونا چاہیے۔ یہ محاسبے اور جواب دہی کا تصور ہے جس کی وجہ سے لوگ ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے منصب سے الگ ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی کسی وجہ سے اختیار سے الگ نہ ہو تو تحقیقاتی ادارے کسی دباؤ کے بغیر آزادانہ تحقیقات کرتے ہیں۔قارئین کرام! ہم جیسے لوگوں کے لئے جو ہر معاملے میں درمیانی راستے تلاش کرتے ہیں یہ بھی سمجھنا بہت ضروری ہے کہ احتساب میں کوئی درمیانی راستہ نہیں ہوتا ۔ احتساب، یا تو ہوتا ہے،یا نہیں ہوتا۔
احتساب کا زاویہ مختلف ہوتا ہے اور خود احتسابی کا زاویہ مختلف ہوتا ہے ۔احتساب ریاستی قوانین کی بدولت نافذ ہوسکتا ہے جب کہ خود احتسابی ایک رضاکارانہ عمل ہے جو صاحبِ اختیار خود پر لاگو کر سکتا ہے۔ احتساب کے لئے ریاستی کٹہرے میں کھڑا ہو نا پڑتا ہے جبکہ خود احتسابی کے لئے ضمیر کے کٹہرے میں۔احتساب کسی بھی قوم کے نظم کا مظہر اور خود احتسابی نفیس رویوں کی عکاس ہو تی ہے۔احتساب اور خود احتسابی ایک جیسے عمل نہیں ہوتے لیکن قوموں میں یہ دونوں ساتھ ساتھ نمو پاتے ہیں۔ لیکن اِس کے لئے معاشرے کے طاقت ور اوراہل ِ اختیار طبقات کو اخلاقیات کے بہت اعلیٰ معیا ر پر فائز ہو نا پڑتا ہے اور بہت سارے فیصلے اپنی ذات کی نفی کر کے کرنے ہوتے ہیں۔ جمہورکو ذات برادری کے چنگل سے نکل کر سوچنا ہو تا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں