بدین کے ایک پسماندہ قصبے نندو سے جب ایک بچہ اپنے شکستہ حال خاندان کے ساتھ روزگار کی تلاش میں کراچی آیا ‘تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ شعبہ صحافت کے آسمان پر ایک نئے ستارے کا اضافہ ہونے جارہا ہے ۔ کم عمری میں یتیمی کا غم دیکھنا پڑا‘ تو دو بہنوں کی ذمہ داری بھی اسی پر آگئی۔ شکم سیری کی ہوس سے عاری یہ بچہ محض اپنی بہنوں کے پیٹ کی آگ بھجانے ‘ شہر کے ہوٹلوں کے باہر کھڑا ہوجاتا اور بچا ہوا کھانا جمع کرکے گھر لے جاتا‘ روزانہ اس عمل کو دہراتے دیکھ کر ہوٹل کے مالک کو رحم آیا تو کھانے اور معمولی اجرت کے عوض برتن دھونے کے کام پر رکھ لیا۔بھوک مٹانے کی سبیل پیدا ہوئی تو اس کے خمیر میں موجود حصول ِعلم کی جستجو بیدار ہوگئی۔سکول جانا تو اس کیلئے محض خواب تھا۔ سو‘ اپنی بے چین روح کو قرار ایسے دیا کہ ہوٹل آنے والے گاہکوں کو ہی استاد بنا لیا اور سیکھنے کا عمل جاری رکھا۔ اس نے ایام کی تلخی کو قلفیاں بیچ کر بھی کم کرنے کی کوشش کی۔ کم عمری میں ہی اپنی بساط سے زیادہ بوجھ اٹھانا سیکھ لیا‘ اس لیے بینک میں بھاری بوجھ اٹھانے کی ملازمت نے اسے پریشان نہ کیا۔ اجرت کے نام پر جو ملا‘ صبر و شکر سے لے لیا۔ بس علم کی طلب اسے کسی پل سکون سے نہ بیٹھنے نہ دیتی۔ بالآخر اس کی اندر موجود ہلچل کو سکون اس وقت ملا جب پرانی کتب کی خریدوفروخت کے حوالے سے کراچی کی مشہور زیب النساء سٹریٹ پر قائم قدیم و معروف ترین ''ساسی بک سٹال‘‘ پر کتابیں اٹھانے اور ڈھونے کا کام شروع کردیا۔ اس کی تو جیسے دعائیں رنگ لے آئیں۔ طویل عرصہ کتابوں کا بوجھ خوشی خوشی اٹھانے کے ساتھ ساتھ علم کی آسودگی بھی پاتا رہا۔بک سٹال پر آنے والے گاہک ایک کم عمر نوجوان کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ‘جو انگریزی ‘اردو‘ فارسی‘ عربی زبانوں پر عبور رکھتا تھا ‘مگر کبھی سکول کی شکل تک نہیں دیکھی۔ یہ وہ دور تھا‘ جب کتب دوستی ہی اہل علم اور اہل قلم کو ممتاز کرتی تھی۔ سو‘ اس بک سٹال پر اس قبیل کا آنا جانا لگا رہتا تھا‘پھر یوں ہوا کہ ایک روز اس وقت کے معروف صحافی احسان اللہ صاحب اس بک سٹال پر آئے‘ تو ان کی اس نوجوان سے ملاقات جوہر اور جوہری کی ملاقات ثابت ہوئی۔ احسان اللہ صاحب نے اس نوجوان کوکراچی سے نکلنے والے اپنے انگریزی روزنامے میں بطورِ پروف ریڈر بھرتی کیا اور پھر رپورٹر بنا دیا۔ محنت و لگن سے کام کی بدولت 1980ء میں ہی یہ نوجوان پاکستان کے معروف انگریزی روزنامے کا نامور کرائم رپورٹر بن گیا ۔
یہ داستان ہے کراچی کے شعبہ صحافت میں اپنی علیحدہ شناخت رکھنے والے معروف کرائم رپورٹر غلام علی خوجہ کی‘ جو شعبہ صحافت میں ''کاکا‘‘ کے نام سے جانے جاتے تھے۔ غلام علی کاکا نے ایماندارانہ اور اصول پسند صحافت کی ایسی حدود متعین کیں‘ جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کامیاب صحافت کا پیمانہ قرار پائیں۔ ایک ایسا صحافی‘ جس کے پاس کوئی تعلیمی سند نہیں تھی ‘مگرجرمن فرانسیسی‘ انگریزی ‘اُردو ‘ فارسی‘ سنسکرت‘ ہندی‘ پنجابی ‘گجراتی ‘ پشتو‘ بلوچی براہوی سرائیکی سمیت درجن بھر زبانوں پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ 1998ء میں ریٹائرمنٹ لی تو ادارے نے مزید استفادہ حاصل کرنے کیلئے کنٹریکٹ کرلیا اور 2003ء تادم مرگ وہ ادارے سے وابستہ رہے۔ آخری ایام میں ذیابیطس اوررعشہ کا بھی مرض بھی اسے نہیں توڑ سکا۔ دفتر باقاعدگی سے آتے اور جب انہیں حرکت کرنے کیلئے کسی مدد کی ضرورت ہوتی تو اپنے جونیئرز سے کہتے کہ ''جوانو! مجھے ایک دھکا تو لگائو‘‘۔ کراچی کے کرائم رپورٹرز‘ انہیں استاد کہتے تھے۔
غلام علی کاکا نے کراچی کی صحافت پر اس وقت راج کیا‘ جب کوئی نیوز چینل نہیں تھا ۔ پاکستان کے معروف انگریزی روزنامے میں کرائم رپورٹنگ ایسے دور میں کی کہ جب کرائم رپورٹر کے قلم کی نوک سے آئی جی تبدیل ہوا کرتے تھے‘ مگر کاکا کے قلم سے کبھی خوشامد ہوسکی اور نہ ہی کبھی بلیک میلنگ‘ اسی لیے کھارادر کے اولڈ سٹی ایریا میں حاجانی بلڈنگ کے دو کمروں کے تنگ سے فلیٹ میں زندگی گزار دی۔ وہ قلم فروخت کرکے حاصل کی گئی آسائشوں کو آلائشوں سے بدتر سمجھتے تھے۔تاحیات کسی ایسے صحافی کو اپنے قریب نہ پھٹکنے دیا جس پر قلم فروش ہونے کا گمان ہوا۔ یہ تھے شعبہ صحافت کے سر کا تاج کہ جن کا ذکر آج بھی ان کے شاگرد باوضو ہوکر کرنا پسند کرتے ہیں ۔ان کے شاگرد خاص اے ایچ خانزادہ سے بات ہو تو ان کی نگاہیں اپنے استاد کے احترام سے جھک جاتی ہیں اور آنکھوں کے گوشوں میں نمی جھانکنے لگتی ہے۔غلام علی کاکا جیسے صحافیوں کا قبیلہ ہی الگ تھا۔ اس قبیل کے صحافی آج بھی دم توڑتی صحافت کیلئے تنفس کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ۔
ایک ایسے دور میں کہ جب ریٹنگ کا حصول ہی کامیابی کا معیار ٹھہرا ہے‘ غلام علی کاکا کی قلندرانہ صحافت کا عکس ڈھونڈنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔اداکار صحافی کہلائے جانے لگے۔ ٹی آر پی بڑھانے کیلئے پارکس میں جوڑے بٹھا کر ان پر خود ہی چھاپے مارے جاتے ہیں اور بات عدالت پہنچے تو معافیاں مانگی جاتی ہیں‘ مگر اس ضلالت پر بھی کوئی شرمندگی نہیں ہوتی اور اسی ڈھٹائی سے جعلی پروگرام جاری رہتے ہیں‘ پھر کبھی کسی گھر کی چار دیوانی کا تقدس پامال کیا جاتا ہے اور گھر کے سربراہ پر الزامات کی بوچھاڑ کے ساتھ ساتھ اس کی بیٹی کے کمرے میں اسلحہ و گولیاں خود رکھ دی جاتی ہیں‘ مگر رب ِباری تعالیٰ نے ان جھوٹے ''صحافیوں ‘‘ کا بھانڈہ بھی بیچ چواراہے میں پھوڑ دیا‘ جب ان کی ٹیم کے ایک رکن نے اصل ویڈیو لیک کردی‘ جس میں ٹیم کے ارکان ہی اس گھر میں اسلحہ اور گولیاں رکھ رہے تھے۔ اس جعل سازی کے نتیجے میں اس ادارے اور اس کی ٹیم نے قومی و بین الاقوامی سطح پر ملامت سمیٹی ‘مگر اثر کچھ نہ ہوا اور آج بھی اسے ڈھٹائی سے اپنے طرزِعمل پر قائم ہیں۔
کراچی میں ایسے صحافی بھی ہیں‘ جن سے نہ تو علماء کی دستار محفوظ ہے اور نہ بنت ِ حوا کے حجاب۔ معروف چینل و اخبار کا سہارا لیکر اساتذہ کی پگڑیاں اچھالنے کی روایت زور پکڑتی جارہی ہے۔ رپورٹر کو ایک یونی ورسٹی میں لیکچر دینے کی اجازت نہ ملی تو اپنی مادرِعلمی پر بہتان تراشیاں شروع کردیں۔ سرکاری اداروں کو بلیک میل کرکے گاڑیاں حاصل کرنا اور پھر اپنی صحافت کو‘ شعبہ ابلاغ عامہ کی سربراہ بنوانے کیلئے استعمال کرنا‘ برفتی برانڈ کے تعلیم فروش کم ظرفوں کا ہی وطیرہ ہے اورانھی کم ظرفیوں کی بدولت کوئی کراچی کے پوش علاقے میں کروڑوں کی رہائش لیتا ہے‘ کوئی اپنی بیوی‘بھائی کو بھرتی کراتا ہے ۔کاکا کہتے تھے؛ قلم فروشی جسم فروشی سے بدتر ہے‘ مگر جب قلم فروشی میں زیادہ کمائی نظر آئی تو دوسری صنف پہلی میں ضم ہوگئی۔ یقینی طو رپر یہ قلم فروش‘ غلام علی کاکا مرحوم‘ جیسے صحافیوں کا ورثہ نہیں ہوسکتے‘ بلکہ شاید خود کو صحافی سمجھنے والا یہ گروہ غلام علی کاکا سے واقف بھی نہ ہو‘ کیونکہ عملی زندگی میں کی جانے والی سرگرمیاں اجداد کا پتا دے دیتی ہیں۔ اس کیلئے کسی بڑی تحقیق کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔