"WAC" (space) message & send to 7575

مشرف کا عہدِ ستم

دوسروں پر طنز کے نشتر چلانا اور دوسروں کی ناکامیوں پر ہاتھ رکھنا آسان کام ہے اب جبکہ موجودہ حکومت کا دورِ اقتدار دو ہفتوں کا مہمان ہے‘ پاکستان کی سیاسی جماعتیں انتخابی عمل میں اُترنے کی حکمت عملی کے مراحل طے کر رہی ہیں اور سیاسی اتحادوں کا قیام عمل میں آ رہا ہے‘ سابق صدر پاکستان پرویز مشرف نے نگران حکومت کے قائم ہوتے ہی سات یوم کے اندر پاکستان آنے اور انتخابی عمل میں بھرپور انداز میں حصّہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ مشرف کی پریس کانفرنس سے تو یُوں لگا جیسے پاکستان میں جمہوریت کا قصہ پاک ہوا چاہتا ہے کیونکہ جمہوریت کے نام پر ملک کو تباہ کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ مشرف صاحب! جمہوریت میں لاکھ عیب سہی‘ آپ کی جانب سے سیاستدانوں کی کرپشن کے الزام بھی رد نہیں کیے جا سکتے‘ ان پر ’ناکام اقتصادی منیجر‘ کی پھبتی بھی کسی جا سکتی ہے اور آپ ملک کی بدنامی کی تہمت بھی سیاستدانوں پر لگا سکتے ہیں‘ مگر یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ دوسروں پر طنز کے نشتر چلانا اور دوسروں کی ناکامیوں پر ہاتھ رکھنا آسان کام ہے‘ اپنا جائزہ لینا قدرے مشکل ہے۔ آپ نے اس ملک میں جو’’ آئیڈیل ‘‘جمہوریت متعارف کرائی تھی‘ کبھی اس پر بھی غور فرما لیا ہوتا! کاش آپ اقتدار پر شب خون مارنے سے پہلے قائداعظمؒ کی 25 مارچ 1948ء کی تقریر بھی پڑھ لیتے جو انہوں نے چٹاگانگ مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کے سرکاری افسروں کے سامنے کی تھی کہ ’’آپ کو ایک سرکاری ملازم کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دینے ہیں۔ آپ کا سیاست اور سیاسی جماعتوں سے کوئی سروکار نہیں‘‘۔ پھر 14 اپریل 1948ء کو گورنر ہاؤس پشاور میں اعلیٰ سرکاری ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا ’’آپ کو کسی سیاسی جماعت کے ساتھ تعاون کرنے کی اجازت نہیں۔ یہ آپ کا کام نہیں کہ آپ کسی جماعت کی اعانت کریں۔‘‘ نوازشریف کے خلاف پرانے کھلاڑی اُس وقت پردۂ سکرین پر ایک ایک کرکے نمودار ہونے لگے‘ جب انہوںنے آئین پاکستان میں تیرھویں ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ کو مضبوط کر دیا۔ میاں نواز شریف کو ضیاء الحق کی باقیات کا طعنہ دینے والوں کے لیے 31 مارچ 1997ء کا دن حیرتوں میں ڈوبا ہوا تھا جب انہوں نے آئین سے ضیاء الحق کی وہ تمام آمرانہ ترامیم نکال دیں جو آٹھویں ترمیم کے ذریعے داخل کی گئی تھیں۔ خود محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے میاں نواز شریف کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے تیرھویں ترمیم کو شاندار کارنامہ قرار دیا۔ سیاست پر حاوی جو قوتیں ’’سٹیٹس کو‘‘ پر چل رہی تھیں‘ انہیں قبول نہیں تھا کہ وہ سیاسی دکانیں بند کرکے چلتے بنیں اور نواز شریف قدم جمانے میں کامیاب ہو جائیں۔ میاں نوازشریف کا یہی ’’جرم‘‘ قابلِ تعزیر ٹھہرا اور جو سازشیں کونوں کھدروں میں پل رہی تھیں‘ نمودار ہو کر زور پکڑنے لگیں۔ مشرف صاحب کے نقطۂ نظر کے مطابق پاکستان کی بیکار جمہوریت اور گلا سڑا نظام اور کرپٹ قیادت کچھ نہیں کر سکی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جمہوری حکومت کو غلطیوں سے سیکھنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ جب جمہوری حکومت کچھ نہیں کرتی تو پانچ سال کے بعد عوام کو ایسی حکومت کے احتساب کا حق حاصل ہوتا ہے۔ برطانیہ کی جمہوریت نے ایک عہد کو متاثر کیا ہے اور اس کے ثمرات سے عوام جی بھر کر مستفید ہو رہے ہیں مگر برطانیہ کو جمہوریت اور آزادی بڑی قربانیوں کے بعد ملی ہے۔ وہاں بھی جمہوریت اور بادشاہت کے درمیان طویل عرصہ تک جنگ جاری رہی اور ملکہ الزبتھ اول کے زمانے میں یہ اصول طے ہوا کہ ارکان کی نااہلیت یا اہلیت کا اختیار مکمل طور پر پارلیمنٹ کو حاصل ہے۔ پرویز مشرف کا معاملہ جمہوریت اور عوامی رائے کے برعکس تھا۔ اقتدار میں رہنے کیلئے 2002ء کے انتخاب میں ان کی بنائی ہوئی کنگز پارٹی کو پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل نہ ہو سکی تو پیپلزپارٹی کے ایک دھڑے کو توڑ کر پیٹریاٹ کا نام دینے میں مشرف کی حکمت عملی شامل تھی۔ یہ ان کے ’’پائیدار اور مستحکم‘‘ دور کا آغاز تھا جو سراسر بے اصولی کا ثمر تھا۔ دسمبر 2003ء میں پرویز مشرف نے متحدہ مجلس عمل کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کی شرائط میں یہ بھی شامل تھا کہ مشرف صاحب 31 دسمبر 2004ء تک وردی اتار دیں گے مگر بعد ازاں اپنے حامیوں کی تعداد میں اضافہ کرکے صدر کے ساتھ آرمی چیف کا عہدہ رکھنے کا بل بھی پاس کرا لیا اور یکم جنوری 2004ء کو الیکٹرول کالج سے اعتماد کا ووٹ بھی لے لیا۔ انہیں 1,170 ووٹوں میں سے 658 ووٹ ملے۔ اس کے بعد میر ظفر اللہ جمالی کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹا کر شوکت عزیز کو وزیراعظم بنوا لیا۔تاہم بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف کو پاکستان نہ آنے دینے کی دھمکیوں کے باوجود انہیں جمہوریت کے سامنے سرنڈر کرنا پڑا۔ غیرملکی طاقتوں کی مداخلت ان کی مددگار ٹھہری۔ مواخذے کی بجائے ان کو گارڈ آف آنر پیش کرکے ملک سے جانے دیا گیا۔ 7 اگست 2008ء سے جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے پرویز مشرف کے دل میں اقتدار کی خواہش ماند نہیں پڑی۔ انہوں نے اس مقصد کے لیے آل پاکستان مسلم لیگ قائم کی اور بار بار پاکستان آنے کی تاریخیں دیتے رہے مگر آئے نہیں ۔ مشرف صاحب کے لیے اب بھی بہتر یہی ہے کہ وہ برطانیہ میں ہی قیام کریں۔ ریٹائرڈ زندگی کے مزے لیں‘ کیوں اُن کی طاقت کے سب سے بڑے مرکز‘ اُن کی قائم کردہ مسلم لیگ (ق) کا شیرازہ بکھر چکا ہے‘ اُن کا قائم کردہ لوکل گورنمنٹ سسٹم اور ان کی پوری ٹیم غائب ہو چکی ہے‘ امریکہ کی حمایت سے وہ ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور ادھر پاکستان میں آئین توڑنے کی کارروائی اُن کی منتظر ہے‘ نواب اکبر بگٹی کا قتل اُن کا پیچھا کررہا ہے‘ فوج میں اُن کا اثر و رسوخ خاصی حد تک ختم ہو چکا ہے اور جن لوگوں نے اُن کے دور میں مشکلات کا مقابلہ کیا اب وہ خاصے طاقتور ہیں۔ مشرف صاحب جمہوریت کو اُسی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں تو بہتر ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں