"WAC" (space) message & send to 7575

شاباش سیاست دانو!

پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کی موجودہ حکومت شاباش کی حقدار ٹھہری کہ اس نے آئین پاکستان کی ٹیلرنگ ایسے انداز میں کر دی ہے کہ آئندہ کوئی طالع آزما اپنی مہم جوئی میں کامیاب نہ ہو سکے گا۔ اس کریڈٹ کا بڑا حصہ اپوزیشن، پاکستان آرمی اور سپریم کورٹ آف پاکستان کو بھی جانا چاہیے جنہوں نے آئین کی بالادستی کی بھرپور حمایت کی۔ نگران حکومتوں کے جس طریق کار کو 20ویں آئینی ترمیم میں تجویز کیا گیا ہے اُس میں کسی بحران اور غیر جمہوری راستے کی طرف جانے کا امکان ہی نہیں‘ معاملہ زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ لٹک سکتا ہے۔ 16 مارچ 2013 ء کو پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنے اقتدار کا حق آخری لمحہ تک استعمال کر لیا ہے۔ اسمبلی کی مدت ختم ہونے سے پہلے نگران وزیراعظم کیلئے حکومت اور اپوزیشن نے جو چھ نام پیش کیے تھے، ان میں سے پاکستان پیپلزپارٹی نے عبدالحفیظ شیخ اور اپوزیشن نے جسٹس (ر) شاکر اللہ جان کا نام واپس لے لیا ہے۔ اپوزیشن لیڈر چودھری نثار علی خان پیپلزپارٹی کے دونوں نام جسٹس (ر) ہزار خان کھوسو اور ڈاکٹر عشرت حسین کا نام مسترد کر دیے ہیں جبکہ پیپلزپارٹی بھی مسلم لیگ (ن) کے دونوں نام پہلے ہی مسترد کر چکی ہے۔ حکمران جماعت نے پارلیمانی کمیٹی کے مرحلے کیلئے چودھری شجاعت حسین، فاروق ایچ نائیک، غلام محمد بلور اور سید خورشید شاہ کے نام تجویز کیے ہیں جبکہ میاں نواز شریف کا کہنا ہے وہ نگرانوں کیلئے آئینی طریقہ اختیار کریں گے۔ یوں نگران وزیراعظم کا معاملہ اقتدار کی مدت ختم ہونے کے سات دن کے اندر طے ہو جائے گا۔ صوبائی نگران حکومتوں کا معاملہ مرکز سے برعکس کچھ الجھا ہوا ہے۔ تین صوبائی حکومتوں کی مدت اپریل 2013 کے ابتدائی دنوں میں تمام ہو گی۔ تاہم محسوس ہوتا ہے صوبائی حکومتیں بڑے پن کا مظاہرہ کریں گی۔ اس کی ابتدا خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ امیر حیدر ہوتی نے کی ہے جنہوں نے اپوزیشن لیڈر کو نگران وزیراعلیٰ کیلئے کوئی خط نہیں لکھا بلکہ پختون روایت کے مطابق وہ خود چل کر اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی کے گھر گئے۔ انہوں نے کچھ نام اپوزیشن لیڈر کے سامنے رکھے اور کچھ اُن سے لیے۔ چند دنوں میں اپنی پارٹی سے مشاورت کے بعد پہلے سابق آئی جی پولیس عباس خان کا نام سامنے آیا۔ اُن کے نام کی بجائے اب سپریم کورٹ کے سابق جج طارق پرویز کے نام پر اتفاق ہو گیا ہے۔ اس کا اعلان وزیراعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر نے ایک پریس کانفرنس میں کر دیا ہے۔ نگران حکومتوں کے کھیل میں حکمت عملی اور کچھ چالاکیاں بھی سامنے آئی ہیں۔ جب بیسویں ترمیم پاس ہوئی تھی تو اُس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ صوبائی حکومتیں اقتدار کے آخری دنوں یا مہینوں میں حکومت سے الگ ہو کر حقیقی اپوزیشن کو ایک طرف دھکیل کر خود اپوزیشن بن کر اپنی مرضی کا وزیراعلیٰ لانے میں کامیاب ہو جائیںگی۔ سندھ میں ایم کیو ایم اور بلوچستان میں جمعیت علمائے اسلام (ف) نے یہی کیا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نگران حکومتوں میں الجھنے کی بجائے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اپنے زیادہ سے زیادہ امیدوار کامیاب کرانے کی فکر میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نگران وزیراعظم کیلئے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو نگران بنانے کی حمایت کی ہے کیونکہ انہیں خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی ضرورت ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو یہ وسوسے بھی دامن گیر ہیںکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان مذہبی جماعتوں کو انتخابی عمل سے باہر کرنا چاہتا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کو بے یقینی کی فضا ختم کرنی چاہیے ،البتہ جعلسازوں، قرضہ معاف کرانے والوں، ٹیکس نہ دینے والوں، سزا یافتہ، کرپٹ اور جرائم میں ملوث افراد کا راستہ روکنا ضروری ہے۔ سیاست دانوں نے پہلی بار انتخابی قواعد کے احترام کا مظاہرہ کیا ہے۔ اپوزیشن لیڈر چودھری نثار نے اپنی سند ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ارسال کر دی ہے۔ دوسری جانب علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی دوسری یلغار کر دی ہے جس کا آغاز وہ 17 مارچ کو لیاقت باغ راولپنڈی میںجلسہ کرکے کریں گے۔ جنرل پرویز مشرف اپنی پانچ سالہ جلاوطنی ختم کرکے پاکستان آنے والے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ پاکستان میں جاری جمہوری عمل کا حصہ بنتے ہیں یا خفیہ ہاتھوں سے اپنے لیے الگ راستے بناتے ہیں۔ 1973 ء کا آئین بناتے وقت پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے آئینی مدت پوری کرنے کے بعد نگران حکومتوں کے کردار پر زیادہ توجہ نہیں دی تھی جس کی وجہ شاید یہ تھی کہ 1970ء کے انتخابات میں دھاندلی کی شکایات یوں سامنے نہیں آئی تھیں۔ 1977 ء کے انتخاب میں ذوالفقار علی بھٹو آئین کے مطابق نگران وزیراعظم بن گئے اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کا تعلق بھی پیپلزپارٹی سے تھا۔ 1988 ء کے انتخابی عمل میں بھی نگران حکومتوں نے جانبداری کا مظاہرہ کیا۔ 1990ء میں نگران وزیراعظم غلام مصطفی جتوئی تھے جنہوں نے بے نظیر بھٹو کی زبردست مخالف کی۔ اُن کی نگرانی میں انتخابات کیسے شفاف ہو سکتے تھے۔ ان کی شفافیت کا فیصلہ سپریم کورٹ آف پاکستان ایئر مارشل اصغر خان کیس میں کر چکی ہے۔ معین قریشی کی نگرانی میں ہونے والا الیکشن بھی غیر شفاف قرار پا چکا ہے۔ اگر سیاستدانوں کے ماضی کی طرف دیکھیں ارکان پارلیمنٹ نے اکتوبر سے دسمبر 1994ء تک قومی اسمبلی کے ریکارڈ توڑے اور ایسے مناظر پیش کیے جو ماضی کی کسی اسمبلی میں نہیں دیکھے گئے۔ مار کٹائی ہوئی اور ایک دوسرے کے کپڑے اور سر پھاڑ دیئے گئے۔ اپوزیشن حکومت کو ٹف ٹائم دینے اور پوائنٹ سکورنگ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی تھی۔ اس وقت کے صدر فاروق لغاری 14 نومبر 1994ء کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیلئے قومی اسمبلی پہنچے تو ایسے لگتاتھا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت سے حساب بے باک کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ قومی اسمبلی میں غیر سنجیدگی کا یہ رویہ 1999ء تک جاری رہا۔ قومی اسمبلی کے باہر کا ماحول بھی لانگ مارچ، ٹرین مارچ، تحریک نجات اور دھرنوں سے سجا تھا۔ میثاق جمہوریت میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ دونوں لیڈروں نے دس سالہ جلاوطنی کے بعد بہت کچھ سیکھا۔ قومی اسمبلی کے 50 ویں سیشن کے آخری اجلاس میں بے نظیر بھٹو کی جمہوریت کیلئے قربانی پر زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا۔ امید ہے یہ انتخابات عوام کی مستقبل کے بارے میں اُمیدوں کو پورا کریں گے اور دیانتدار رہنما حکمران بنیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں